اسرائیل ۔ ایران جنگ کے بعد مشرق وسطی کا منظر نامہ

 

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان

 

پچھلے پونے دو سال سے اسرائیل نے مختلف محاذوں پر جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ ایک طرف وہ اکتوبر ۲۰۲۳ سے غزہ کے خلاف بر سر پیکار ہے تو دوسری طرف فلسطین کے مغربی کنارے West Bank (یعنی دریائے اردن کے مغربی کنارے) میں بھی کئی ماہ سے یکطرفہ طور سے اسرائیلی فوج اور یہودی آبادکاروں کے حملے مستقل جاری ہیں۔ پھر اسرائیل نے ۱؍ اکتوبر ۲۰۲۴ کو لبنان پر حملے شروع کئے جو ۲۶ء نومبر کو جنگ بندی ہونے کےباوجود اب بھی یک طرفہ طور سے جاری ہیں۔ اسی عرصے میں اسرائیل شام (سوریا) پر بھی بلاوجہ وقتا فوقتا حملے کر رہا ہے۔ پھر جب ابھی امریکہ اور ایران کے درمیان نیوکلئیر معاملے پر مباحثات چل رہے تھے کہ اسرائیل نے اچانک ۱۳؍ جون کو ایران پر حملہ کردیا۔ یہ جنگ ۱۲ دن جاری رہی لیکن دسویں دن سے ہی اسرائیل جنگ بندی کی بات کرنےلگا اور اس کے بعد ہی امریکہ نے دخل اندازی کرکے جنگ بند کرائی ورنہ جنگ اسرائیل کی واضح شکست پر ختم ہوتی۔

 

اسرائیل کے حملے سے قبل ٹرمپ اور نتنیاہو نے ایران کو دھوکے میں رکھا۔ امریکہ نے ایران کے نیوکلئیر پروگرام کے بارے میں مباحثات شروع کئے۔ ایران نے سوچا کہ امریکہ سے ابھی بات چیت چل رہی ہے اسلئے ابھی حملے کا امکان نہیں ہے حالانکہ اسرائیل مستقل حملے کی دھمکی دے رہا تھا۔ لیکن اگلی بات چیت کے دو دن پہلے ہی اسرائیل نے ٹرمپ کی اجازت سے حملہ کر دیا۔ اسرائیل نے ۱۳؍جون کو جنگ شروع کی تھی اور ۲۲؍جون کو امریکا نے ایران پر حملہ کردیا۔

 

ایران کے خلاف جنگ میں اسرائیل کا بے تحاشہ مالی و فوجی نقصان ہوا ہے۔ اب پہلی بار کسی جنگ میں اسرائیل کی پٹائی ہوئی ہے اور ۷۵ سال میں پہلی بار اسرائیلیوں کو معلوم ہوا کہ شہروں اور رہائشی علاقوں پر بمباری کیا ہوتی ہے۔ تل ابیب کا ایک تہائی حصہ تباہ ہو گیا ہے۔ پورے اسرائیل پر ایرانی حملے ہوئے ہیں ۔ اسرائیلی بھاگنے لگے ہیں۔ فیکٹریاں اور کمپنیاں بند ہیں۔ا سرائیل میں ملٹری سنسرشپ ہے اس لئے ابھی بہت دن تک اسرائیل کے نقصانات کا پتہ نہیں لگ پائے گا۔ مالی اور فوجی خسارہ اسرائیل کی بساط سے باہر ہے اور ٹرمپ کے ہوتے ہوئے کسی بڑی مالی مدد کا امکان نہیں ہے۔

 

ایران پر حملے کے بعد ۲۴؍ گھنٹے اسرائیل بہت ناچا گایا کہ ایران کی نیوکلئیر طاقت ختم ہوگئی ہے اور اب پورے علاقے میں چودھراہٹ قائم رکھنے کا اورائیل خواب پورا ہو گیا ہے لیکن دوسرے دن سے پانسہ پلٹ گیا۔ ایران بہت بڑا ملک ہے اور خسارہ برداشت کر سکتا ہے۔ ایران کے پاس F-35 جیسے ہوائی جہاز نہیں ہیں لیکن اس کے راکٹوں اور میزائلوں نے ثابت کر دیا کہ وہ بہت کچھ نقصان اپنے دشمنوں کو پہنچا سکتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اردن وغیرہ نے ایرانی راکٹوں کو گرانے میں اسرائیل کی مدد کی جبکہ ایران کی مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا۔

