یاسمین فاروقی نے آئین سے سیکولرازم اور سوشلزم کو ہٹانے کی آر ایس ایس کی کوشش کی شدید مذمت کی

 

نئی دہلی (پریس ریلیز) سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا(SDPI) کی قومی جنرل سکریٹری یاسمین فاروقی نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسابلے کے آئین ہند کے تمہید سے ”سوشلسٹ” اور ”سیکولر” کے الفاظ کو ہٹانے کے مطالبے پر سخت تنقید کی ہے۔ یہ کوئی سادہ سی تجویز نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستانی جمہوریت کی بنیادی اقدار پر براہ راست حملہ ہے۔

لفظ ”سوشلسٹ” اور ”سیکولر” کو 1976 میں 42ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا تاکہ سماجی انصاف، مساوات اور مذہبی غیر جانبداری کے تئیں ہندوستان کی وابستگی کو واضح کیا جا سکے۔ یہ الفاظ محض علامتی نہیں ہیں بلکہ یہ بنیادی تحفظات ہیں جو مذہب، ذات یا طبقے سے قطع نظر ہر شہری کے وقار اور مساوی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ آر ایس ایس کا یہ مطالبہ اس کے اکثریتی ایجنڈے کو بے نقاب کرتا ہے، جو اقلیتوں کو پسماندہ کرتا ہے اور آئینی حقوق کو کمزور کرتا ہے۔

ایمرجنسی کا حوالہ دے کر ان اقدار کو چیلنج کرنا گمراہ کن ہے۔ سپریم کورٹ نے منروا ملز بمقابلہ یونین آف انڈیا میں اپنے 1980 کے فیصلے میں ان ترامیم کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کے حصے کے طور پر برقرار رکھا۔ ہمارے آئین کے بنانے والوں نے ایک ایسے معاشرے کا تصور کیا جس کی جڑیں آزادی، مساوات اور سب کے لیے انصاف ہو، نہ کہ ایک قوم جس پر کسی ایک برادری یا نظریے کے غلبے سے حکومت ہو۔یہ کہنا کہ ہندوستان ”فطری طور پر” سیکولر ہے اور اس لیے اس اصطلاح کی ضرورت نہیں ہے انتہائی خطرناک ہے۔ آئینی تحفظ کے بغیر اقلیتیں ہمیشہ غیر محفوظ رہیں گی۔ 1949 میں آئین کی آر ایس ایس کی مخالفت، یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہندو ثقافتی اقدار پر مبنی نہیں ہے، ہندو راشٹر کی طرف بڑھنے کے اس کے ارادے کو بے نقاب کرتا ہے۔

”سوشلسٹ“ کی اصطلاح پر حملہ بھی اتنا ہی سنگین ہے۔ ایسے وقت میں جب ملک میں معاشی عدم مساوات بڑھ رہی ہے، سوشلزم کو ہٹانا ان کروڑوں لوگوں کے حقوق پر حملہ ہے جو فلاحی اسکیموں، مثبت امتیازی سلوک اور دوبارہ تقسیم انصاف پر منحصر ہیں۔ آر ایس ایس کا نظریہ صرف مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، حاشیے پر کھڑے عام شہریوں کا نہیں۔

ایس ڈی پی آئی تمام جمہوری قوتوں، سول سوسائٹی اور باضمیر شہریوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ آئین کو کمزور کرنے کی اس خطرناک سازش کی بھرپور مخالفت کریں۔ یہ صرف دو لفظوں کا معاملہ نہیں ہے – یہ ہماری جمہوریہ کی روح اور ہم آہنگی کی حفاظت کا سوال ہے۔

Comments are closed.