میں رمضان ہوں ( 3)

مظفر احسن رحمانی

وہ ننگ دھڑنگ ایک
خوبصورت محل کے پوٹیکو کے نیچے بیٹھا اس امید میں تھا کہ صاحب خانہ افطار کے لئے میرے سامنے بھی کچھ ڈال جائیگا
لیکن کافی انتظار کے بعد ایک شخص تیور بدلے گیٹ سے باہر نکلا
اور بولا
یہ کیا طریقہ ہے آکر بیٹھ گئے ہو
کچھ تو خیال کرو
افطار کا وقت قریب ہے
، صاحب آہی رہے ہونگے
تمہیں دیکھ کر ہم سب پر ناراض ہونگے
وہ شخص محل سے دبے قدموں خاموشی سے نکل گیا
البتہ اتنا بولتا گیا
کہ آج انسانیت نے دم توڑ دیا،
خوبصورت محلوں میں رہنے سے انسان بڑا نہیں ہوجا تا،
انسانیت کی بڑائی تو اس کے اچھے اخلاق پر منحصر ہے،
اچھا پکوان اور انواع واقسام کی چیزوں سے افطار کا دسترخوان بھرا ہونا کمال نہیں ہے
کمال تو جب ہے
کہ ایک کھجور کے دانے ہی صحیح
لیکن ہر ایک کے خیال کے ساتھ آپس میں مل بیٹھ کر کھایا جائے
وہ یہ سوچتا ہوا
اپنی اگلی منزل کی طرف اس حال میں بڑھ رہا تھا
کہ اس کے گلے پیاس سے سوکھ رہے تھے، بھوک کی شدت سے اس کے پیٹ پیٹھ سے لگ رہے تھے،
چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں،
آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا
وہ یہ سوچتا جارہا تھا
میں تو کئی سالوں سے
اسی محل کے پوٹیکو کے نیچے مزے سے افطار کرتا آرہا ہوں
اور صاحب بھی کبھی میری دلجوئی کے لئے میرے ساتھ بیٹھ جایا کرتے تھے،
لیکن اچانک اسے خیال آیا کہ
اوہو
سنا تھا
صاحب
اچانک
عیدکے بعد
اس دنیا سے
رخصت ہوگئے
تو کیا ہوا
کہ اچانک
ایسا نظام
بدل گیا
نہیں،
ہرگز نہیں
ایسا
نہیں ہوسکتا
ایک آدمی کے گذرجانے سے
ایسی اخلاقی گراوٹ آجائے گی
لوگ اپنے لوگوں کو جو سالوں سے آ جارہا تھا
اسے بھلا دینگے
یہ سب کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ
اچانک سامنے سے آواز آئی
کیا سوچ رہے ہو؟
کن خیالات میں گم ہو؟
کیا ہوا؟
یہ مہنہ برکتوں کا مہینہ ہے
یہاں سے سوالی خالی ہاتھ نہیں جاتا
سخاوتیں عام کردی جاتی ہیں،
اور یاد نہیں رہا تمہیں
ہمارے نبی ﷺ کی سخاوت اس ماہ میں اور عام ہوجاتی تھی
آؤ بتاتا ہوں
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا
اس ماہ میں
جو کسی روزے دار کو روزہ افطار کرائے گا اللہ اسے اتنا ہی ثواب عطا فرمائے گا جتنا روزہ رکھنے والے کو ثواب ملتا ہے
چلو ابھی چلتے ہیں وہ دیکھو سامنے کچھ لوگ بیٹھے آذان کے انتظار میں ہیں
اس کے ساتھ مل بیٹھ کر افطار کرلو
اس نے گھبراتے ہوئے کہا
نہیں
میں
بس
اللہ نے جو بے حساب پانی عطا کیا ہے اسی سے روزہ کھول لونگا
یہ ابھی بات کر ہی رہا تھا کہ سامنے سے ایک آدمی تیزی سے آیا اس نے اس غریب کا ہاتھ پکڑا اور کہتے ہو ئے دسترخوان پر بٹھا لیا کہ ہم تو کسی روزے کے انتظار ہی میں تھے
لیکن اس نے اپنے ساتھ آتے ہوئے آدمی سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟
اس نے کہا کہ "میں رمضان ہوں ”
آذان ہوئی سب نے ایک ساتھ روزہ افطار کیا
لیکن اسی درمیان وہ مست قلندر صفت انسان سب لوگوں کی نگاہوں سے یہ کہتے ہوئے غائب ہوگیا کہ
جب انسان کا اخلاق اس درجے گر جائے تو پھر دوبارہ ایسی جگہ آنے سے توبہ کر لینا چاہیے
آج میرا تیسرا روزہ اس پیغام کے ساتھ رخصت ہوا کہ انسان اپنی نسلوں کی اخلاقی تربیت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو
تاکہ نسلیں تباہی سے بچ سکے
اللہ حافظ
مظفر احسن رحمانی
ایڈیٹر بصیرت آن لائن
7991135389

Comments are closed.