مفتی حبیب الرحمن یوسف قاسمی ایک ملاقات -ایک تعارف!

 

سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد

رابطہ: 8099695186

 

گزشتہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ پورےآب وتاب کے ساتھ سایہ فگن تھا،عشرہ اول ختم ہوکر دوسرا عشرہ شروع ہوچکا تھا،تیرہ چودہ روزے کو صبح فون ہاتھ میں لیا اور نیٹ آن کیا تو واٹس ایپ پر ایک میسج موصول ہوا،جس میں لکھا تھا "السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ امید کہ آپ بخیر ہونگے،عرض ہے کہ میں آج 10 بجے حیدرآباد پہونچ جاؤں گا،ان شاءاللہ اورکسی دن ملاقات کروں گا”میں نے اسے پڑھا اور پھر یہ لکھ بھیجاکہ حیدرآباد میں آپ کا قیام کہاں اورکب تک رہے گا؟ تو انکا جواب آیاکہ "21 مارچ 2025 تک مدرسہ رحمانیہ تالاب کٹہ،مفتی غیاث صاحب کے مدرسے میں قیام رہے گا”میں نے اگلے دوتین دن میں ان سے ملاقات کا عزم کرلیا اور ذہن بنالیا،یہ غالبا 13مارچ کی تاریخ تھی اور یہ میسج مفتی حبیب الرحمن قاسمی صاحب کا تھا،مفتی صاحب سے میرا رابطہ اور غائبانہ تعارف گزشتہ کئی ماہ قبل ہی سے تھا،کئی بار فون سے گفتگو ہوتی رہی تھی،واٹس ایپ پر جب ان کا پیغام موصول ہوا تو دل میں ملاقات کی خواہش پیدا ہو گئی اور پھر 17 مارچ 2025 مطابق 16 رمضان المبارک بروز پیر،تراویح وغیرہ سے فراغت کے بعد ہم نے ان سے ملاقات کا پروگرام بنایا،اسکی اطلاع انھیں دے دی، پہلے تو ارادہ تھا کہ اپنی رہائش گاہ پر ہی ان سے ملاقات ہو اور مفتی صاحب کو یہیں بلالیاجائے،پھر خیال ہواکہ یہاں آنے جانے میں شاید انھیں دشواری ہو،سواری وغیرہ کی پریشانی کا سامناکرناپڑے،اسلئے مجھے ہی چلنا چاہئے،بہرحال تراویح سے فراغت کے بعد میں اپنی قیام گاہ سے بہ غرض ملاقات نکلا اور مفتی صاحب کو اطلاع بھی کردیا کہ میں آپ کے دیدار کےلئے حاضر ہورہاہوں،مفتی صاحب خوش ہوگئے، وہ کہیں دوسری جگہ مدرسے کے کام میں مصروف تھے،مجھ سے انہوں نے کہا کہ آپ کے آنے تک میں بھی اپنی قیام گاہ پر پہونچ جاؤں گا ان شاءاللہ،میں یہ سوچ کر نکلا کہ دارالعلوم رحمانیہ تالاب کٹہ میں ان سے ملاقات ہو جائے گی لیکن پھر انہوں نے بتایا کہ ابھی میں رحمانیہ میں نہیں ہوں بلکہ آپ عائشہ نسواں مادنا پیٹ کے پاس آجائیں،یہیں ان شاءاللہ،ملاقات ہوگی،میری آسانی کےلئے انھوں نے لوکیشن بھی بھیج دیا،لیکن اسکے باوجود مجھے وہاں پہونچنے کےلئے تھوڑی تگ و دو کرنی پڑی اورخاک چھاننی پڑی،بہرحال اس جگہ پہونچنے میں کامیاب ہوگیا،وہاں پہونچا ان سے ملاقات ہوئی،راستے میں ہی انھوں نے بتادیا تھا کہ آج یہاں تراویح میں قرآن مکمل ہورہا ہے،ایک چھوٹا سا ادارہ جامعہ سیدنا ابوایوب انصاری رض کے نام سے قائم ہے،حضرت مولانا عتیق الرحمن ندوی صاحب ادارے کےذمہ دار ہیں،یہ ادارہ کئی سال سے طلبہ کی تعلیم وتربیت کا فریضہ انجام دے رہا ہے،عائشہ نسواں کے علاوہ کئی ادارے میں تدریس سے وابستہ مقبول اورکامیاب استاذ،خوش اخلاق اورمہمان نواز،حضرت مولانا عتیق الرحمن ندوی صاحب اس ادارے کے روح رواں ہیں،پورنیہ شہرمیں بھی بچیوں کا ایک بڑا ادارہ انکی زیرنگرانی چل رہاہے،یہ ادارہ بھی انھیں کے ماتحت ہے اور انتہائی کامیابی کے ساتھ تعلیمی سفر طے کررہاہے،اللہ تعالی ادارے کو مزید ترقیات سے نوازے،وہ ایک محنتی،علم پرور اور صاف دل انسان ہیں،اسی ادارے میں تراویح میں قرآن کی تکمیل ہورہی