غزہ میں غذائی نظام تباہ، قحط سے اموات کا خدشہ ہے:اقوام متحدہ

بصیرت نیوز ڈیسک
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر نے پیر کے روز ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ غزہ میں غذائی نظام مکمل طور پر تباہی کا شکار ہو چکا ہے۔ دفتر کا کہنا ہے کہ قحط میں بے پناہ شدت آ چکی ہے اور اگر امدادی قافلوں کی ترسیل کو مسلسل روکا جاتا رہا، تو اس کا مطلب مزید بے گناہ انسانی جانوں کا قتل ہو گا۔
اقوام متحدہ کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ غزہ کے مجبور و محصور خاندان اپنے بچوں کے لیے ایک وقت کا کھانا حاصل کرنے کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھ کر باہر نکلنے پر مجبور ہیں۔ بچوں میں شدید غذائی قلت کی شرح دو گنا بڑھ چکی ہے، جبکہ نومولود بچوں کے لیے دودھ ختم ہونے کے قریب ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس پہلے ہی غزہ میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال پر شدید افسوس کا اظہار کر چکے ہیں اور انہوں نے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ فوری اور مستقل جنگ بندی کی جائے اور تمام قیدیوں کو بغیر کسی شرط کے رہا کیا جائے۔
اقوام متحدہ اور عالمی ادارۂ خوراک و زراعت (فاؤ) کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی سنہ2025ء تک خان یونس کی کم از کم 61.5 فیصد زرعی زمین یا تو مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے یا کاشت کے قابل نہیں رہی۔
یہ اعداد و شمار ان فلسطینی کسانوں کی گواہیوں کی تصدیق کرتے ہیں جنہیں اپنی زمینوں تک رسائی حاصل نہیں رہی۔ وہ اب نہ زمین کے مالک ہیں نہ چھت کے، بلکہ دربدر مہاجر بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے "اونروا” کے مطابق، اس وقت غزہ کے 85 فیصد علاقے قابض اسرائیل کی فوجی سرگرمیوں، جبری انخلاء یا دونوں کے تحت آتے ہیں۔
فاؤ کے مطابق، غزہ کی 80 فیصد سے زائد زرعی زمین کو براہ راست نقصان پہنچا ہے، 71.2 فیصد زرعی گرین ہاؤسز تباہ ہو چکے ہیں، جب کہ 82.8 فیصد آبپاشی کے کنویں مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔
خان یونس میں قابض اسرائیل کی بمباری اور گولہ باری کے نتیجے میں تقریباً 2600 ہیکٹر زرعی زمین مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ زیادہ تر زرعی علاقوں تک رسائی یا تو محاصرے کی وجہ سے ممکن نہیں یا قابض اسرائیلی فوج کے حملوں کا شدید خطرہ موجود ہے۔
فلسطینی زرعی و ماحولیاتی ماہر نزار الوحیدی نے روزنامہ فلسطین کو بتایا کہ خان یونس جو کبھی غزہ کے غذائی ذخیرے کا مرکز سمجھا جاتا تھا، آج غذائی تحفظ کے اعتبار سے ایک کمزور ترین مقام بن چکا ہے۔
الوحیدی کا کہنا ہے کہ ضلع کا مشرقی حصہ جہاں کبھی سب سے زیادہ گرین ہاؤسز اور کھلی فصلیں ہوا کرتی تھیں، اب مکمل طور پر منظم طریقے سے بلڈوز کیا جا چکا ہے۔ مغربی حصہ بے گھر ہونے والے لوگوں کے باعث غیر فعال ہے۔ جبکہ المواصی علاقہ جو غزہ میں مرغیوں کی افزائش کا سب سے بڑا مرکز تھا، مکمل طور پر برباد ہو چکا ہے، جس کے نتیجے میں جانوروں سے حاصل ہونے والے پروٹین کی سنگین کمی واقع ہو چکی ہے۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر فوری طور پر کوئی بڑا قدم نہ اٹھایا گیا، تو غزہ کا زرعی نظام ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جائے گا اور اس کے نتائج نہ صرف آئندہ چند مہینوں بلکہ کئی برسوں تک جاری رہیں گے۔
غذائی تحفظ کے بین الاقوامی پروگرام IPC کے مطابق اس وقت 93 فیصد غزہ کے باسی کسی نہ کسی درجے کے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جن میں 12 فیصد افراد ایسے ہیں جو "قحط” کی سطح تک پہنچ چکے ہیں، جبکہ 44 فیصد "ہنگامی غذائی بحران” کی حالت میں ہیں۔ ان حالات کی براہ راست وجہ قابض اسرائیل کی جانب سے زرعی اور حیوانی پیداوار کو منظم طور پر تباہ کرنا اور رسد کی تمام تر سپلائی چین کا منقطع ہونا ہے۔
Comments are closed.