 

ایران نے اسرائیل کا فضائی تفوق برباد کر دیا اور شمال سے لے کر جنوب تک پورے اسرائیل پر حملے کئے۔ جب واضح ہو گیا کہ اسرائیل ایران کے نیوکلئیر تنصیبات کو تباہ نہیں کر سکتا تو امریکا آگے آ گیا۔ لیکن خود امریکہ کے خفیہ ذرائع کی خبر ہے کہ امریکی حملے میں ایران کا کوئی خاص نقصان نہیں ہوا ہے اور حملے سے پہلے ہی ایران نے اپنے ایٹمی ذخائر بحفاظت کہیں اور پہنچا دئے تھے۔ یہ بھی اندازہ ہے کہ چند ماہ میں ایران اپنی سابقہ نیوکلیائی طاقت بحال کر لے گا۔ ایران پر حملے کے شروع کے دنوں میں میں نتنیاہو اور ٹرمپ دونوں نے regime change کی بات کی یعنی ایران کی حکومت گرا کر اپنے موافق وہاں ایک نئی حکومت قائم کرنا جنگ کا مقصد بتایا لیکن جلد ہی لہجہ بدل گیا۔

 

ایران کے جوابی حملوں میں ۳۰؍ہزار گھر اسرائیل میں تباہ ہوئے ہیں۔ ۴۰۰۰۰؍ اسرائیلیوں نے گھروں کے پورے یا جزوی تباہی کے لئے دعوی claim داخل کیا ہے ۔ صرف ۱۲؍ دن کی جنگ سے اسرائیل کو 6.5 بلین ڈالر کا نقصان ہوا یعنی ۵؍کھرب، ۵۲؍ارب اور ۵۰؍کروڑ ہندوستانی روپئےکا ، جو اسرائیل جیسےملک کے لئے بہت بڑا نقصان ہے۔ وہاں انڈسٹری رک گئی ہے۔صرف سنہ ۲۰۲۵ میں ۵۹ہزار اسرائیلی کمپنیاں بند ہو گئی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ لوگ بحری راستے سے بھی بھاگ رہے ہیں۔ بہت سے اسرائیلی قبرص بھاگ گئے ہیں اور وہاں املاک خرید رہے ہیں جس کی وجہ سے وہاں کی حکومت نے سخت تشویش جتائی ہے۔ پانچ لاکھ اسرائیلی ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ کے بعد سے ابتک اسرائیل چھوڑ کر جاچکے ہیں9.7 کی آبادی والے ملک میں جس میں ۲۷ فیصد غیر یہودی ہیں ، یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ ۔ فضائی خدمات بحال ہونے پر اور بہت سے بھاگیں گے۔ باہر کی کمپنیوں نے اسرائیلی مارکٹ سے پیسے نکال لئے ہیں اور نئے سرمایہ کار نہیں آرہے ہیں۔ ایلات بندرگاہ نے مکمل گھاٹا سہنے کے بعد افلاس کا اعلان کر دیا ہے۔ سب سے اہم بندرگاہ حیفا ،جو اڈانی چلاتا ہے ،فی الحال حملوں میں نقصان کی وجہ سے بند ہے۔اسرائیل کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ بن گوریون ایرپورٹ ہفتوں مکمل طور سے بند رہنے کےبعد اب کھلا ہے لیکن دسیوں ہوائی کمپنیوں نے اپنی فضائی خدمات بند کر دی ہیں۔ اسرائیل کے اسلحوں کا ذخیرہ خاتمے کے قریب ہے اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ ٹرمپ ان کی پوری بھرپائی کرے گا۔

 

اس جنگ سے ایران کی حکومت داخلی طور سے مزید مضبوط ہوئی ہے۔ حکومت کے مخالفین بھی حکومت کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ عالم عرب اور عالم اسلام میں بھی ،خصوصا عوامی سطح پر، اس کی ساکھ مضبوط ہوئی ہے۔ سارے عرب ممالک میں آج ایران کی پہلے سے کہیں زیادہ تایید ومقبولیت ہو چکی ہے۔ خامنئی آج دنیا کے مقبول ترین شخصوں میں ہوگئے ہیں۔ اسرائیل کی کامیابی تھی کہ امریکا کو بھی جنگ میں گھسیٹ لیا لیکن دونوں کا اصل مقصد ، یعنی regime change ، ناکام ہوگیا ہے۔