تھی،میں جب وہاں پہونچا تو تراویح ختم ہوچکی تھی اورحضرت مولانا عتیق الرحمن صاحب کا بیان چل رہا تھا،جہاں طلبہ کے علاوہ پردے کے پیچھے خواتین اور عوام کی کثیر تعداد موجود تھی،میں بھی وہاں ایک کنارے بیٹھ گیا،لیکن بڑی شرمندگی ہوئی جب مفتی حبیب الرحمن صاحب اور مدرسے کے دیگر ذمہ داران نے میرے لئے کرسی منگوائی اور بہ اصرار مجھے اس پر بیٹھنے کا حکم دیا،مجبورا مجھے کرسی پر بیٹھنا پڑا،مزید شرمندگی اس وقت ہوئی جب کچھ دیر کے بعد میرا تعارف کراتے ہوئے مبالغہ آرائی کی گئی اورمیرے نام کا اعلان کیا گیا کہ” فلاں فلاں مولانا ہمارے درمیان آئے ہوئے ہیں اور یہاں تشریف فرما ہیں،کچھ دیر انکا خطاب ہوگا”میں سوچنے لگا اور دل ہی دل میں دعاکرنے لگا،کیونکہ میں تو خالی الذہن ہوکرصرف ملاقات واستفادہ کی غرض سے حاضر ہوا تھا،ہرچند کہ میں معذرت کرتارہا لیکن میری معذرت قبول نہیں کی گئی اور مجھے مائیک تھما دیا گیا،اللہ تعالی نے لاج رکھی،میں نے اپنے رب کی توفیق سے قران کریم کی ایک آیت اور ترمذی شریف کی ایک حدیث کے حوالے سے 10/ 15 منٹ گفتگو کی،ذہن میں جوبات آئی وہ عرض کی گئی،دوران خطاب مجھے بالکل اندازہ نہیں ہوا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں لیکن بہرحال اللہ کی مدد اور ان کی توفیق شامل حال رہی،بعد میں معلوم ہوا کہ میری گفتگو کافی پسند کی گئی،جسکا اظہار مجھ سے علماء حضرات نے بھی کیا،مولانا ندوی صاحب کی رقت انگیز دعاء کےساتھ پروگرام ختم ہوا،حافظ صاحب کی گل پوشی و ہدیہ وغیرہ دینے اورمصافحہ ومعانقہ کے بعدمفتی حبیب الرحمن صاحب اور میزبان حضرت مولانا عتیق الرحمن ندوی صاحب سے کافی دیر تک تعارف اور تبادلہ خیال ہوتا رہا،مولانا عتیق الرحمن صاحب سے بھی میری پہلی ملاقات تھی وہ مجھ سے بڑا حسن ظن رکھتے ہیں،گفتگو جاری ہی تھی کہ یہ پروگرام بنا کہ عشائیہ کے لئے قریب کے کسی اچھے ہوٹل کا انتخاب کیا جائے اور وہاں چل کر کھانا تناول کیا جائے،حالانکہ میں گھر سے کھانا کھا کر نکلا تھا لیکن اس کے باوجود یہ پروگرام طے ہوا کہ تھوڑا بہت ہی صحیح،ہم لوگ کہیں چل کر کھانا کھائیں گے،بہرحال قریب ہی میں واقع سنتوش نگر چوراستے پر شہرکی ایک معروف ہوٹل "ہوٹل رومان” کا انتخاب کیاگیا اورحضرت مولانا عتیق الرحمن ندوی صاحب کی معیت میں ہم لوگوں کا چارنفری قافلہ ہوٹل کی جانب چل پڑا،وہاں پہنچ کر ہم لوگ کھانا وانا بھی کھاتے رہے اور مختلف موضوعات پر گفتگو بھی ہوتی رہی،درمیان میں چائے پان بھی نوش کیاگیا،رات کے تقریبا ڈھائی تین بج چکے تھے،سحر کا وقت ہوچکا تھا،اس لئے مجلس کی برخواستگی کا فیصلہ ہوگیا،اس امید کےساتھ کہ بقیہ گفتگو دوسری ملاقات میں ہوگی،اسطرح ہماری مجلس برخاست ہو گئی،دعا سلام اور اگلی ملاقات کا وعدہ کرکے پہلے حضرت مولانا عتیق الرحمن ندوی صاحب کو مادنا پیٹ ان کے مدرسہ جامعہ سیدنا ابو ایوب انصاری میں چھوڑکر الوداع کہا گیا،انھوں نے ہم لوگوں کی بہترین ضیافت فرمائی،اللہ تعالی انھیں جزائے خیر عطافرمائے،اسکے بعدمفتی حبیب الرحمن صاحب ایک صاحب کے ساتھ رحمانیہ کی طرف روانہ ہو گئے اور میں اپنی رہائش گاہ کےلئے چل پڑا،دو چار گھنٹے کی یہ ملاقات ادھوری ہی سہی لیکن یادگار رہی اورمزیدتشنگی باقی رہی،رخصت ہونے سے قبل مفتی حبیب الرحمن صاحب نے بیگ سے نکال کر اپنی دوتین کتابیں عنایت فرمائیں،جزاہم اللہ خیرا الجزا۔

