Baseerat Online News Portal

سچائی اور حقیقت کا اعتراف مومن کی خوبی

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

قرآن مجید کی سورہ سجدہ میں ایمان والوں کی شان یہ بتائ گئ ہے انما یومن بآیاتنا الذین الخ کہ ہماری آیتوں اور نشانیوں پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب ان کے ذریعہ یاد دہانی کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں ۔اور وہ تکبر نہیں کرتے ۔

یعنی ایمان والوں کی شان یہ ہے کہ تکبر و گھمنڈ اور نفس کی کبریائی ان کے لئے قبول حق اور اطاعت رب سے مانع نہیں ہوتی ۔وہ اپنے غلط خیالات و نظریات اور افکار کو چھوڑ کر اللہ کی بات مان لینے اور اللہ کی بندگی اختیار کرکے اس کی عبادت بجا لانے کو اپنی شان سے گری ہوئ بات نہیں سمجھتے ۔

یہاں اس آیت کے ضمن میں اس نکتہ کی طرف بھی علماء نے اشارہ کیا ہے کہ ہدایت کے سلسلہ میں سب سے اہم چیز مادئہ اعتراف ہے یعنی جب بھی سچ سامنے آئے اور حقیقت آشکار ہوجائے تو بندئہ مومن کو سر تسلیم خم کر دینا چاہیے اور حق کو حق مان لینا چاہیے ۔ خدائ ضابطہ اور الہی فیصلہ ہے کہ ہدایت صرف ان لوگوں کو ملتی ہے جن کے اندر تسلیم و رضا کا جذبہ ہو کہ جب اس کے سامنے سچائ آئے تو وہ فورا اس کو مان لیں ۔ خواہ سچائ بظاہر ایک ادنی معمولی اور کم حیثیت و بے رتبہ آدمی کے ذریعہ سامنے آئ ہو ،خواہ اس کو ماننا اپنے آپ کو غلط قرار دینے کے ہم معنی ہو ،خواہ اس کو مان کر اپنی زندگی کا نقشہ و پلان درہم برہم ہوتا ہوا نظر آئے ۔جن کے اندر یہ حوصلہ ہوگا وہی سچائ کو پاسکے گا ۔ جو لوگ یہ چاہیں کہ وہ سچائ کو اس طرح مانیں کہ ان کی بڑائ اور برتری قائم رہے اس کی حیثیت اور درجہ میں کسی حال میں کمی نہ آئے ایسے لوگوں کو سچائ نہیں ملتی اور وہ حق سے دور ہوجاتے ہیں ۔ جو آدمی حق کی خاطر اپنی بڑائ اور برتری کو کھو دے اس کو ٹھوکر مار دے وہ سب سے بڑی چیز اور سب سے قیمتی دولت پالیتا ہے ۔ اور وہ خدا کی بڑائ اور کبریائی ہے۔ جب بندے میں یہ خوبی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اس مقام تک رسائی حاصل کر لیتا ہے تو پھر وہ خدا سے اس قدر قریب ہوجاتا ہے اور اس کی زندگی میں خدا اس طرح شامل ہوجاتا ہے کہ وہ اس کی یادوں کے ساتھ سوئے اور وہ اس کی یادوں کے ساتھ جاگے ۔ اس کے خوف اور امید کے جذبات تمام تر خدا کے ساتھ وابستہ ہوجائیں ۔ وہ اپنا کل سرمایہ اور اثاثہ اس طرح خدا کے حوالے کر دیتا ہے کہ اس میں کچھ بچا کر نہیں رکھتا ۔ ایسے ایمان والوں کے لئے جنت کی کھلی ہوئی بشارت ہے کہ ان لوگوں کی آنکھیں جنت کے ابدی باغوں میں ٹھنڈی ہوں گی ۔

مومن اور فاسق میں فرق یہ ہے کہ مومن سچائی اور حقیقت کا فورا اعتراف کر لیتا ہے اور فاسق کے سامنے جب حق آتا ہے سچائ آتی ہے تو وہ فورا اپنی ذات اور شخصیت کے تحفظ کی خاطر اس کا انکار کر دیتا ہے ۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف کردار ہیں اور دو مختلف کردار کا انجام ایک جیسا نہیں ہوسکتا ۔

آج سب سے بڑا مسئلہ اور سب سے بڑی ٹریجڈی اور المیہ یہی ہے کہ لوگ حق اور سچائ کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں اپنی انا ۔ اپنی رائے اپنے نظرئیے کو اور اپنے تحفظ کو مقدم رکھتے ہیں اور سچائ اور حقیقت کو یا تو تسلیم نہیں کرتے یا اس کو ثانوی درجہ دیتے ہیں ۔ یہ مسئلہ زیادہ تر پڑھے لکھے اور خواص امت کا ہے ۔

موجودہ دنیا میں جو سچائی کا اعتراف کرلے اور حق کو حق تسلیم کرلے وہ اس زمانہ کا ولی ہے ۔ کیوں کہ جو سچائی کا اعتراف کرتا ہے وہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ سچائی کو سب سے بڑی چیز اور سب سے قیمتی وصف سمجھتا ہے ۔ایسا شخص آخرت میں یقینا بڑا بنایا جائے گا ۔اس کے برعکس جو سچائی کو نظر انداز کرے گا حقیقت کو منھ چڑھائے گا تو یہ سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنی ذات اور شخصیت کو بڑا سمجھا ۔ ایسا شخص آخرت کی حقیقی اور ابدی دنیا میں بے حیثیت اور بے وقعت کر دیا جائے گا ۔ کاش یہ حقیقت اور سچائ ہمارے ذہنوں میں بیٹھ جائے اور ہمارے اندر مادئہ اعتراف پیدا ہوجائے ۔

Comments are closed.