کاش! سلمان حسینی صاحب شعلہ بیاں مقرر نہ ہوتے، مدرس اور مبلغ و واعظ ہوتے

(ایک حکیم دانا کی نصیحت مولانا امین احسن اصلاحیؒ کو )
مولانا محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ، نور الاسلام کنڈہ ، پرتاپگڑھ 9506600725
ہمارے ایک فاضل ندوی محب وکرم فرما اور قدر داں ہیں،جو کافی دنوں سے بحرین میں مقیم ہیں، وہاں ایک معیاری اسکول چلا رہے ہیں اور دیگر علمی،دینی اور ملی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے ہیں ۔ مادر علمی ندوۃ العلماء کے فیض یافتہ و سند یافتہ ہیں، اور مدرستہ الاصلاح اعظم گڑھ کے خوان علم سے بھی انہوں نے خوشہ چینی کی ہے اور وہاں سے بھی جوہر مراد کو حاصل کیا ہے۔ خوب رو، وجیہ و شکیل ہیں، اسم بامسمیٰ ہیں، اللہ تعالٰی نے ان کو صلاحیت وصالحیت دونوں نعمتوں سے نوازرکھا ہے، بافیض شخصیت کے حامل ہیں۔ ان کا تعلق علم و ثقافت اور تہذیب و تمدن کی اس نگری اور سرزمین سے ہے، جس کے بارے میں اقبال سہیل مرحوم نے کہا تھا کہ
جو ذرہ یہاں سے اٹھتا ہے وہ نیر اعظم ہوتا ہے
وہ میری تحریروں کے بھی قدر داں ہیں، اور گاہے بگاہے میری حوصلہ افزائی بھی کرتے رہتے ہیں، اور جہاں بھی کوئی فروگزاشت اور علمی تسامح ہوتا ہے، یا فکر اور تعبیر کی غلطی ہوتی ہے، فورا تنبیہ کرتے ہیں اور اس تحریر کی کمی،نقص اور خامی پر نوٹ یا استدراک لکھ کر بھیج دیتے ہیں، خصوصا تصوف اور عجمی تصوف کے حوالے سے کبھی کوئی غیر مستند مواد یا واقعات تحریر ہوجائے، تو اس پر ضرور متنبہ کرتے ہیں۔ میں ان کی اس تنقید و تنبیہ پر کبھی ناخوش نہیں ہوتا، بلکہ ان کا شکر گزار ہوتا ہوں کہ انہوں بروقت تنبیہ کردی اور اس طرح کی چیزوں کو تحریر کرنے کے جو منفی اثرات ہوسکتے ہیں ، اس کی طرف توجہ دلا دی۔
ایک موقع پر انہوں نے ایک بہت قیمتی بات بتائی کہ انسان کو پرجوش اور شعلہ بیان خطیب کے بجائے واعظ شیریں بیاں بننا چاہیے اور بے جا خطابت و شعلہ بیانی کے جوہر بکھیرنے کے بجائے اپنی صلاحیت کو تحریر و تصنیف کے میدان صرف کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں انہوں ایک واقعہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے حوالے سے بیان کیا ، جو انہوں نے مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ میں اپنے کسی استاد کے توسط سے سنا تھا اور انہوں نے وہ واقعہ مجھے من و عن بیان کیا۔ اس واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ مدرستہ الاصلاح میں سال آخر کے طالب علم تھے اور طلبہ کی تنظیم جمعیة الطلبہ کے ناظم اور سکریٹری تھے، انتہائی ذہین و فطین۔ یہ وہ دور تھا جب وہاں کے ذمہ داران میں مولانا حمید الدین فراہیؒ اور بڑے بڑے اساطین علم و ادب تھے۔ مدرسہ کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا، جس میں عبقری علماء اور اہل علم موجود تھے، اسٹیج پر جلوہ افروز لوگوں میں مولانا محمد علی جوہرؒ مولانا عبد الماجد دریا بادیؒ اور مولانا حمید الدین فراہیؒ بھی تھے۔ طلبہ کی طرف سے نمائندگی مولانا امین احسن اصلاحیؒ صاحب نے کی اور بہت ہی زور دار، مؤثر اور پرمغز تقریر کی۔ ادارہ کا بھر پور تعارف بھی کرایا۔ لوگ ان کی شعلہ بیانی اور تقریر دل پذیر سے بہت متاثر ہوئے، مجمع پر سناٹا چھا گیا، جواں سال خطیب نے اپنی جادو بیانی اور خطیبانہ جوہر سے لوگوں کے دلوں کو جیت لیا اور مجمع کو گویا اپنے قابو میں کرلیا، ہر طرف صدائے آفریں اور شاباشی کے جملے تھے۔