 

ایران پر حملے کا الٹا اثر ہوا ہے ۔ ایران نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی سے اپنے تعلقات منجمد کر دئے ہیں اور ایرانی پارلیمنٹ نے قانون پاس کر دیا ہے کہ جو کوئی مذکورہ ایجنسی کو ایرانی نیوکلیئرتنصیبات کا معاینہ کرنے دے گا، اس کو جیل کی سزا ہو گی۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اب ایران نیوکلئیر بم بنائے گا۔ جس ملک کے پاس نیوکلئیر بم ہے اس پر کوئی حملہ کرنے کی جرات نہیں کرتا ہے۔ ایک برطانوی ڈپلومیٹ نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ اگر شمالی کوریا کے پاس نیوکلئیر ہتھیار نہ ہوتا تو مغربی ممالک کب کا اس پر حملہ کرچکے ہوتے ۔ ابھی ہم نے اپنے علاقے میں بھی دیکھا کہ جب پاکستان نے نیوکلئیر بم استعمال کرنے کا عندیہ دیا تو فورا جنگ بندی ہوگئی۔ اب امریکا پھر ایران سے مباحثات کی بات کررہا ہے۔ لیکن کیا جو کام اسرائیل اور امریکا جنگ کے ذریعے نہیں کر سکے اسےوہ مباحثات کی میز پر حاصل کر لیں گے؟ حقیقی دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہوتا ہے۔

 

۲۴؍جون کو ٹرمپ کےاسرائیل۔ایران جنگ بند کرانے کے پیچھے امریکا کا اپنا اقتصادی نقصان بھی شامل تھا۔ ڈالر کا دام بین الاقوامی مارکٹ میں گرنے لگا تھا اور امریک شیئر بازار پر اس کا بہت برا اثر پڑ رہا تھا۔ ٹرمپ کے نزدیک امریکا کا اقتصادی فائدہ و نقصان بہت اہمیت رکھتا ہے۔

 

اب اس جنگ کے دوران اپنے عمل سے ایران نے ایک نیا معادلہ equation بنایا ہے کہ وہ اسرائیل اور امریکہ دونوں سے لڑ سکتا ہے۔ اس میں ایران نے الجہاد الاسلامی، حماس، انصاراللہ، حزب اللہ، عراقی شیعہ ملیشیا الحشد الشعبی جیسے علاقائی مویدین کی مدد نہیں لی۔

 

حقیقت یہ ہے کہ آج ایران ہی رہ گیا ہے جس کی اسرائیل کے بارے میں واضح پالیسی ہے۔۴۵؍ سال سے صرف ایران یہ کھلے عام کہہ رہا ہے کہ اسرائیل ایک ”سرطانی پھوڑا“ ہے جس کو نکالے بغیر مشرق وسطی میں امن وسکون نہیں ہو گا۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے اسرائیلی سفارتخانے کو فلسطینی سفارتخانہ بنا دیا تھا۔ تب سے ایران فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی سیاسی، مالی، فوجی مدد کر رہا ہے۔ اور تب سے ہی اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کی سوچ رہا ہے اور اس کے لئے یہ بہانہ بناتا ہے کہ ایران چند مہینوں میں نیوکلئیر اسلحہ بنا لے گا۔ کم از کم پچھلے تیس سال سے نتنیاہو یہ اعلان بار بار کر رہا ہے لیکن آجتک ایران کا نیوکلئیر ہتھیار تیار نہیں سکا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کو پریشانی تھی کہ ایک پوری طرح امریکا نواز حکومت ایران میں ختم ہو گئی اور اب وہاں پوری طرح سےامریکا مخالف حکومت قائم ہو گئی ہے جس کی وجہ سے امریکا اور مغربی کمپنیوں کے ایران کو چوسنے کا موقعہ ختم ہوگیا ہے۔

 

