افطار وسحر کے اہتمام میں غریبوں کونہ بھولیں

افطاروسحر میں کے اہتمام میں ،دعوتوں اور روزہ کشایء کے محفلوں اورجشنوں میں اتنا مست و مگن نہ ہوجانا کہ اپنے غریب و نادار بھائی،بہنوں اور بیواؤں کا خیال بھی تمہیں نہ آئے ایسا نہ ہو کہ وہ سب بھوک کی بھٹیوں میں جل رہے ہوں صرف انہیں افطار کے وقت پانی نصیب ہوتا ہو اور تم اتنا کھا لو کہ تراویح میں اٹھنا بیٹھنا دشوار ہوجائے۔
سنوں۔ تم اپنے زبانوں پر تالے لگائے رکھنا ،کسی کی غیبت کرنا اور نہ جھوٹ بولنا ،زبانوں پہ ذکر و تلاوت، تسبیح واستغفار کےزمرے جاری رکھنا افواہوں کی تیرگی سے ماحول گندہ نہ کرنا پروپیگنڈے کا طومار دوسروں کے لئے محض نفس کے سکون کی خاطر کھڑا نہ کرنا گندا ذہن بگڑی ہوئی زبان اور گھٹیا سوچ کے لوگوں کی سرانڈ معاشرے میں عفونت پھیلائے اس سے کوسوں دور رہنا وہ تمہیں بھی لے ڈوبے گا کسی نیک کام میں رخنہ کبھی نہ ڈالنا یہ ایک دوسرے کے درمیان ٹوٹ پھوٹ اور شکر رنجییوں کو بڑھاوا دیتا ہے ورنہ خدا تمہارے غرور و تکبر کے زنجیر کو پاش پاش کر دے گا ایسا نہ ہو کہ یہ تم کو ہی جکڑ دے کیونکہ ابو لہب کی بیوی کے گلے کے رسی موت کی رسی بن گئی تھی ڈر اس خدا سے جس نے جہاں بنایا زبردستی کسی کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا اس کے گلے کی ہڈی مت بننا ۔
سنو ۔یتیموں بیواؤں اور حاجت مندوں کی خبرگیری کرتے رہنا کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا شعار رہا ہے بھوکوں کو کھانا کھلانا، پیاسوں کو پانی پلانا، کسی اجنبی کو راستے کی رہنمائی کرنا اس کا صلہ گرانقدر ہے اور میرے آنے پر اس کے اجروثواب کا کیا کہنا !
سنو ۔میرے آنے سے تمہیں غریبوں اور فاقہ کشوں کی طرح بھوک اور جلن کا بھی احساس ہوگا تاکہ تم ضرورت مندوں کا ہمیشہ خیال رکھو دلوں میں پاکیزگی اور روح میں بالیدگی پیدا کرو قلب میں گداز اور اخلاق میں لطافت ہو محو خیال یار ہو ،جسم پابند فرمان دلبر ہو، جذب و مستی کا یہ عالم ہو کہ زبان حال سے تم پکار اٹھو۔
شب وصل خلوت خاص میں جو حجاب بیچ سے اٹھ گیا
تو ہمیں رہے نہ وہی رہے جو رہی بے خبری رہی
آگے بڑھ اور اپنا دامن خیر و برکت، نورایمان حلاوت، ذکر عبادت و ریاضت اور اطاعت و انقیاد کے موتیوں اور پھولوں سے بھر لے جھوٹ و دغابازی ،بغض و عداوت، غروروتکبر، خود غرضی و بداخلاقی، نفس پرستی غرض دل کے ایک ایک زنگ کو اچھی طرح صاف کرلے اور مجسم نور بن جا ۔
سنو ۔
آج معاشرے میں بے لگام لوگوں کی کثرت ہے پاک صاف خوشگوار فضا کو پراگندہ کر رہے ہیں اس کا لگام کس کے ایک مثالی معاشرہ قائم کرو تمہیں شہرت ونمود کا شوق، مال و دولت کی طلب و لالچ بہتر اور اچھے کام کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہے تو ان سب چیزوں سے ہاتھ جھاڑ لے ۔
سنو ۔
میرا آخری پیغام ہے کیا پتا پھر میں آؤں اور تو رہے نہ رہے یاد رکھنا تیری ہر سانس، تیری ہر دھڑکن ،تیری ہر نگاہ ذات عالی کے درخشاں فرمودات و تعلیمات سے لو پاتی رہے بلا کسی پس وپیش کے ، ریب و تذبذب اور بلا کسی ہچکچاہٹ کے خالق و مالک کے در پر آمدورفت کرتے رہنا اس سے دل کو چین ،دماغ کو سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک ملے گی۔
شارق سلطان چھوراہی ،مدھوبنی ،بہار
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.