جب ان کی تقریر مکمل ہوگئی اور اپنی جادو بیانی سے فارغ ہوگئے، تو صدر اجلاس مولانا حمید الدین فراہیؒ نے اصلاحی صاحب کو بلایا اور ان کی ہمت افزائی کی، لیکن ساتھ ہی نصیحت کی کہ *آئندہ اپنی صلاحیت میدان خطابت میں نہ صرف کرکے تحریر و تصنیف اور تحقیق کے میدان میں لگانا اور صرف کرنا۔* یہ بھی پوچھا کہ یقینا تم دوران تقریر حظ نفس محسوس کر رہے ہو گے؟ مولانا اصلاحی نے کہا: جی یہ محسوس کررہا تھا ۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اپنے استاد و مربی کی اس نصیحت پر تاحیات عمل کیا اور میدان علم و تحقیق میں چھا گئے اور ان کی تصنیفات سے آج بھی امت فائدہ اٹھا رہی ہے، یہ الگ بات ہے کہ علم و تحقیق کی دنیا میں ان کے بھی بہت سے تفردات اور علمی تسامح ہیں ، جن پر علماء محققین نے گرفت کی ہے۔
اس واقعے کو سنانے کے بعد ہمارے ندوی فاضل نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا: کاش! ہمارے معاصر اور رفیق درس مولانا سلمان حسینی صاحب شعلہ بیاں اور جادو بیاں مقرر و خطیب نہ ہوکر ایک واعظ شیریں بیاں اور مدرس و مبلغ ہوتے۔ آج ان کی شعلہ بیانی نے ہی ان کو کہیں کا نہیں چھوڑ رکھا ہے، اور اس طرح ایک قیمتی جوہر ضائع اور برباد ہوگیا، اور اب معاملہ تو اتنے آگے نکل گیا ہے کہ اب وہ بعض صحابہ کرام کی تکفیر ان پر سب و وشتم پر اتر آئے ہیں اور اعلانیہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کی شان اقدس میں گستاخی کر رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کو توفیق ہدایت سے نوازے آمین
راقم الحروف بھی اپنے سنئیر ندوی صاحب کے اس خیال سے متفق ہے، قارئین اس سے متفق ہیں یا نہیں، یہ ان پر چھوڑ رہے ہیں۔
سلمان حسںینی صاحب کے بارے میں میرا تاثر یہی ہے کہ وہ ہمیشہ تعلی کے شکار رہے، کبھی کسی کے ماتحت نہیں رہے، جوش خطابت میں، تقریروں میں ان کا جو اسلوب و انداز ہوتا ہے، وہ بھی سنت نبوی کے خلاف، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ما بال الناس کہہ کر منکر پر نکیر فرمایا کرتے تھے ، لیکن سلمان حسںینی صاحب کا انداز ہمیشہ شدت والا ہوا کرتا ہے، فریق مخالف پر سخت زبان استعمال کرتے ہیں اور اس میں بہت آگے نکل جاتے ہیں ، لعن و طعن کے الفاظ بکثرت استعمال کرتے ہیں(جبکہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ آپ لعان و طعان نہیں تھے اور نہ ہی فحش گو تھے)
۔ اور آج بھی یہی رویہ ہے ۔
دوسری بات انہوں نے کبھی کسی کو اپنا مربی اور مخلص نہیں سمجھا, حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کے دور تک ایک حد تک قابو میں رہے ، لیکن پھر انہوں نے کبھی کسی کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی کسی کے قابو میں آئے۔
جس کے منفی نتائج اور اثرات اب مرتب ہورہے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے اور ہدایت کے بعد گمراہی سے بچائے، نیز اس علم سے بھی بچائے جو نفع بخش نہ ہو اور جس سے امت کو نفع نہ ہو ۔
آمین یا رب العالمین
دعا اور توبہ کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہے ، الا یہ کہ بندہ جاکنی کے عالم میں پہنچ جائے ۔
ہم سب بھی مولانا کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پھر ان کو سلف کے راستے پر لے آئے اور ان کا قلم اور ان کی زبان امت کی نفع رسانی میں چلنے لگے ، اعتدال و توازن ان کے اندر آ جائے اور صحابہ کی محبت و عقیدت ان کے دل میں پہلی جیسی پیدا ہو جائے ۔ آمین یا رب العالمین
Comments are closed.