ہمیں محض تنقید سے آگے بڑھ کر ایک مضبوط، مستقل اور نافذ العمل قانون کا مطالبہ کرنا ہے: ٹیسٹا سیتلواد

نفرت انگیز جرائم و تقاریر کے خلاف ممبئی پریس کلب میں پریس کانفرنس
ممبئی، 7 جولائی(پریس ریلیز)
یونائیٹڈ اگینسٹ ان جسٹس اینڈ ڈسکریمنیشن (United Against Injustice and Discrimination) کے زیر اہتمام آج ممبئی پریس کلب میں ایک اہم پریس کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ملک میں بڑھتے ہوئے نفرت انگیز رجحانات، خاص طور پر اقلیتوں اور محروم طبقات کے خلاف جاری مسلسل اور منظم ظلم پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔
پریس کانفرنس کے آغاز میں جناب شاکر شیخ نے موجودہ سیاسی و سماجی منظرنامے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:
"نوجوانوں کی لنچنگ، مذہبی مقامات پر قبضہ، اقلیتی شناخت کی تضحیک، اور کسانوں کی تذلیل — یہ سب ایک منصوبہ بند ایجنڈے کی کڑیاں ہیں جن کا مقصد سماجی ہم آہنگی کو تباہ کرنا ہے۔ ایسے جارحانہ رجحانات کو فوری اور مؤثر انداز میں روکنا ناگزیر ہو چکا ہے۔”
ایک تازہ رپورٹ کے مطابق، مودی حکومت کے تیسرے دورِ اقتدار کے صرف پہلے سال میں 947 نفرت پر مبنی جرائم درج کیے گئے، جن میں 345 نفرت انگیز تقاریر شامل ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ان تقاریر میں سے 178 بی جے پی سے وابستہ افراد کی تھیں۔ مزید برآں، 602 مقدمات میں جسمانی تشدد شامل تھا، جن کے نتیجے میں 25 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے — اور یہ تمام متاثرین مسلمان تھے۔
یہ تمام اعداد و شمار اس امر کا ثبوت ہیں کہ اقلیتوں، دلتوں، آدیواسیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں جیسے محروم طبقات کو منظم اور مسلسل طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو نہ صرف آئینی اقدار بلکہ انسانیت کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
مقررین نے اپنے خیالات میں اس حقیقت کی بھرپور عکاسی کی:
سرفراز آرزو: "نفرت انگیز تقریر اور جرائم ایک فکری دہشتگردی ہیں۔ ان کے مرتکبین کے خلاف فوری قانونی کارروائی ناگزیر ہے۔”
فادر فریزر میسکیرنہس: "آج ملک کے کمزور اور پسماندہ طبقات پر ظلم کو ایک سسٹم کی شکل دے دی گئی ہے۔ یہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔”
ٹیسٹا سیتلواد: "آج وہ لوگ جنہیں جمہوری ایوانوں میں بھیجا گیا، وہی اقلیتوں کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ دلتوں، مسلمانوں، اور عیسائیوں کو بار بار نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہمیں محض تنقید سے آگے بڑھ کر ایک مضبوط، مستقل اور نافذ العمل قانون کا مطالبہ کرنا ہے۔”
پروفیسر زینت شوکت علی: "جب تک سب شہریوں کو برابر انصاف نہیں ملے گا، اُس وقت تک قومی یکجہتی ایک خواب ہی رہے گی۔”
ایڈوکیٹ سریش مانے: "ریاست کا فرض ہے کہ ہر فرد کے جان و مال اور عزت کی حفاظت کرے — صرف اکثریتی طبقے کی نہیں۔”
ڈاکٹر سلیم خان: "میڈیا کا فرض ہے کہ وہ سچ دکھائے اور امن و بھائی چارے کو فروغ دے، نہ کہ نفرت کو بڑھاوا دے۔ ظلم پر خاموشی، خود ایک ظلم ہے۔ جمہوریت اسی وقت زندہ رہتی ہے جب ہر شہری اپنی آواز بلند کرے۔”
ہروینڈر کور سنگھ: "ہمیں مذاہب کے درمیان پل باندھنے کی ضرورت ہے، دیواریں کھڑی کرنے والوں کو روکنا ہوگا۔ بین المذاہب اتحاد ہی نفرت کی سیاست کا سب سے مضبوط جواب ہے۔”
عرفان انجینئر: "نفرت کو عام گفتگو کا حصہ بنا دینا ایک خطرناک رجحان ہے۔ اس سے پوری کمیونٹیز کو غیر انسانی بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اور ہمارے کثرت پر مبنی جمہوری نظام کی بنیادیں کمزور ہوتی ہیں۔ ہر سطح پر — سیاسی، انتظامی، اور سماجی — جواب دہی لازم ہے۔”
پریس کانفرنس کا مقصد صرف اعداد و شمار کی پیش کش نہیں تھا، بلکہ پورے معاشرے کو بیدار کرنا، شہری ذمہ داریوں کا احساس دلانا، اور ایک اجتماعی لائحہ عمل تشکیل دینا تھا تاکہ ہندوستان کی کثرت میں وحدت کو بچایا جا سکے۔
Comments are closed.