پچھلی ربع صدی سے اسرائیل اور امریکہ دونوں کا مشترکہ پلان ہے کہ مشرق وسطی سے ساری امریکا و اسرائیل مخالف حکومتیں ختم کر کے اسرائیل اور امریکا دوست حکومتیں بنائی جائیں۔ ایران کے علاوہ دوسرے سارے ملکوں میں یہ کام پورا ہو گیا یعنی عراق، شام، لیبیا، سوڈان وغیرہ میں یہ کام انھوں نے انجام دے دیا۔ مصر نے کافی عرصہ قبل ہی اپنا قبلہ درست کر لیا تھا۔ ایران پر حملے کے لیے اس کے نیوکلئیر پروگرام کو بہانہ بنایا جا رہا تھا حالانکہ ایران نے این پی ٹی (نیوکلئیر اسلحہ نہ بنانے کے معاہدے) پر دستخط کر رکھا جب کہ اسرائیل نے نہیں کیا ہے اور یہ کھلا راز ہے کہ اسرائیل کے پاس تقریبا ۸۰۰ نیوکلئیر بم موجود ہیں۔ بالکل اسی طرح صدام حسین کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے ”عمومی تباہی کے ہتھیار“ ”Weapons of Mass Destruction“ کا بہانہ بنایا گیا تھااور بعد میں ثابت ہوا کہ عراق کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا۔

 

علاقے میں ایران موافق طاقتوں خصوصا حزب اللہ اور حماس و جہاد اسلامی کو کمزور کرنے کے بعد امریکہ و اسرائیل کو لگا کہ اب وہ ایران پر کامیابی سے حملہ کر سکتے ہیں۔ دونوں کا مقصد ایک ”نیا مشرق وسطی“ بنانا تھا جہاں عملاً اسرائیل اور امریکا کی چودھراہٹ ہو۔ ستمبر۲۰۲۳ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامنے تقریر کرتے ہوئے نتنیاہو نے عظیم تر اسرائیل کا نقشہ دکھایا تھااور اسے ”نیا مشرق وسطی“ کا نام دیا تھا۔ اس کام میں اسرائیل کے ساتھ صرف امریکا ہی نہیں مغرب کے اکثر ممالک، بالخصوص برطانیہ، فرانس اور جرمنی کھڑے ہیں کیونکہ سب ایک کمزور مشرق وسطی دیکھنا چاہتے ہیں جس کا استحصال آسانی سے ہوسکے ۔

 

یہ اسرائیل اور امریکا کی مشترکہ جنگ تھی جو مغرب کے مفادات کی حفاظت کے لئے لڑی گئی تھی لیکن اس میں جیت ایران کی ہوئی ہے۔ اب عرصہ تک اسرائیل ایسی حماقت نہیں کرے گا۔ امریکہ کی مدد کے بغیر اسرائیل پہلے بھی اس کی ہمت کبھی نہیں کرتا۔ اسرائیل کے پاس نہ اپنی فوجی انڈسٹری ہے، نہ اپنے ہوائی جہاز ہیں اور نہ ہی اپنے راکٹ اور مضبوط فضائی دفاعی سسٹم ہے۔ یہ سب مغرب اور بالخصوص امریکہ کا ہدیہ ہے۔ موجودہ جنگ میں ایک اندازے کے مطابق ۷۰؍ فیصد خرچہ امریکہ نے اٹھایا ہے۔

 

اب غزہ کی طرف آتے ہیں ۔ ایران اسرائیل جنگ کی وجہ سے میڈیا کہ توجہ کچھ دنوں کے لئے غزہ سے ہٹ گئی تھی لیکن وہاں اسرائیل کا ظلم کسی طرح کم نہیں ہوا۔ یہ جنگ ۷؍اکتوبر۲۰۲۳ سے جنگ مستقل جاری ہے۔آج (۳۰؍جون) جنگ کا ۶۳۲ واں دن ہے جو اس سے پہلے عربوں کی اسرائیل کے ساتھ جنگوں میں کبھی نہیں ہوا۔ اس سے قبل ساری اسرائیل عرب جنگیں چند دنوں میں ختم ہوئیں ، عربوں یا اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرائی یا اسرائیل نے جب تک چاہا جنگ جاری رکھی۔ اس سے پہلے اسرائیل نے کبھی جنگ بندی کی درخواست نہیں کی۔

 