تذکرہ علمائے بھاگل پور سے متعلق گزشتہ کئی ماہ قبل کسی صاحب سے میری گفتگو ہورہی تھی،اسی درمیان انہوں نے مفتی حبیب الرحمن قاسمی کا تذکرہ کیا اور مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ ان کو جانتے ہیں؟ آپ جو کام کر رہے ہیں اس سلسلے میں وہ بھی آپ کا کچھ تعاون کر سکتے ہیں،میں نے کہا میری ملاقات تو ان سے نہیں ہے،پھر انہوں نے کہا کہ تقاریر رمضان و عیدین نامی کتاب انھی کی ہے،اسکے بعد انکا مبائل نمبر حاصل کیا اور رابطہ کیا،ان سے کئی بار گفتگو ہوتی رہی،شرف ملاقات سے محرومی تھی،میں اس کتاب سے تو واقف تھا لیکن اس کے مصنف سے لاعلم تھا،یاد پڑتاہے کہ اس کتاب سے میری واقفیت بھی اس طرح ہوئی کہ 90 کی دہائی میں جب ہم لوگ جامعہ اکل کوا میں شعبہ حفظ میں زیر تعلیم تھے،وہیں امتحان میں پوزیشن لانے کی وجہ سے بہ طور انعام کئی کتابیں ہم لوگوں کو مدرسے کی جانب سے ملیں،جس میں ایک چھوٹی سی کتاب،ہرے کلر کا ٹائٹل”تقاریر رمضان و عیدین” بھی تھی جو تقریبا 100 صفحات پر مشتمل ہے،اس کتاب سے ہم نے کافی استفادہ کیا اور طالب علمی کے زمانے تک یہ کتاب ہمیشہ ہمارے پاس رہی اورصحیح بات یہ ہے کہ زیادہ تر تقریر وغیرہ ہم نے اسی کتاب سے یادکیا اورسیکھا۔ بلکہ آج بھی شاید یہ کتاب میرے کتب خانے میں کہیں موجود ہوگی،اس کتاب کے مصنف کون ہیں؟ آئیے ذرا آج انکا مختصر تعارف آپ سے کراتے ہیں۔

