منظر بھوپالی: سچائی کے لفظوں کا سفیر

 

تحریر: ابوشحمہ انصاری

سعادت گنج،بارہ بنکی

 

ادب محض الفاظ کا بازیگر نہیں، بلکہ احساسات، فکروں اور حقیقتوں کا مظہر ہوتا ہے۔ ایک اچھا شاعر وہ ہوتا ہے جو نہ صرف اپنے عہد کا آئینہ بنے، بلکہ مستقبل کو ایک سمت بھی دے۔ ہمارے درمیان ایک ایسا ہی سچائی کا سفیر موجود ہے۔”منظر بھوپالی”جس کی شاعری خواب بھی دکھاتی ہے اور ان کی تعبیر کی خواہش بھی جگاتی ہے۔ ان کے کلام میں محض الفاظ کا حسن نہیں، بلکہ فکر کی دھار، احتجاج کی صدا اور درد کا شفاف بیان بھی شامل ہے۔

جہاں اردو غزل کا دامن اکثر حسن و عشق کی باتوں سے بھرا نظر آتا ہے، وہیں منظر بھوپالی نے اس صنف میں ایک نیا زاویہ پیدا کیا۔ انہوں نے غزل کو جذبات کے اظہار تک محدود نہ رکھا، بلکہ اسے سماجی شعور کا ترجمان بنا دیا۔ ان کے یہاں عشق اور ہجر کے ساتھ ساتھ زمانے کی تلخ سچائیاں بھی اتنی ہی شدت سے رقم ہوئیں۔

بچپن سے ہی علم و ادب کے ماحول میں پرورش پانے والے سید علی رضا نے بعد میں منظر بھوپالی کے نام سے اردو دنیا میں وہ مقام حاصل کیا جو صرف چند خوش نصیبوں کو نصیب ہوتا ہے۔ 1959 میں مہاراشٹر کی سرزمین پر پیدا ہونے والے اس نابغۂ روزگار نے نوعمری میں ہی قلم سنبھالا، اور سترہ سال کی عمر میں مشاعرہ پڑھ کر ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز کیا۔

منظر بھوپالی نے جب لکھنا شروع کیا، تو ان کی تحریریں معاشرتی ناہمواریوں، انسانی رشتوں کی پیچیدگیوں اور سیاسی اتھل پتھل کی بھرپور ترجمان بنیں۔ ان کے اشعار صرف جذباتی نہیں، فکری بھی ہیں۔ وہ بےآوازوں کی آواز بنے، اور مظلوموں کے درد کو لفظوں میں ڈھالا:

 

باپ بوجھ ڈھوتا تھا کیا جہیز دے پاتا

اس لیے وہ شہزادی آج تک کنواری ہے

 

بین الاقوامی سطح پر بھی منظر بھوپالی نے اپنی منفرد شناخت قائم کی۔ کراچی، دبئی، بحرین، نیدرلینڈز، انگلینڈ، امریکہ، سعودی عرب اور دیگر ممالک کے عالمی مشاعروں میں ان کی شرکت نے اردو شاعری کو عالمی دھارے سے جوڑنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

ان کی تخلیقات جیسے یہ صدی ہماری ہے، لہورنگ موسم، لاوا، زندگی، اداس کیوں ہو صرف شاعری کے مجموعے نہیں بلکہ شعور و آگہی کے استعارے ہیں۔ منظر بھوپالی اپنے اشعار میں نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ قاری کو بھی محسوس کرانے پر مجبور کر دیتے ہیں:

 

وطن نصیب کہاں اپنی قسمتیں ہوں گی

جہاں بھی جائیں گے ہمارے ساتھ ہجرتیں ہوں گی

 

وہ شاعری کو مشاعرے کی زینت نہیں، بلکہ فکری بیداری کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ ان کے اشعار میں حب الوطنی، سماجی بغاوت، اور انقلابی جذبہ پوری شدت سے جھلکتا ہے۔ وہ معاشرتی ناہمواریوں پر خاموش تماشائی بننے کی بجائے، لفظوں سے اعلانِ بغاوت کرتے ہیں:

 

کربلا نہیں لیکن جھوٹ اور صداقت میں

کل بھی جنگ جاری تھی اب بھی جنگ جاری ہے

 

منظر بھوپالی کی شاعری میں ایک خاص قسم کا روحانی تاثر بھی ہے۔ وہ ماضی کے دریچوں سے جھانک کر حال کی تلخیوں کو بیان کرتے اور مستقبل کی راہیں تلاش کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں ایک ایسا تخیل ہے جو فرد سے نکل کر پوری تہذیب کا احاطہ کرتا ہے:

 

بیزیدیت کا اندھیرا تھا سارے کوفے میں

کسی نے سبط نبیﷺ کی طرف نہیں دیکھا

 

ان کے فکر و فن پر ممتاز ناقدین نے بھی بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر مظفر حنفی لکھتے ہیں:

منظر بھوپالی نے اپنی غزل میں وہ فنی خصوصیات پیدا کیں جو اسے وقتی تاثر سے نکال کر آئندہ نسلوں تک پہنچنے کے قابل بناتی ہیں۔ ان کا لہجہ نرم، خیالات پاکیزہ، اور مقصد حقیقت آمیز ہے۔

منظر بھوپالی نہ صرف کرب کا شاعر ہے، بلکہ عمل کا داعی بھی ہے۔ وہ محض حرف نہیں لکھتے ہیں، وہ حرف کو چراغ بناتے ہیں۔ ان کا یہ شعر ان کی انقلابی بصیرت اور اخلاقی استقامت کا ترجمان ہے:

 

اس زمانے کے آدمی ادھورے ہیں

صورتیں تو ملتی ہیں، سیرتیں نہیں ملتیں

شہریوں پر اترا کر جو خود کو خدا سمجھیں

منظر ایسے لوگوں کو ترتیب نہیں ملتیں

 

آخرکار منظر بھوپالی کی شاعری کو ایک مختصر مضمون میں مکمل سمیٹنا ممکن نہیں۔ ان کی تحریر اور شخصیت ایک ایسا آئینہ ہے جو ہر قاری کو اپنی صورت دکھاتی ہے۔ یہ خراجِ تحسین اس امید کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے کہ ہم ان کے فکر و فن کو نئی نسل تک پہنچا سکیں تاکہ اردو ادب کی یہ روشن شمع کبھی بجھنے نہ پائے۔

Comments are closed.