حیدرآباد کا چودہ روزہ علمی و فکری سفر

 

محمد اسعد ندوی

 

زندگی کے کچھ سفر ایسے ہوتے ہیں جو محض منزل تک پہنچنے کا ذریعہ نہیں ہوتے، بلکہ روحانی تازگی، فکری بالیدگی اور دینی عزم و شعور کو نئی جِلا بخشتے ہیں،وہ دل و دماغ پر دیرپا نقوش چھوڑ جاتے ہیں اور انسان کی زندگی میں ایک نئی جہت کا اضافہ کر دیتے ہیں، ایسا ہی ایک سفر مجھے ماہِ جون 2025 میں حیدرآباد کے لیے کرنا نصیب ہوا، جو نہ صرف تربیتِ شریعت کا ایک باب تھا، بلکہ اتحاد، اخلاص اور علم دوستی کی ایک جیتی جاگتی مثال بھی۔

آغازِ سفر: خیال سے عمل تک

یہ سب اس وقت شروع ہوا جب عید الاضحی کی چھٹیوں سے پہلے ذہن میں یہ بات گردش کرنے لگی کہ کیوں نہ ان تعطیلات کے بعد جنوب کی مرکزی درسگاہ شاہین گروپ آف انسٹیٹیوٹ میں تفہیم شریعت کے عنوان سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام ایک ورکشاپ منعقد کیا جائے چنانچہ میں نے رابطہ کیا ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب سے، جو شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوٹس کے بانی اور ہندوستانی مسلم نوجوانوں میں تعلیم و تعمیر کا ایک روشن چراغ ہیں۔

بات ہوئی تو انہوں نے نہ صرف "تفہیم شریعت” کے عنوان سے ورکشاپ کے انعقاد کو سراہا، بلکہ بھرپور تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی، یوں ایک خیالی خاکہ حقیقت کا رنگ اختیار کرنے لگا، اور ورکشاپ کی تاریخ 21 جون مقرر ہو گئی۔بورڈ کے جنرل سیکرٹری حضرت مولانا فضل الرحیم

مجددی دام ظلہ سے انیس جون کی صبح اجازت طلب کی حضرت نے دعائیہ کلمات کہتے ہوئے اجازت دیدی –

بیدر کے لیے روانگی

عید الاضحی کے بعد جب چھٹی ختم ہوئ، تو ہم وقت مقررہ پرگھر سے دفتر پہونچے ، اگلے دن بیدر کا پروگرام منظم کیا، پھر وہ وقت بھی آیا جب انیس جون، بروز جمعرات ہم دہلی سے پرواز کے ذریعے روانہ ہوئے،دو گھنٹے کے مختصر مگر بامعنی سفر کے بعد ہم راجیو گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ، حیدرآباد پر اترے۔ یہاں کی فضا کچھ الگ ہی تھی، گویا تہذیب، رواداری، اور علم کی خوشبو ہوا میں رچی بسی ہو۔

المعہد العالی الاسلامی: علم کا مینار

حیدرآباد میں ہمارا قیام شہر کے معروف ادارہ المعہد العالی الاسلامی میں تھا، جو نہ صرف ایک تعلیمی ادارہ ہے بلکہ فضلاءِ مدارس کے لیے فکری و عملی تربیت کا مرکز بھی۔ یہاں پہنچتے ہی ادارہ کے اساتذہ سے ملاقات ہوئی، معہد جب بھی جاتا ہوں اور وہاں کے اساتذہ و طلباء سے گفتگو ہوتی ہے تو

یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ادارہ محض ایک درسگاہ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے—تحریکِ علم، تحریکِ فہمِ دین، اور جدید و قدیم کے سنگم کی تحریک۔

ترتیبِ پروگرام اور علمی نشستیں

اگلے روز صدر بورڈ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی زید مجدہ کے ہونہار صاحبزادہ مولانا مفتی عمر عابدین قاسمی صاحب سے نشست ہوئی، جو علمی و فکری دنیا میں نوجوان قلوب کے محبوب اور معتمد عالم دین ہیں، ان کے ساتھ بیٹھ کر بیدر ورکشاپ کے پروگرام کو منظم اور مربوط کیا گیا۔

پھر اکیس جون کی صبح، نمازِ فجر کے بعد معہد کے استاذ مولانا مفتی شاہد علی قاسمی، شاہین گروپ کے ایک ذمہ دار استاد، اور راقم الحروف پر مشتمل قافلہ، بیدر کے لیے روانہ ہوا۔