بھاگل پور شہر سے بجانب جنوب،پندرہ سترہ کلومیٹر دور پورینی روڈ پر” ڈھائی ہرنا”( پوسٹ بزرگ ہرنا،تھانہ رجون،ضلع بانکا) کے نام سے ایک گاؤں آباد ہے،جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تقریبا 80 فیصد مسلمان وہاں آباد ہیں،گویا یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے،دوتین گاؤں آپس میں ملے ہوئے ہیں،یہاں مسلمانوں کی آبادی تقریبا ایک ہزار گھر ہوگی،تعلیم یافتہ اورپڑھے لکھے لوگوں کا یہ علاقہ ہے،علماء وحفاظ کی بھی ایک بڑی تعداد یہاں موجودہے،اسی گاؤں میں مفتی حبیب الرحمن قاسمی ابن مولانا یوسف شمسی صاحب 1975ء میں پیداہوئے،چھریرا بدن،خوبصورت ناک نقشہ،چوڑی پیشانی،سرپر چھوٹے بال،گول ٹوپی،قدرے گھنی داڑھی اور چشمہ سے سجا نورانی چہرہ،درمیانہ قد،ملنسار و خوش اخلاق،مزاج میں سنجیدگی وسادگی،سوچ وفکر میں بالیدگی،عمر پچاس سال، لکھنے پڑھنے اور مطالعہ کے شوقین مفتی صاحب بھاگلپور کی ایک اہم شخصیت ہیں،مفتی صاحب کی سادہ اور مجاہدانہ زندگی،ہر وقت و ہرلمحہ سرگرم رہنے کی عادت اور ہر کہہ و مہ و کمزور وناتواں افراد کی داستان درد وغم کو پوری دل جمعی کے ساتھ سننے کی طاقت اوراسکے حل کےلئے فکرمندی یہ ایسی صفات ہیں جوانکے ہردلعزیز ہونے کا اصل سبب ہیں،انکو دیکھنے اور ان سےملنے سے سنجیدگی ومتانت کا پتہ چلتاہے،خلوص اور محبت بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے،شخصی اور ذاتی اعتبار سے شرافت و نجابت میں فرد فرید ہیں،انکی حد سے زیادہ سادگی،پاکیزگی،معصومیت اور خاکساری و عاجزی بلاشبہ قابل رشک ہے،یہی مفتی حبیب الرحمان صاحب کا پیدا ئشی گاؤں ہے،اب یہ گاؤں ضلع بانکا کا حصہ ہے،پہلے یہ متحدہ بھاگلپور میں شامل تھا،بانکا سے اسکی مسافت تقریبا 30 کیلو میٹر ہے،مفتی صاحب ایک مذہبی گھرانے اور دینی ماحول میں پیدا ہوئے،ان کے والد شمس الہدی پٹنہ کے فاضل تھے اورگاؤں کی مسجد میں امامت ومکتب سے منسلک تھے،مفتی صاحب پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور انکے بعددوبہنیں ہیں،انہوں نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں مولانا فاروق صاحب ڈہر پور سے حاصل کی،بعدہ مدرسہ مدنیہ چلمل باراہاٹ،چلے گئے۔ وہاں تین سال میں ناظرہ کی تکمیل اور 22 پارے حفظ کئے،اس کے بعد مدرسہ حبیبیہ پورینی میں داخلہ لیا اور وہاں حفظ کی تکمیل کی،1988ء میں وہیں دستار بندی بھی ہوئی،پھر وہاں سے مدرسہ فلاح دارین جونپور چلے گئے اور وہاں ایک سال رہکر دورمکمل کیا،مزید تعلیم کے لئے مدرسہ اعزاز العلوم ویٹ،ضلع غازی آباد،یوپی، منتقل ہوئے،جہاں فارسی تا عربی چہارم تک کی تعلیم حاصل کی اور پھر پنجم تا دورۀ حدیث یعنی چار سال دارالعلوم دیوبند کی آغوش میں رہ کر دورۀ حدیث سے 1996ء میں فراغت پائی،اس کے بعد افتاء و قضا کی مزید تعلیم کے لئے المعہد العالی امارت شرعیہ پٹنہ میں داخل ہوئے،جہاں حضرت قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی رح سے خصوصی طور پر استفادہ کیا،پھر امیر شریعت حضرت مولانا نظام الدین صاحب قاسمی رحمہ اللہ کی ایما پر جودھ پور،راجستھان قاضی بناکر بھیجے گئے،ایک سال کے بعد وہاں سے ان کو ضلع پورنیہ کے دارالقضاء بھوانی پور میں منتقل کردیا گیا لیکن وہاں انکی طبیعت نہیں لگی اور وہ شہر حیدرآباد چلے گئے،یہاں جمیعت علماء آندھرا پردیش کے ریاستی دفتر،مسجد زم زم،عنبر پیٹ میں امامت وخطابت اور محکمہ شرعیہ کے قاضی کی حیثیت سے دوسال خدمت انجام دی۔ اس کے علاوہ ندوہ کی ایک شاخ میں درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہا،تقریبا پانچ سال حیدرآباد میں مقیم رہے اور مختلف اداروں میں خدمت کرتے رہے۔2010 سے تا حال پورنیہ شہر میں بچوں کے ساتھ مقیم ہیں،مستقل رہائش کی وجہ سے یہی شہر اب انکا وطن ثانی بھی ہے،جہاں وہ ایک مسجد کے مقبول خطیب و امام ہونے کے ساتھ ندوہ کی شاخ "جامعہ خلفائے راشدین” میں کامیاب استاذ ہیں،یہاں نحو وصرف اور فقہ کی مختلف کتابیں زیر درس ہیں،علاوہ ازیں عائشہ نسواں حیدرآباد کی شاخ مدرسہ ام الکرام کریمہ للبنات حضرت گنج،پورنیہ (یہ ادارہ بھی حضرت مولانا عتیق الرحمن ندوی صاحب کے زیر نگرانی ہے) میں بھی درس وتدریس کا سلسلہ جاری ہے،جہاں درس نظامی اور ہفتم و دورۀ حدیث کی مختلف و اہم کتابیں جیسے ابو داؤد شریف،عقیدت الطحاوی،سراجی اور تفسیر جلالین جیسی کتابیں آپ سے متعلق ہیں اور کامیابی کے ساتھ اسکا درس دے رہے ہیں،اللہ تعالی عمردراز کرے،اتنی ساری مصروفیات کے باوجود تصنیف وتالیف کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اب تک کئی کتابیں مقبول عام ہوچکی ہیں۔انکی زندگی کا بغور مطالعہ کرنےسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے تعلیم سے فراغت کے بعد جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،اس دور میں دینی کام اور دین کی خدمت آسان نہیں ہے جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں،اس لائن کےلئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اورکن حالات سے گذرناپڑتاہے،اسکو انہی کی زبانی سنئے،یہ اقتباس پڑھئے اور سردھنئے،مفتی صاحب ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ

