سوشل میڈیا اوریوٹوب کے ذریعہ دینی معلومات حاصل کرنے کی حیثیت

 

مفتی احمدنادرالقاسمی

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

ذرائع ابلاغ کے اس انقلابی دور میں دنیا کی ساری معلومات اورانفارمیشن۔ خواہ منفی ہوں یا مثبت سوشل میڈیاپر اپلوڈ ہیں۔اورجومعلومات کل تک کتابوں۔رسائل وجرائد۔ اخبارات ومیگزین۔ ویکی پیڈیااور گوگل تک محدودتھے اب فیس بک۔انسٹاگرام ۔یوٹوب اوردیگر ویب سائٹوں پر دستیاب ہے اور آسانی سے وہاں تک رسائی ہوجارہی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ ان ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات۔جب تک اصل مراجع سے اس کی توثیق نہ ہوجائے ۔کیاحیثیت ہے۔؟ اس سوال کا سیدھاسا علمی جواب یہ ہے کہ کوئی بھی دینی معلومات جب تک اسے اصل سورس سے اخذ نہیں کیاجاتا۔اس کی حیثیت یقینی علم کی نہیں ہوگی اورنہ ہی اس پر مکمل تکیہ کیاجاسکتاہے۔البتہ کچھ معلومات عمومی اورکامن نیوعیت کی ہوتی ہیں اورزبان زد ہوتی ہیں۔ان پر بھروسہ کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔

احتیاط کاتقاضہ:

خاص کر اس دور میں جہاں جس میں ہرقسم کے حق اورباطل نظریات وافکارکاایک سیلاب سوشل میڈیاپر امڈاہواہے اوراپلوڈ ہے۔اس سلسلہ میں محمدابن سیرین کایہ قول بھی یادرکھنےکےقابل ہے اورامام مسلم نے اپنی صحیح میں اس کونقل کیاہے:” ان ھذاالعلم دین فانظروا عمن تاخذون دینکم“{کہ یقینا یہ علم بھی دین ہے۔لہذاجب بھی تم اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو تو یہ ضروردیکھ لوکہ تم کس سے اورکہاں سے اسے لے رہےہو اورحاصل کررہےہو۔}۔ایک جگہ ابن سیرین کے اس جملہ کو ان الفاظ کے اضافہ کے ساتھ بھی نقل کیاگیاہے:”اتقوااللہ یامعشرالشباب ان ھذا العلم دین۔فانظروا عمن تاخذون دینکم“(کتاب الجرح والتعدیل ج۔٢۔ص۔١٥) اس معاملہ میں یہ ہمارے اسلاف کااحتیاط تھاکہ وہ خود بھی دینی امور میں بدنیتوں کی ریشہ دوانیوں سے ہوشیاررہتےتھے۔اورلوگوں کوبھی بیدار رکھنے کی کوشش کرتےتھے۔یہاں تک کہ بدنیت اوردین میں اختراع کرنے والے ان سے حدیث بیان کرنے کوکہتے توخاموشی اختیارکرتے۔اورقرانی آیت تک سن لینے کی درخواست کرتےتب بھی اسے نظرانداز کرتے۔یہ بات ابن سیرین ہی کے بارے میں سنن دارمی کے حوالہ سے کتب احادیث میں آئی ہے۔اسی ربیع بن وھب۔ابن مبارک۔ابن مسعود۔اورمالک بن انس کے حوالہ سے مشہور ہے کہ وہ کتے تھے دین مستند لوگوں سے ہی سیکھنےاورلینے کی کوشش کرو۔اوریہی دین اورعلم کی اہمیت کاتقاضہ ہے۔ آج بہت سے ایسے خطباء ہیں جوبلیغ اورفصیح اللسان ہیں۔مگر انھوں نے دین کسی مستند شخص سے نہیں سیکھا۔بہت سے مصنفین ہیں اوران کی کتابیں مارکٹ میں موجود ہیں مگران کا کوئی مستند استاذ نہیں ہیں۔بہت سے ایسے گاوں دیہات کے ناخواندہ چارمہینے کی جماعت میں جاکر بولناسیکھ لیتےہیں۔اورخواہش۔بلکہ زورزبردستی مسجد کے ممبرپربیٹھ کردین اورعلم کی باتیں کرتےہیں۔اور مستند علماء کوپس پشت ڈال دیتےہیں۔یہ دین کے معاملہ میں بہت خطرناک ہے۔اورسلف اورمحدثین کی بیان کردہ تعلیمات کے سراسر خلاف ۔بلکہ جرات بےجاہے۔انھیں چاہئے کہ علمی بیانات ہمیشہ مستند علماء سے کرائیں اورتشکیل کاعمل کرسکتے ہیں کریں۔ اس تناظر میں اس بات سے انکارنہیں کیاجاسکتا کہ یہ دورجہاں ایک طرف علمی پھلاو اورمعلومات کی کثرت کاہے۔وہیں فکری ارتداد۔دینی تشکیک۔اورعقائدونظریات میں کنفیوزن پیداکرنے کابھی ہے۔ہمیں یادرکھناچاہئیے کہ باطل نظریات کے پھیلانے کے جتنے مواقع پہلے نہیں تھے جتنے سوشل میڈیاکی وجہ سے آج ہیں۔ہرنظریہ کے افراد اپنے افکار کو اسلامی نظریہ کانام دے کر۔جیسے مرتد قادیانی اورشکیلی وغیرہ دیگر گمراہ فرقہ سوشل میڈیاپر ویڈیوبناتااوراپلوڈ کردیتاہے۔یامخصوص ایپس کے ذریعہ اسے عام کرتاہے۔اورہماری سیدھی اورسادے ذہن کی نوجوان نسل چونکہ دین کا صحیح شعوراورمکمل معلومات نہیں رکھتی وہ اسلام کےنام پر سب کچھ قبول کرتی چلی جاتی ہے۔جس کانتیجہ یہ ہوتاہےکہ ان کاذہن ودماغ اپنے دین کے معاملہ میں غلط معلومات جمع کرکے پراگندہ ہوکررہ جاتاہے۔یاپھربدعقیدگی کاشکار ہوجاتاہے۔ اس لئے میراخیال یہ ہے کہ دین کے نام پر سوشل میڈیاپر اپلوڈ ساری ویڈیوزکو قبول کرلینا اوردین سمجھ کراختیار کرلینا دین وعقیدہ کے اعتبار سے بہت خطرناک ہے۔اوراس کے قبول اوررد کے سلسلے میں حددرجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔”قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ انا ومن اتبعنی وسبحان اللہ وماانامن المشرکین“ سورہ یوسف ۔١٠٨۔

Comments are closed.