واقعہ کربلا، تعزیہ داری اورذکر شہادت حسین رضی اللہ عنہ

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
یاد داشت کےمطابق گزشتہ پینتیس سالوں سےدیکھتے آرہےہیں کہ جب بھی محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتاہے اخبارات میں واقعہ کربلا اورشہادت حسین رض کاتذکرہ ہونےلگتاہے۔اورخوب زورشور بھی شروع ہوجاتاہے۔ جالانکہ اسلامی تاریخ میں توبےشمار واقعات ہوئےہیں جنھیں برسی کے طورپر منایاجاناچاہئیے۔ جیسے حضور کی مدینہ ہجرت۔جنگ بدر۔فتح مکہ۔حضرت حمزہ کی شہادت۔خلفائے راشدین میں حضرت عمر۔حضرت عثمان رض۔کی شہادت۔یہ ایسے واقعات تھے۔جس نے تاریخ اسلامی اورتاریخ انسانی دونوں کومتاثرکیاہے۔اوران میں واقعہ شہادت حسین بھی ہے۔اگر واقعہ کربلا معرکہ حق وباطل نہیں ہے ۔تواسلام کے سیاسی نظام میں ”معرکہ خلافت وملوکیت“ضرور اسے کہاجاسکتاہے۔۔ جس طرح حضرت سیدنا عمر فاروق کو مصلے پر شہید کیا گیا۔کیا یہ امت کےلئیے کم تکلیف دہ تھا۔اورپھر ایران میں اس قاتل کا عالی شان مزار بنایا جانا کس بات کی غمازی کرتاہے۔ پھر حضرت عثمان غنی کو شہید کیاجانا کیا یہ تاریخ اسلامی کا المناک واقعہ نہیں ہے۔کیا اسلام اورامت کی دیوارہلادینے والا نہیں تھا؟۔اورپھر حضرت علی مرتضی کی شہادت اورخلافت کے بعد آپسی فتنوں کاظہور اورصحابہ کرام کا باہم ایک دوسرے کے خلاف کھڑاہونا۔اورپھر نواسہ رسول حضرت حسین رض کی شہادت۔ ان تمام واقعات کے درپردہ کون سی سازش پروان چڑھ رہی تھی۔ اورکیوں یہ واقعات امت میں رونماہوئیے۔ ان چیزوں پرغور کرنے اورامت کو بچانے کےلئیے سازشوں کو کچلنے کی بجائیے شیعہ اورسنی میں امت کا تقسیم ہوجانا۔ کیا یہ ہماری سیاسی چوک نہیں ہے؟اورپھر ابتداء میں اٹھنے والے فتنے اورباہمی مشاجرت کو قیامت تک باقی اورزندہ رکھنے کےلئیے تعزیہ داری جیسی تیموری رسم کو اعتقادی امورکاجز بنالینا۔اورپورے عشرہ محرم کو ڈھول تاشوں کے ساتھ سینہ کوبی اورزنجیرزنی یہ کون سا اسلام ہے۔اورکس آیت قرانی اورحدیث رسول سے ثابت ہے۔؟۔ اسلام کے ابتدائی دورکے نفوس قدسیہ کے واقعات کویاد رکھنا۔اوران کی جرات وہمت کی داستانیں اپنی آنے والی نسلوں کو سنانااوربتانا یہ کوئی بری چیز نہیں ہے۔مگر اس کو پوری دنیامیں دھوم دھام اورتماشوں میں تبدیل کردینا کہاں کی اسلامی اورشائستہ روایت ہے۔؟ ۔ اگر مسلمان جشن مناتا تواسے حضور ﷺکی ہجرت مدینہ ۔غلبہ حق کی جنگ ۔جنگ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی اورسب سے بڑھ کر فتح مکہ پر سالانہ جشن مناناچاہئیے۔مگر دورنبوی اوردورخلفائے راشدین میں کبھی اس پر جشن نہیں منایاگیا۔ اورنہ کوئی اس طرح کی روایت قائم ہوئی۔توپھر کسی کی شہادت پر چاہے آپ اسے ماتم کانام دیں۔یا جشن اور تعزیہ داری کا۔اسلامی اور شرعی نقطہ نظر سے اس کا کیاجواز ہے؟ ۔اس کامنطقی پہلوکیاہے؟ ۔عاشورہ محرم میں دنیا میں شیعہ برادری کی طرف سے برپاکی جانے والی اس صورت حال پر یہ سوال ذہن میں آتاہے۔ میرا مقصد کسی فرقہ کی تنقیص نہیں ۔بلکہ اس کی حقیقی حیثیت تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ اگر اسلامی لحاظ سے اس کا معقول جواب سامنے نہیں آتاتو بغیر کسی مسلکی ضد کے شیعوں کو اسے ترک کردیناچاہئیے ۔یہی دین کا تقاضہ ہے۔ اورخاص کر جو غیر شرعی رسومات۔ تعزیہ۔علم۔عاشورہ میں ہونے والے کھیل تماشے۔ ڈھول تاشے۔تبرع۔لعن طعن۔۔زنجیر زنی اورسینہ کوبی وغیرہ ہیں یہ تو غیر اسلامی یوں بھی ہیں۔ اس کاتوکوئی جواز ہی نہیں ہے اورنہ شریعت سے ثبوت ۔ باقی رہ گئیے حضرت معاویہ۔حضرت علی۔ اورواقعہ کربلا سے متعلق شیعہ اورسنی کا ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانا اسے بھی دانشورعلماء بیٹھ کر سلجھاسکتے ہیں۔ اورتاریخی طورپر جوغلطیاں کتابوں میں درج ہوتی چلی آئی ہیں ان کی صحت پر بھی۔غوراورتنقید وثحقیق کرکے دونوں گروہ کے اہل علم کی منتخب جماعت الگ کرسکتی ہے۔ کیونکہ ان کی حیثیت نہ تو وحی کی ہے۔اورنہ نصوص شرعیہ کی۔اورجودین ہمیں کتاب وسنت کی شکل میں ملاہے۔اسے پوری امت کو اختیار کرنے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ یہ تمام اہل حق گروہ کی ذمہ داری ہے۔ ”من مذھبی حب النبی واھلہ۔ وللناس فیما یعشقون مذاھب ۔“
Comments are closed.