” 1996ء کے اوائل میں علوم دینیہ کی تحصیل سے میری رسمی فراغت دارالعلوم دیوبند سے ہوئی دل میں ایک جذبہ تھا کہ مجھے گاؤں میں رہ کر دین کا کام کرنا ہے،اللہ کا فرمان(وانذر عشیرتک الاقربین) میرے سامنے تھا،اللہ کے نبی کو بھی اولا یہی حکم ہوا کہ اپنے عزیزوں،رشتہ داروں کو ڈرائیے،خدا کے احکام بتائیے،ان سب کے پیش نظر تازہ تازہ میرے جذبات تھے،خون گرم تھا،دل میں امنگوں، آرزؤں اور جذبوں کا طوفان لئے اپنے گاؤں میں داخل ہوا،گاؤں کی مسجد میں امام نہیں تھے اور مدرسہ ویران تھا،میں نے بڑی محنت سے دونوں کو آباد کیا،مسجد میں امامت و خطابت کا انتظام کیا اور مدرسہ قاسم العلوم ڈھائی ہرنا میں مدرسین فراہم کیا،بحمدللہ میں نے ڈھائی تین سال تک سرتوڑ محنت کی اوربفضلہ تعالی سیکڑوں بچوں اور بچیوں کو قرآنی تعلیم اورنماز روزے کی لائن پر لگایا،پانچ،سات بچوں کی دستار بندی بھی ہوئی،ہر سال ایک بڑا جلسہ بھی منعقد ہوتا رہا،جس میں بڑے بڑے بزرگان دین،علمائے کرام تشریف لائے نیز حضرت الاستاذ مولانا قاری عثمان منصور پوری صاحب رح نائب مہتم دارالعلوم دیوبند بھی تشریف لائے،حالات اور خیالات کی تبدیلی کے واضح آثار نظر آنے لگے،اچانک گرد و پیش کے بعض حضرات کو حسد جلن نے میرے خلاف اکسانے پر مجبور کر دیا اور وہ تعاون سے دستبردار ہو گئے،میں نے بھاری قرض لے کر مدرسہ کی تعمیر اور چہار دیواری وغیرہ کروائی، اب جب کہ اس محنت کو میں دھیان میں لاتا ہوں تو رونا آتا ہے،بہرحال میرے کرم فرماؤں میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا،دلوں میں لاوا پکتا رہا،ان حالات کو دیکھ کر میرا دل ٹوٹ سا گیا،میرے جذبات سرد ہو گئے،میری ہمت جواب دے گئی،اتمام حجت تو کرہی چکا تھا،روز قیامت کی مسؤلیت کا کچھ سامان تو میں نے کر ہی لیا تھا،میرا علیم و بصیر رب گواہ ہے کہ میرا مقصد محض اس ظلمت کدہ میں اشاعت علم تھا لیکن غالبا وہ مجھے سمجھ نہیں سکے،جس طرح آقائے مدینہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے باشندوں نے مدینہ ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا تھا،میں نے بھی اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے،شکستہ دلی سے اپنی بستی اور بستی والوں پر حسرت آمیز الوداعی نظر ڈالی،بہرحال یہ کتاب اپنے انہی کرم فرماؤں کی نظر کرتا ہوں،پتھروں کے جواب میں دعا، کانٹوں کے صلہ میں پھول یہی میرے آقا کی سنت ہے۔” (تقریرفلاح دارین)

