Baseerat Online News Portal

جہیز کا طوفان بلا خیز اور امت مسلمہ

عبدالرزاق بنگلوری

متعلم :مدرسہ شاہی مراد آباد

درجہ :تکمیلِ افتاء

دور موجود میں مسلم سماج جس دہانے پر کھڑا ہے، وہ بد سے بدتر ہے، اس کی سب سے اہم وجہ نکاح کو مشکل بنانا ہے، نکاح اس لئے مشکل بن گیا کہ اس کو عبادت کے بجائے زمانہ اور سماج کے رسم و رواج کا درجہ دیا گیا ہے، اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو چیز اپنی اصل حقیقت و حیثیت سے الگ ہوکر رسم و رواج کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو رسم و رواج کی تمام خرابیاں اور تباہ کاریاں اس میں پیدا ہو جاتی ہیں، چنانچہ نکاح عبادت کے دائرے سے ہٹ کر رسم ورواج کی بے راہ روی کو اختیار کرنے کے بعد جہیز جیسی لعنت کو اس میں اہم اور مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی، مسلم معاشرے میں یہ لعنت داخل ہونے کی بنا پر نکاح کا جائز اور آسان راستہ انتہائی مشکل بن گیا، اور اسلام نے نکاح کو جتنا آسان اور سادہ بنایا تھا سماج کے رسم و رواج نے اس کو اتنا ہی مشکل اور پےچیدہ بنا دیا کہ آج ایک معمولی اور متوسط درجے کا آدمی بھی اگر اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہے تو لاکھوں کے بجٹ کے ساتھ وہ قدم اٹھا سکتا ہے، مغربی کلچر اور غیر اسلامی رسوم کو اختیار کرنے کی بنا پر نکاح کا آسان طریقہ مشکل ہونے سے جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے بدکاری بداخلاقی اور بےحیائی کا راستہ اپنایا جا رہا ہے لو میرج اور کورٹ میرج کے شرمناک واقعات رونما ہونے لگے ہیں، جنسی تسکین کے لئے عیاشی اور جسم فروشی کے اڈوں پر ملت کی بیٹیاں ہمیشہ والدین کو رسوائی کا آئینہ دکھاتے ہوئے نظر آنے لگی ہیں، غور کرنے کا مقام ہے کہ آج ساری دنیا جہیز کی لعنت میں گرفتار ہوکر نوجوان لڑکیوں کی زندگی کو کھلواڑ بنا رہی ہے، اور کتنی دو شیزاؤں کی تمناؤں کا خون کیا جا رہا ہے؟ کتنے والدین کی آرزوؤں اور امیدوں کا گلا گھونٹ دیا گیا؟ ہزاروں نوجوان ہن بیاہی لڑکیاں آج بھی گھروں میں بیٹھی اپنے مقدر کو ترس رہی ہے، اور نئ نویلی دلہنوں کو طلاق کی دھمکی دی جا رہی ہے.

 

تہذیب یا خرافات

غیر مسلموں کی جن بےہودہ رسموں نے ہمارے معاشرے میں جگہ پکڑی ہے ان میں ایک حد درجہ گھٹیا اور نوجوان لڑکیوں کی زندگی کا اجل جہیز ہے جس میں نہایت بے غیرتی بے شرمی اور بے حیائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اور کار موٹر سائیکل اور دیگر دنیاوی سازو سامان وغیرہ کی فرمائشوں کی تکمیل پر رشتے کو موقوف رکھا جاتا ہے، اس غیر انسانی اور نا معقول رواج نے آج سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مسلم بچیوں اور جوان لڑکیوں کو گھروں میں بنا شادی گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے، کتنے غریب ماں باپ ہیں جن کی راتوں کی نیندیں خراب ہو گئی ہیں؟ جن کی تلاش کیلئے ساری دنیا گھوم رہے ہیں حالانکہ ان کی زندگی کا سکون ہمارے نوجوان لڑکوں نے چھین رکھا ہے، آج دنیا میں جہیزکی لالچ طمع اور کمینہ پن سے بڑھ کر کوئی مثال نہیں ہوسکتی، حالانکہ اس رسم و رواج کا دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے، صحابی رسول صلی اللہ علیہ و سلم حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ

مَنْ تَزَوَّجَ إِمْرَأَةً لِعِزِّھَا لَمْ یَزِدْہُ إلَّا ذُلًّا ،وَمَنْ تَزَوَّجَھَا لِمَالِھَا لَمْ یَزِدْہُ الله اِلَّا فَقْرًا، وَمَنْ تَزَوَّجَھَا لِحُسْنِھَا لَمْ یَزِدْہُ الله اِلَّا دَنَاءَةً، وَ مَنْ تَزَوَّجَ إِمْرَأَةً لَمْ یُزَوِّجْھَا اِلَّا لِیَغُضَّ بَصَرَہٗ اَوْ لِیُحْصِنَ فَرْ جَهٗ اَوْ یَصِلَ رَحِمَهٗ بَارَکَ اللهُ فِيهَا وَ بَارَکَ لَھَا فِیهِ (رواہ الطبراني فی الأوسط، مجمع الزوائد، ٢٠٤/٤)

