جنگ کاخطرہ ابھی ٹلانہیں

سمیع اللہ ملک
بھارت میں عام انتخابات شروع ہوچکے ہیں۔مودی نے صورتِ حال کواپنے حق میں کرنے کیلئے اس خطے کے امن کوبھی داؤپرلگادیاتھالیکن منہ کی کھاکر واپس پلٹے ہیں۔پاکستان کے خلاف جاکرووٹ بینک کواپنے حق میں کرنے کیلئے جنگی جنون کوپھیلانے کیلئے بھرپورکوشش کررہے ہیں۔بہترآپشن تو یہ تھاکہ پاکستان سے تعلقات بہتربنانے اورامن کی بات کرکے پورے بھارت میں فضااپنے حق میں کرتے کیونکہ پاکستان اوربھارت دونوں ہی جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔دونوں کے درمیان جنگ کاخطرہ ابھی ٹلانہیں ہے۔ بھارت کواس بحران سے بہت کچھ سیکھناہے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کودیکھناہوگاکہ صورتِ حال کوکس طورقابو میں رکھاجاسکتا ہے۔مودی سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے مخاصمت کومزیدہوادیکروہ انتخابی معرکے میں اپنی مرضی کی فتح پائیں گے مگریہ سب کچھ بھارت کے حق میں نہیں جائے گا۔حقیقی دوراندیش قیادت کوملک وقوم کے مفادات ہرحال میں مقدم رکھنے چاہئے۔
بی جے پی کاپروپیگنڈہ ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کی معاونت ہی نہیں تربیت بھی کررہاہے اوریہ کہ پاکستان کواس کی حدودمیں سزادیناضروری ہے۔دوسال قبل کنٹرول لائن پر ایک ایسی ہی کوشش کی گئی مگرلوگ پوچھتے رہ گئے کہ پاکستانی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعدادکیارہی۔مودی نے انتخابی مہم کے شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان کے خلاف فضا کی تیاری شروع کردی تھی۔بنیادی موقف یہ تھاکہ پاکستان کواس کی حدودمیں گھس کرسبق سکھایاجائے۔اپنے ملک میں جنگی جنون کے خلاف آوازاٹھانے والوں کولتاڑاجارہاہے اوربالا کوٹ حملے کے حوالے سے سوال اٹھانے والوں کوغدارقراردینے سے بھی گریزنہیں کیا گیا۔بی جے پی کاموقف یہ ہے کہ مخالف جوبھی سوال اٹھائے وہ پوری قوم کاغدارہے۔
بھارتی قیادت نے بہت کچھ کرناچاہا تھا۔14فروری کو پلوامہ میں خودکش حملے کے نتیجے میں کم وبیش چالیس فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پورے بھارت میں ہاہاکارمچ گئی اورلازم ہو گیاکہ پاکستان کوکسی نہ کسی طورسزادی جائے۔جوابی کاروائی کے طورپربالا کوٹ میں حملہ کیا گیا۔ پانچ جیٹ طیاروں نے کاروائی کی اوراس کے بعد حکومت نے طرح طرح کے دعوے کیے۔ کاروائی کے فورابعدحکومت اورفوج دونوں نے کریڈٹ بٹورنے کی تیاری شروع کردی مگر یہ تجربہ بری طرح ناکام رہا۔ ہوا یوں کہ اگلے ہی روز پاکستان نے بھارتی علاقے میں گھس کرفضائی کاروائی کی اوردو طیاروں کومار گرانے کے ساتھ ساتھ ونگ کمانڈ ابھینندن کوگرفتاربھی کرلیا۔پاکستان کی جوابی کاروائی نے بھارت میں جنگی جوش وجنون کوسمندرکے جھاگ کی طرح بٹھادیا۔سب سے بڑی تبدیلی یہ رونماہوئی کہ روایتی جنگ میں بھارت کی بالادستی کاتصورخاک میں مل گیا۔اب تک بھارت یہ سمجھ رہاتھاکہ وہ ایک بڑی فوج اوربڑے پیمانے پرسازو سامان کے ساتھ پاکستان کوآسانی سے دبوچ لے گامگراب اندازہ ہوتاہے کہ ایساممکن نہیں۔
یہ حقیقت بھی کھل کرسامنے آگئی ہے کہ اگربھارتی فورسزپاکستان کی حدودمیں کاروائی کریں گی توجوابی کاروائی میں تاخیرنہیں کی جائے گی۔اگرمودی نے ایسی ہی کسی اورعسکری مہم جوئی کاارادہ کیاتوپاکستان کی طرف سے بھرپورجواب ملے گا۔ یہ سلسلہ اگرآگے بڑھاتوخطے میں کشیدگی بڑھے گی۔جوہری ہتھیاروں سے لیس دوپڑوسیوں کے درمیان معاملات مزیدخرابی کی طرف جائیں گے اورحقیقی فل اسکیل جنگ کاخطرہ بڑھ جائے گا۔اس وقت مسئلہ بھارت کی طاقت کانہیں،کمزوری کاہے۔بھارت میں ایک طرف توسیاسی بنیادپر تقسیم پائی جاتی ہے اوردوسری طرف فرقہ وارانہ ہم آہنگی بھی نہیں۔سیاسی مخالفین کوملک دشمن قراردینے کی روش انتہائی خطرناک ہے۔یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں خرابی کا گراف بلند ہونے سے صرف کشمیر ہی کے نہیں بلکہ بھارت بھرکے مسلمان پرشک کی سوئی ٹھہرتی ہے۔مسلمانوں کوشک کی نظرسے دیکھنے کانقصان یہ ہے کہ معاشرے میں تقسیم بڑھتی جارہی ہے۔اس وقت جوصورتِ حال ابھررہی ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ برآمدہوسکتاہے کہ آنے والی حکومت پارلیمنٹ میں بھرپور اکثریت کی حامل نہیں ہوگی۔کمزورمرکزی حکومت فیصلے بھی کمزورہی کرے گی اوران پرعملدرآمد کے حوالے سے درکارعزم بھی نہیں ہوگا۔
مودی کویہ احساس ہوناچاہیے کہ کشمیران کے ہاتھ سے نکل چکاہے۔بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں فوج کواس طورتعینات کیاہے گویا کشمیریوں کو کچلنا اوردبوچنامقصودہو۔اس حوالے سے پالیسی پرنظرثانی کرناہوگی۔اگر کشمیرکامعاملہ درست نہ کیا گیاتوعالمی برادری میں بھارت کومزید سبکی اورشرمندگی کا سامنا کرناپڑے گا۔مودی کومقبوضہ جموں وکشمیرمیں ظلم کے عمل کوترک کرناپڑے گا،ظالم فورسزکے ہاتھوں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی شکایات کا نوٹس لے کر کاروائی کرنی چاہیے اورتمام کشمیری رہنماوں کوبات چیت میں شریک کیاجائے۔مودی کے پاس ایک اچھاموقع ہے،اپنے لیے بھرپورنیک نامی کمانے کا۔عمران خان نے بھارتی قیادت کوبات چیت کی پیشکش کی ہے۔ مودی کواس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بات چیت کوترجیح بناناچاہیے تاکہ خطے میں کشیدگی ختم ہواورامن کے ساتھ ترقی کی راہ ہموارہو۔خطہ مزیدعدم استحکام برداشت نہیں کر سکتا۔پاکستان اور بھارت اگرمل کرمعاملات درست کریں توخطے میں حقیقی ترقی کی راہ ہموارہونے میں دیرنہیں لگے گی۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.