اسرائیلی اخبار ہاآرتز نے ۲۸؍جون۲۰۲۵ کو بتایا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں ۷؍اکتوبر۲۰۲۳ سے ابتک ایک لاکھ فلسطینی قتل کئے ہیں جبکہ دوسرے اندازوں کے مطابق مقتول لوگوں کی تعداد تین لاکھ تک پہنچتی ہے۔ اس کے علاوہ زخمی اور اپاہج لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ بھوک اور بیماری سے مرنے والوں کی تعداد بھی بڑی ہے۔ آدھے مرنے والوں میں بچے اور عورتیں ہیں ۔صرف ہاآرتز کے اندازہ کو ہی لے لیں تو ان بیس مہینوں میں اسرائیل نے غزہ کےچار فیصد لوگوں کو قتل کیا ہے جو ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ امریکہ کی چار فیصد اور ہندوستان کی چار فیصد آبادی سے اس کا مقابلہ کرکے دیکھ لیں تو سمجھ میں آئے گا کہ غزہ پر کیا قیامت آئی ہے۔ جانی نقصان کے علاوہ غزہ میں تقریبا ہر چیز توڑ اور تباہ کردی گئی ہے۔

 

کئی ہفتے سے غزہ میں آٹے اور دال کے لئے لائن لگانے والے شدیدمجبور فلسطینیوں کو اسرائیلی روز قتل کر رہے ہیں۔ ہر روز درجنوں اور کسی دن سو سے زیادہ لوگ صرف آٹا دال کی لائن میں لگانے کی پاداش میں قتل ہورہےہیں۔ ممکن ہے کہ ایک عام آدمی کو یہ سمجھ میں نہ آئے کہ آخر اسرائیل یہ کیوں کر رہا ہے۔ لیکن تجزیہ کرنے والوں کا خیال ہے کہ اس کا مقصد فلسطینیوں کو ذلیل کرنا ہے، ان کی قوت مزاحمت کو ختم کرنا ہے، ان کو موقعہ ملتے ہی غزہ سے بھاگنے پر مجبور کرنا ہے، ساری آبادی کو اجتماعی سزا collective punishment دینا ہے اور مزاحمت کاروں پر دباؤ بنانا ہے کہ وہ ہتھیار رکھ دیں— اور اسرائیل یہ سب اس لئے کر پا رہا ہے کہ اس کے خلاف بین الاقوامی طور پر کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے جیسے اسرائیل کا بائیکاٹ ہو یا اس کو اقوام متحدہ سے نکال دیا جائے جیسا کہ جنوبی افریقہ کے عنصریت پسند نظام کے ساتھ ہوا تھا۔

 

اب غزہ میں جنگ بندی کی بات ہو رہی ہے، کیونکہ اسرائیل کے اندر اور باہر اور بالخصوص امریکا میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اب اس جنگ کا کوئی مقصد نہیں رہ گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کہ وجہ سے امریکا اور اسرائیل دونوں دنیا بھر میں مطعون ہو رہے ہیں۔ لیکن حماس کسی بھی جنگ بندی کے لئے اس وقت تک تیار نہیں ہے جب تک کہ اس کے یہ چار مطالبے پورے نہ ہوں:

 

1. جنگ پوری طرح بند ہو۔

 

2. اسرائیلی فوجی پوری طرح سے غزہ سے انخلا کریں

 

3. سنہ ۲۰۰۶ سے جاری غزہ کا محاصرہ ختم ہو اور تباہ کیے گئے گھروں اور بلڈنگوں کو دوبارہ بنایا جائے۔

 

4. جنگی قیدیوں کا تبادلہ دونوں طرف سے ہو یعنی اسرائیلی چھوڑے جائیں تو فلسطینی بندھک بھی چھوڑے جائیں۔

 

دوسری طر ف امریکا اور اسرائیل کا اصرا ر ہے کہ غزہ پر حماس کی حکومت کا خاتمہ ہو، حماس کے لیڈر وں کو غزہ بدر کیا جائے اور حماس اور الجہاد الاسلامی کے اسلحے چھینے جائیں۔

 

واضح ہے کہ زمینی حقائق اس کے خلاف ہیں۔ غزہ میں مزاحمت نہ صرف جاری ہے بلکہ تیز ہو گئی ہے۔ صرف تین دن پہلے وہاں ایک بہادر مجاہد نے اسرائیلی بکتربند گاڑی میں اوپر سے بم ڈال دیا جس سے اس کے اندر موجود تمام سات افسر اور فوجی جل کر مر گئے جس نے اسرائیلی سوسائٹی کو دہلا دیا اور وہاں یہ بات کہی جا رہی ہے کہ اس جنگ کا کوئی فائدہ نہیں، اس میں صرف ہمارے بچے قتل ہو رہے ہیں ، اس لئے اس کو بند کیا جائے.

Comments are closed.