اقدار سازی سے اقدار سوزی تک

 

عبدالاحد مغیثی قاسمی

ہندوستان جس عدمِ تشدد ،انسانیت نوازی اور روحانی اقدار کے لیے دنیا میں معروف ہے اور اُس کے انسانیت دوستی کا جو پہلو، اسے دنیاء مغرب سے جدا کرتا ہے ،داخلی سیاست کے خارجی پالیسی پر اثرات کے نتیجے میں ہندوستان اپنی وہ پہچان کھوتا جارہا ہے ،

انگیزی ظلم و ستم کے مقابلے

باپو، مولانا آزاد ،مولانا مدنی اور نہرو نے عدمِ تشدد کی جو راہ اختیار کی، وہ rss اور بی جے پی کے پر تشدد نظریے کی بھینٹ چڑھتی جارہی ہے۔

 

جس طرح موجودہ سرکار ،داخلی سطح پر زبردست زیرو زبر کی باعث بنی ہے ،

اسی طرح موجودہ حکومت کی پالیسی کے نتیجے میں عالمی سطح پر بھی ہندوستان کی شبیہ زبردست اتھل اتھل کی شکار ہے ۔

بھاجپا کے پالیسی سازوں نے جس طرح اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے اور اس کے نتیجے میں ہندوستان جس طرح مظلوم فلسطینیوں کی حمایت سے کنارہ کش ہو رہا ہے،

 

اسی طرح ایران واسرائیل کے ٹکراؤ میں ہندوستان کا رخ واضح طور پر ایران کی طرف نہیں ہے ،

جو ہندوستان کی عالمی شبیہ کے لیے گہرا دھچکا ثابت ہوسکتا ہے،

 

حال آں کہ ایران کی مکمل عدمِ حمایت سے ہونے والے معاشی

نقصان سے بچنے کے لیے ایران و اسرائیل کے درمیان ہندوستان نے توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔

 

جس کے لیے وزیر اعظم نے ایرانی وزیر اعظم سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے لیکن یہ رابطہ ہندوستان کی سابقہ جنگ مخالف پالیسی کی ترجمانی نہیں کرتا ہے۔

 

 

ہندوستان جو ہر دورِحکومت میں خواہ وہ بھاجپا ہی کی سابقہ حکومت کیوں نہ ہو،

فلسطین اور اس کے کاز کا حامی رہا ہے ،

 

موجودہ دور میں ہندوستان اپنے سابقہ اصولوں پر قائم نہیں ہوپارہا ہے،

 

اور اسرائیل و حماس کے درمیان جنگ بندی کی کسی بھی تجویز کی حمایت سے خود کو کنارہ کش کر رہا ہے جو واضح طور اپنے سابقہ موقف سے انحراف ہے۔

 

ہندوستان جو ایسے مواقع پر مغرب اور اس کی انسانیت سوز اور غیر اخلاقی کارروائیوں کو آئینہ دکھاتا رہا ہے ،آج اپنی خاموشی کے نتیجے میں مغرب کی اِن انسانیت دشمن کارروائیوں کا حصہ بنتا چلا جارہا ہے ،

 

جو ہندوستان کے انصاف پسند عوام کے لیے شدید قلق اور اضطراب پیدا کررہا ہے ۔

 

ہمارے وزیر اعظم کا ایرانی وزیر اعظم سے ٹیلی فونک رابطہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کم معاشی مشکلات سے نپٹنے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے سیاسی نقصان کو کم کرنے کی ایک کوشش زیادہ معلوم ہوتا ہے ۔

کیوں کہ ایران اگر آبنائے ہرمز کو بند کرتا ہے جس کی وہاں کی پارلیمنٹ نے اجازت دیدی ہے ،

تو اس کے اثرات جہاں ساری دنیا پر نظر آئیں گے،

تو وہیں ہندوستان اس سے محفوظ نہیں رہ پائے گا ۔

 

اور اگر تجارتی طبقہ مشکلات کا شکار ہوتا ہے تو یہ موجودہ حکومت کے لیے کسی درد سر سے کم نہیں ہوگا ۔

 

جس طرح موجودہ حکومت نے مسلم دشمنی یا کسی اور وجہ سے سابقہ اقدار کا سودا کرلیا ہے ،

بعید نہیں کہ مستقبل میں حکومت مغرب کی خوشی کے لیے یا اسرائیل کے تحفظ میں کو ئی انتہائی قدم بھی اٹھانے کی جرات کرلے ،

جس کے آثار حکومت کے طرز عمل سے واضح ہیں ۔

 

اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ہندوستان اپنی مستقل شناخت سے محروم ہوجائےگا اور وہ محض کارندۂ مغرب بن کر رہ جائے گا ،

ہندوستانی عوام کو اس پہلو پر توجہ دینی چاہیے ،

کہ حکومت ہماری اقدار و روایات کو اپنے مخصوص مزاج کے سبب پامال نہ کرے،

بل کہ ہمارے بزرگوں کے ان نقوش کی پابند رہے جن کے غیر متزلزل ،انسانیت دوست اور اخلاق نواز اصولوں نے ہندوستان کو روحانی دنیا کا سرتاج بنایا

 

دنیاءِ مغرب تجارت اور مالی منافع کے لیے انسانیت کا قتل کرتی رہی ہے اور آج بھی یہی کر رہی ہے۔

 

اس سے زیادہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ امریکی صدر ایک قیمتی تحفے کےلیے سرنگوں ہوسکتا ہے

اور نہ ملنے پر مملکتی سربراہ کو گھر بلاکر رسوا بھی کر سکتا ہے

ایسی روایات کے حامل لوگوں کے پیروکار ہندوستان اور اس کی حکومت کو نہیں ہونا چاہیے ۔

 

لہذا حکومت کو ایسے لوگوں کی خوشامد سے باز رہنا چاہیے اور داخلی انتشار سے صرفِ نظر کرکے

کم سے کم عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ کو مجروح ہونے سے بچانے کی فکر کرنی چاہیے ۔

واضح رہے کہ اگر ایک جماعت اقدار ساز ہوسکتی ہے تو ایک ہی جماعت اقدار سوز بھی ہوسکتی ہے۔

Comments are closed.