یومِ عاشورہ پر مسلمانانِ عالم کے نام مولانا محمد ہارون المظہری کا پیغام

کاٹھمانڈو نیپال سے انوار الحق قاسمی کی خصوصی رپورٹ
یوم عاشورہ :یعنی دسویں محرم الحرام کے پر بہار اور حسین موقع پر قوم و ملت کی اپنی نمایاں اور اعلیٰ خدمات کی بناء ملک نیپال کی معروف اور عظیم سیاسی شخصیات کی جانب سے متعدد اہم اور قابل تکریم ایوارڈز سے سرفراز عبقری عالم دین مولانا محمد ہارون خان المظہری ( صدر جامعہ حفصہ للبنات و دارالعلوم ہدایت الاسلام انروا ومجلس تحفظ ختم نبوت سنسری نیپال و نائب صدر جمعیت علماء نیپال وسرپرست معہد ام حبیبہ للبنات جینگڑیا روتہٹ نیپال)نے مسلمانانِ عالم کے نام پیغام جاری کرتے ہوئے کہاکہ : عام دنوں کی بہ نسبت عاشورہ کے دن مسلمانوں کا خصوصیت کے ساتھ اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے میں وسعت و فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا،یہ ایک نہایت ہی مبارک عمل ہے،جس کی اثر انگیزی اور آفرینی سال کے ہر ایک دن پر ہوتی ہے۔ حدیث شریف کی عبارت ہے:مَنْ أوْسَعَ عَلٰی عِیَالِہ وَأھْلِہ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ أوْسَعَ اللہُ عَلَیْہِ سَائِرَ سَنَتِہ․ (رواہ البیہقی، الترغیب والترہیب 2/115) جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے میں فراخی اور وسعت کرے گا، تو پھر باری تعالیٰ اس کے رزق میں پورے سال وسعت عطا فرمائیں گے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ عاشورہ کے دن خود کو بخالت و کنجوسی سے بچائے اور سخاوت کا عملی مظاہرہ کرے !۔واضح رہے کہ شریعت میں اس کی حیثیت واجب اور فرض کی نہیں ہے۔
مولانا نے مزید کہا کہ : اسلامی شریعت میں ماہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے قبل یوم عاشورہ کا روزہ رکھنا فرض تھا؛مگر جب رمضان المبارک کے روزے فرض کیے گئے،تو یوم عاشورہ کے روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی۔ چوں کہ یوم عاشورہ کے روزہ کی فرضیت ختم ہونے کے باوجود اللہ کے نبیـ صلی اللہ علیہ وسلم -نے اس کے روزہ رکھنے کا خاص اہتمام فرمایا ہے؛اس لیے شریعت میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھنا سنت اور مستحب قرار پایا ہے۔ اگر عاشورہ کے دن روزہ رکھنے میں ہمیں کوئی دقت نہ ہو،تو پھر ہمیں روزہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ واضح رہے کہ عاشورہ کے دن یہود بھی روزہ رکھتے تھے ؛اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے قبل فرمایاتھا کہ:”اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا، تو نویں محرم الحرام کا بھی روزہ رکھوں گا”اور حضرت ابن عباس -رضی اللہ عنہ- اس سلسلے میں گویاہیں کہ :”عاشورہ کے دن روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو! یعنی یوم عاشورہ سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا بھی روزہ رکھو”، اس لئے دسویں کے ساتھ نویں یا گیارہوں کا روزہ رکھنا بھی بہتر ہے، تاکہ اس عبادت کی ادائیگی میں یہود کے ساتھ مشابہت نہ رہے۔پس معلوم ہونا چاہیے کہ شریعت میں غیروں کی مشابہت کس قدر نا پسندیدہ عمل ہے کہ روزہ رکھنے میں بھی مشابہت سے بچنے اور مخالفت کا حکم دیا گیاہے؛مگر افسوس کہ اب ہم ہر معاملےمیں غیروں کی مشابہت اور نقالی صرف کر ہی نہیں رہے ہیں ،بل کہ فخر سے کررہے ہیں۔ معاشرے اور سماج کے ایک ایک فرد پر اگر غائرانہ نظر ڈالا جائے،تو یہ بات اب بالکل واضح ہو جائے گی کہ ہم ذہنی ،فکری اور عملی غیروں کے غلام بن چکے ہیں ۔ ہم میں اپنے رسول کی سیرت کم اور غیروں کی نقالی زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ ہم کھانے پینے اور بول و براز میں بھی غیروں کے ناقل ہوچکے ہیں۔اللہ ہمیں غیروں کی مشابہت اور نقل سے بچنے والا بنائے ۔
مولانا نے کہا کہ : دسویں محرم الحرام کو شہادت حضرت حسین- رضی اللہ عنہ- کی بناء شریعت میں ماتم منانے،رخساروں کے پیٹنے ،گریبان چاک کرنے اور نوحہ و گریہ زاری کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان سب چیزوں سے ہمیں بچنا چاہیے۔حدیث مبارکہ ہے،جسے حضرت عبداللہ بن مسعود -رضی اللہ عنہ- نے روایت کیا ہے کہ رسول کریم -صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم -نے فرمایا ” وہ شخص ہمارے راستے پر چلنے والوں میں سے نہیں ہے ،جو رخساروں کو پیٹے، گریبان چاک کرے اور ایام جاہلیت کی طرح آواز بلند کرے۔
مولانا نے مزید یہ بھی کہا کہ : عاشورہ کا دن،حق و باطل کے درمیان ایک عظیم معرکہ اور لڑائی کا دن ہے۔ جس میں نواسہ رسول،جگر گوشہ بتول،سردار جنت حضرت حسین -رضی اللہ عنہ- نے ظالموں سے ظالمانہ انداز میں شہید ہونا،تو گوارہ کیا؛مگر باطل کے سامنے جھکنا قطعی گوارہ نہیں کیا ۔ حضرت حسین – رضی اللہ عنہ -کی شہادت سے جو ہمیں سب سے اہم سبق ملتاہے وہ یہ کہ ہم بھی اپنے دور کے ظالموں اور جابروں سے اس وقت تک بر سرِ پیکار رہیں،جب تک ہمارے جسموں میں جان ہے اور ہم ظلم و نا انصافی کے خاتمے کےلیے اپنی پوری توانائی صرف کرتے رہیں،اور ظالم کے سامنے کسی بھی قیمت پرجھکنے کو بالکل تیار نہ ہوں اور خود سے منافقت و مداہنت کو مکمل طور پر نکال دیں اور اللہ کے دین ومذہب کے غلبہ کےلیے خود کو وقف کردیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارا یہی جذبہ، ہمیں ظالموں پر غالب کرے گا۔
Comments are closed.