شاہین بیدر: علم و اخلاص کا مرکز

بیدر کا سفر تقریباً تین گھنٹے پر محیط تھا، مگر دل و دماغ میں جوش و شوق کی ایسی روانی تھی کہ سفر لمحوں میں کٹ گیا۔ شاہین بیدر میں ہمارے استقبال کے لیے اساتذہ، معلمین اور حفظ شعبہ کے ذمہ داران ہاتھوں میں گرمجوشی اور چہروں پر محبت لیے کھڑے تھے۔ ناشتہ کے بعد ہم سیدھے آڈیٹوریم کی طرف بڑھے، جہاں ڈگری کالج کے طلباء و طالبات، اساتذہ اور معلمات پہلے سے جمع تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ محض پروگرام نہیں، بلکہ ایک علمی عید کا سماں ہے۔

ورکشاپ کی روداد

پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا۔ پھر سلسلۂ محاضرات کا آغاز ہوا:

1. پہلا خطاب: مولانا مفتی شاہد علی قاسمی نے "یونیفارم سول کوڈ: خطرات و اندیشے” کے عنوان سے نہایت مدلل، پُراثر اور دوررس خطاب فرمایا، جس نے سامعین کے دلوں میں بصیرت کے چراغ روشن کیے۔

2. سوال و جواب: محاضرہ کے بعد سوالات کی بھرمار تھی، جن کے اطمینان بخش جوابات نے ثابت کیا کہ ہمارے نوجوان صرف سننے والے نہیں، سوچنے والے بھی ہیں۔

3. ظہرانے کے بعد: مولانا مفتی عمر عابدین قاسمی نے دو نہایت اہم موضوعات پر خطاب فرمایا:

تعدد ازدواج کا اسلامی و عقلی جواز

وقف ترمیمی قانون 2025: تجزیہ اور ہمارا موقف

4. راقم الحروف کے محاضرات:

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ: قیام، پس منظر اور خدمات

متبنیٰ (گود لیا بچہ) کا اسلامی تصور

ہر محاضرہ کے بعد سوال و جواب کی نشست رکھی گئی، جو علمی سطح پر سامعین کی دلچسپی اور بیداری کا واضح ثبوت تھی-

حیدرآباد میں قیام اور معہد کی رونقیں

ورکشاپ کے بعد المعہد العالی الاسلامی میں قیام کے دوران میرے پانچ محاضرات ہوئے، جو درج ذیل موضوعات پر تھے:

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ: قیام و ضرورت

متبنیٰ اور اسلامی موقف

تعدد ازدواج: حکمت و مصلحت کی روشنی میں

نفقہ مطلقہ: فقہی و سماجی جائزہ

یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ

یہاں علمی مجالس، عصرِ حاضر کے حساس موضوعات پر آزادانہ گفتگو، اور جدید تقاضوں کے مطابق تربیت کے انتظام نے مجھے یقین دلایا کہ معہد ایک ادارہ نہیں، بلکہ اکابرین کی فکری امانت کا امین ہے۔

مستقبل کی تیاری: علاقائی رابطے

اس دوران حضرت صدرِ بورڈ کی ہدایت پر تلنگانہ، آندھرا پردیش اور گجرات کے مختلف شہروں میں قابل اورعلم و عمل کے پیکر علماء سے رابطہ کیا گیا اور "تفہیمِ شریعت” کے آئندہ ورکشاپس پر مشورے ہوئے۔ بیشتر مقامات پر اگست کے مہینے میں پروگرام کے انعقاد کی زبانی یقین دہانی حاصل ہوئی۔

واپسی اور قلبی کیفیت

پھر وہ لمحہ بھی آیا کہ دل پر بار سا پڑنے لگا۔ دو جولائی کو جب واپسی کی تیاری ہوئی، تو یوں لگا جیسے دل کا ایک گوشہ حیدرآباد ہی میں رہ گیا ہو۔ بدھ، 3 جولائی کی صبح یہ بابرکت اور مصروف ترین سفر اپنے اختتام کو پہنچا—مگر ذہن و قلب میں علم، فہم، اخلاص، رفاقت اور تحریک کے ان گنت نقوش چھوڑ گیا۔

اختتامیہ: سفر کی اصل کامیابی

یہ چودہ روزہ سفر محض اداروں کے دورے یا محاضرات کا سلسلہ نہیں تھا، بلکہ اس میں:

نوجوانوں کے ذہنوں کو جلا دینے کی کوشش تھی

شریعت کے خلاف ہونے والے حملوں کا مدلل جواب تھا

اتحاد و یگانگت کا پیغام تھا

اور امت کے روشن کل کی تیاری کا عمل تھا

ایسے سفر ہی زندگی کے اصل سرمائے ہوتے ہیں، جو وقتی نہیں، دائمی اثر رکھتے ہیں۔

اللہ کرے یہ سلسلہ جاری رہے، اور ہمارے علمی و فکری قافلے ظلمتوں میں روشنی کی نوید بن کر چلتے رہیں۔ آمین۔

Comments are closed.