ایسے ناسازگار حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے مخلص ہوکر دین ومذہب کی خدمت کرنے والے لوگ اب بہت کم ہیں،بہت سے لوگ معمولی تکلیف کی وجہ سے راستہ تبدیل کرلیتے ہیں اور ہمت ہار جاتے ہیں پھر وہ کوشش بسیار کے باوجود دینی خدمت کےلئے تیار نہیں ہوتے،لیکن اللہ تعالی جن سے کام لینا چاہتا ہے وہ درجنوں طوفانوں سے گذار کر اپنے دین کی خدمت لے لیتا ہے۔تحریر کافی طویل ہوگئی،جی چاہتا تھا کہ انکی تصنیفات وتالیفات کا جائزہ لیکر اسکا تعارف کرایا جائے،لیکن یہ پھر کبھی ان شاءاللہ۔

مفتی صاحب کی چھوٹی،بڑی تقریبا دس کتابیں اب تک شائع ہوچکی ہیں،ہم یہاں ان کتابوں کی صرف فہرست دے رہے ہیں،بعض کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں،دلچسپی رکھنے والے احباب مفتی صاحب سے کتابیں طلب کرسکتے ہیں۔

(1) تقاریر رمضان وعیدین صفحات 96

(یہ کتاب اب تک بیسیوں بار شائع ہوچکی ہے)

(2) نورانی چہل حدیث صفحات 48

(3) بریلویت کا مقدمہ صفحات 143

(4) جدید رمضان وعیدین مع مسائل تراویح،زکوت وصدقات (اضافہ شدہ) صفحات 148

(5) آسان طریقہ عمرہ صفحات 24

(6) تقاریر فلاح دارین صفحات 96

(7) آسان طریقہ نماز صفحات 52

(8) گلدستہ حفاظ صفحات 148

(9) ہماری دینیات (اسلامی کورس) صفحات 112

اخیر کی یہ ایک اہم کتاب ہے جو خصوصا مکاتب اور اسکولوں کے طلبہ کےلئے آسان انداز میں لکھی گئی ہے،جس میں بہت سی معلومات کا ذخیرہ ہے اور انتہائی مفید کتاب ہے،ایسے اسکول جہاں دنیوی تعلیم کا نظم ہے وہاں اس کتاب کو نصاب میں شامل کیاجاسکتاہے،جس میں چہل حدیث،مسنون دعائیں،طہارت ونماز وغیرہ کا طریقہ،والدین کے حقوق،علماء کا احترام،پڑوسیوں کے حقوق،کھانے پینے کے آداب جیسی بنیادی اور اہم چیزوں کوکتاب میں شامل کیاگیاہے،اہل خیر حضرات اس کتاب کو خرید کر اسکول ومکاتب کے طلبہ میں تقسیم بھی کرسکتے ہیں۔

کتاب کےلئے 7250492646 اس نمبر پر مصنف سے رابطہ کیاجاسکتاہے۔

 

(صاحب تحریر،معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)

[email protected]

 

Comments are closed.