جو شخص کسی عورت سے محض اس کی عزت کی وجہ سے شادی کرے تو اللہ تعالی اس شوہر کو ذلت میں ڈالدیں گے، اور جو شخص عورت کی محض مالداری کی بنیاد پر اس سے نکاح کرے تو اللہ تعالی اس شخص کو فقر وفاقہ میں مبتلا کر دے گا، اور جو شخص کسی عورت سے محض اس کے حسن و جمال کی وجہ سے نکاح کرے تو اللہ تعالی رسوائی اس کے مقدر کر دیں گے، اور جو شخص کسی عورت سے اپنی نگاہ کو پست رکھنے اور شرمگاہ کو حرام سے بچانے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کے غرض سے نکاح کرے گا تو اللہ تعالی شوہر کیلئے بیوی میں اور بیوی کے لئے شوہر میں برکت عطا فرمائیں گے.

اس روایت سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کے نکاح کرنے میں مقدم دین کو رکھیں، اور اس کے ضمن میں حسن و جمال، حسب ونسب، مال و دولت کو رکھا جائے جیسا کہ ایک دوسری روایت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

تُنْکَحُ الْمَرْأَةُ لِاَرْبَعٍ لِمَالِھَا وَ لِحَسَبِھَا وَ لِجَمَا لِھَا وَ لِدِیْنِھَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينُ تَرِبَتْ یَدَاکَ (بخاری شریف، کتاب النکاح)

کسی بھی عورت سے نکاح کرنے میں چار باتوں کا لحاظ رکھنا اولی مستحب اور مستحسن ہے، نمبر1 مال کے اعتبار سے، نمبر2 حسب و نسب کے اعتبار سے، نمبر3 حسن و جمال کے اعتبار سے، نمبر 4 دینداری کے اعتبار سے، مگر ان چاروں چیزوں میں دین داری کو ترجیح دی جائے گی، مال کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے جہیز کا مطالبہ کیا جائے، بلکہ شوہر کی عدم موجودگی میں بیوی اپنے نان ونفقہ کے علاوہ اس کے مال کی حفاظت امانتداری کے ساتھ کرسکے، حسب و نسب کی توضیح یہ ہے کہ شوہر کا ذہن کسی اونچی حسب نصب والی عورت کی طرف منتقل نہ ہو، اور حسن و جمال کی وضاحت یہ ہے کہ شوہر کی نگاہ محفوظ رہے، مگر ان تمام چیزوں میں ترجیح تو دینداری کو ہی حاصل ہو گی.

 

خدا را :ذرا آنکھیں تو کھولو!

نکاح انسانی زندگی کا انقلابی اور تاریخی موڑ ہوتا ہے، اور اس موڑ پر جتنی اللہ کے رضا جوئی کی جائے اتنا ہی بعد کی زندگی میں محبت بڑھتی جائیں گی، اور جتنا جہیز کی خرافات نکاح میں کروگے آپس میں اتنی ہی دوریاں اور نفرتیں پیدا ہوتی رہیں گی، اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو بھی عبادت خرافات میں بدل جائے گی اس میں بے برکتی اور آپس میں دل شکنیاں ہوتی رہیں گی، کیونکہ اللہ کی مدد دین کے ساتھ مختص ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں خاندانوں کے آپس میں ناگواری اور تلخی تو ضرور ہوگی، یہ پہلو تو میں بہت احتیاط کے ساتھ تحریر کررہا ہوں ورنہ تو آج جتنے طلاق و خلع کے حادثات پیش آ رہے ہیں، وہ انہیں منحوس خرافات کا نتیجہ ہے، اور یہ کار معصیت جو خصوصا نکاح کا جزء لاینفک بنا ہوا ہے، یہ ایسی واہیات اور خلاف شرع چیزیں ہرگز کسی صاحب ایمان کو زیب نہیں دیتیں، اس سے دور رہنا اور دوسروں کو دور رہنے کی تلقین کرنا بے حد ضروری ہے، اور ساتھ میں ان برائیوں کے سدباب کے لیے اجتماعی طور پر اور سماجی تحریک کے انداز میں مسلسل کام کرنا ضروری ہے، اللہ تعالی ہم سب کو اس طرح کے نت نئے تمام خرافات سے بچائے.آمین

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.