اپنے رب کی کن کن نشانیوں کو جھٹلاؤگے

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

عربی زبان میں آلاء کا واحد الیی ہے اس کے معنی لغت میں نعمت کے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورہ رحمن میں اللہ کی مختلف نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے بعد بار بار یہ آیت آئی ہے کہ تم اللہ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔ فبائی آلاء ربکماتکذبان.

ہم اللہ کی نعمتوں (اور نشانیوں) کو شب و روز دیکھتے ہیں ۔ ہمہ وقت اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن ان پر غور و فکر نہیں کرتے ۔ انسان کی بہت بڑی کوتاہی یہ ہے بلکہ بڑا جرم یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالی نے عقل و فہم دیا ۔معرفت و تدبر کی دولت سے نوازا فراست و ادراک اور بصیرت و بصارت سے نوازا، یہ چیزیں اللہ تعالی نے اس لئے دیں ہیں کہ وہ (مومن بندہ) آفاق و انفس پر نظر کرے اللہ کی نعمتوں پر غور کرے اور اس کے بدلے میں وہ اس کائنات کے خالق و مالک کے سامنے پوری طرح جھک جائے ۔ سجدہ ریز ہو جائے ۔ مگر زیادہ تر انسان ایسا نہیں کرتے ۔ وہ ان نعمتوں اور ان احسانات و انعامات کے بعد بھی خدا کے شکر گزار بندے نہیں بنتے ۔

انسان کی یہ حقیقت فراموشی کبھی بھی معاف نہیں کی جائے گی اس کی پکڑ بہت سخت ہے ۔ اللہ تعالٰی ان لوگوں کی ضرور پکڑ کرتے ہیں جو ان کے ناشکر گزار بندے بن جاتے ہیں ۔ ارشاد خداوندی ہے :

لئن شکرتم لازیدنکم و لئن کفرتم ان عذابی لشدید.

اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو زیادہ نواز دوں گا اور اگر کفران نعمت کروگے تو میری سزا بہت سخت ہے ۔

ایک مومن کو چاہیے کہ وہ ایمانی اور ربانی زندگی گزارے ایمانی زندگی عارفانہ زندگی کا نام ہے اور عارفانہ زندگی یہ ہے کہ آدمی اللہ کی نعمتوں پر غور و فکر کرے ان نعمتوں کی دریافت کرے ان گہرائی میں جائے اور شکر و اعتراف والی زندگی گزارے ۔

نعمت کا اعتراف ایک بلند انسانی صفت ہے ۔انسان پر سب سے زیادہ اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں اس لئے انسان کو چاہیے کہ وہ ہمہ وقت خدائے وحدہ لاشریک کا شکر ادا کرے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں فرمایا کرتے تھے: رب اجعلنی لک عبدا شکورا (ترمذی کتاب الدعوات )

یعنی اے پرور دگار ! تو مجھ کو بہت زیادہ شکر کرنے والا بنا ۔

قرآن مجید میں بار بار بندے کو یہ سمجھایا گیا ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے کہ اے لوگو! خدا کے شکر گزار بندے بنو ۔ شیطان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو شکر کے راستے سے ہٹا دے ۔ انسانی زندگی کے آغاز ہی میں شیطان نے خدا کے حضور اور دربار میں کہا تھا بلکہ چیلنج کیا تھا کہ میں انسانوں کو بہکاوں گا یہاں تک کہ تو ان میں سے اکثر لوگوں کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا ۔

انسان کے اندر شکر گزاری کا جذبہ اور ادائیگی شکر کی کیفیت کب اور کیسے پیدا ہوگی اس کی صورت یہ ہے کہ وہ اللہ کی ایک ایک نعمتوں کو شمار کرے ۔ اس پر غور کرے ۔ استحقاق کے بغیر بھی اللہ نے کن کن نعمتوں اور لذتوں اور آسائشوں سے نوازا ہے اس پر غور کرے ۔ اللہ کے بندوں میں سے جس نے ان پر احسان کیا ۔ وقت پر ان کی مدد کی ان کے کام آیا ہے ان کا بھی شکریہ ادا کرے کیونکہ جب وہ اپنے جیسے بندے کے احسان پر شکریہ ادا کرے گا اور یہ اس کی عادت بن جائے گی تو منعم حقیقی کا شکر بجا لانا اس کے لئے آسان ہوجائے گا ۔ یہ حقیقت ہے کہ جو بندہ کا شکر گزار نہیں ہوا وہ خدا کا شکر بھی ادا نہیں کرسکتا ۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من لم ہشکر الناس لم ہشکر اللہ.

علماء نے شکر کی دو قسمیں بیان کیا ہے :

شکر لسانی ۔ شکر قلبی

شکر لسانی تو اکثر لوگ کرتے ہیں بار بار وہ اپنی زبان سے کہتے ہوئے دکھیں گے ۔ الحمد للہ ۔ الشکر للہ سبحان اللہ ماشاء اللہ ۔ لیکن یہ شکر صرف زبان تک رہتی ہے ۔ دوسری قسم ہے شکر قلبی یعنی دل اور اندورون کی کیفیت سے خدا کی نعمتوں اور ان کے احسانات پر شکر بجا لانا کہ آنکھوں میں آنسو آجائے ۔ دل پر ایک خاص کیفیت پیدا ہوجائے ۔ اس کیفیت کو پیدا کرنے کے لئے اللہ سے قربت اور تعلق مضبوط کرنا ہوگا اہل اللہ کی صحبت میں حاضری دینی ہوگی ۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق بخشے آمین

Comments are closed.