چندے کے لیے خلافِ شریعت علاقائی تصدیقات (تیسری قسط)

۔

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمیؔ
(مہدپورضلع اجین،ایم پی)
[email protected]

زکوۃ و امداد کی ادائیگی

لوکل تصدیق جاری کرنے کے شوقین ائمہ اور علما دو تین باتوں سے بہت پریشان رہتے ہیں؛ ایک یہ کہ اگر ہم ’’تصدیق نا مہ‘‘ جاری نہیں کریں گے تو مسلمانوں کی زکوۃ ادا نہیں ہو گی گویا یہ اللہ کی طرف سے پہرے دار ہیں۔ دوسرے یہ کہ اپنے شہر کی زکوۃ وغیرہ کو اپنے سے زیادہ مستحق علاقوں میں جانے سے ممکن حد تک روکا جائے۔ تیسرے یہ کہ اگر کسی اقامتی مدرسے میں بچوں کی تعداد ان کی طرف سے مقررہ تعداد سے کم ہو اور وہ ادارہ خواہ سو فیصد مستحقِ امداد ہو اور وہاں کے طلباء و خدام بھوکے مرجائیں یا مدرسہ بند ہوجائے پھر بھی کم تعداد والے ضرورت مند مدرسے میں اپنے شہر سے امداد کو روکنا؛ گویا یہ ان کا بہت بڑا دینی فریضہ ہے۔ عام مسلمان نیز ارباب حل و عقد سطور ذیل میں غور کریں کہ ان توہمات اور لغویا ت کی کیا حقیقت ہے۔؟

*مستحقین زکوۃ*

کسی فرد یا ادارہ کا تعاون کرتے وقت صدقات غیر واجبہ کی ادائیگی میں کوئی خاص مانع نہیں ہوتا ہے، البتہ زکوۃ یا صدقا ت واجبہ کی ادائیگی میں کافی احتیاط کی ضرورت ہے؛ لیکن احتیاط کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شریعت کے بتائے اور بنائے ہوئے ضابطوں اور قانون و قاعدوں میں اپنی طرف سے مزید قیود وشرائط کو لازم کردیں۔ زکوۃ کے مستحقین کی تفصیل قرآن میں اس طرح آئی ہے:
انما الصدقات للفقراء والمساکین والعاملین علیھا و المؤلفۃِ قلوبھم وفی الرقاب والغارمینَ وفی سبیل اللہ وابنِ السبیل فریضۃ من اللہ، واللہ علیم حکیم{التو بۃ: ٦٠﴾
’’صدقات تو در اصل حق ہے فقیروں کا، مسکینوں کا اور اُن اہل کاروں کا جو صدقات کی وصولی پر مقرر ہوتے ہیں اور اُن کا جن کی دِلداری مقصود ہے۔ نیز اُنہیں غلاموں کو آزاد کرنے، اور قرض داروں کے قرضے ادا کرنے میں، اور اللہ کے راستے میں، اور مسافروں کی مدد میں خرچ کیا جائے۔ یہ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کابھی مالک ہے۔{سورۃ التوبة: 60}

*دوسرے شہروں میں زکوۃ و صدقات منتقل کرنا*

خذھا من اغنیائھم ورُدَّھا فی فقرائھم
(بخا ری باب اخذ الصدقۃ من الاغنیاء برقم۔۱۴۹۶؍ و مسلم با ب الدعا الی الشھادتین برقم ۱۹؍ ابو داوود برقم ۱۵۸۴؍بتغیر الفاظ یسیر)
’’زکوۃ ان کے مال داروں سے لے کر ان کے غریبوں میں لوٹا دو۔‘‘ (بخاری، مسلم و ابوداؤد)
اس حدیث کو نقل کرکے اس کی پوری تشریح کے بعد، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نوراللہ مرقدہ، قرطبی کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:
’’اگر کسی دوسری بستی کے لوگوں کا فقر و فاقہ اور اپنے شہر سے زیادہ ضروریات معلوم ہو تو وہاں مال بھیجا جاسکتا ہے؛ کیوں کہ مقصد صدقات دینے کا، فقرا کی حاجت کو رفع کرنا ہے۔ اسی وجہ سے حضرت معاذؓ یمن کے صدقات میں اکثر کپڑے لیا کرتے تھے تاکہ فقرا مہاجرین کے لیے مدینہ طیبہ بھیج دیں۔ قرطبی بحوا لہ دار قطنی
(معارف القرآن: ص۴۱۱؍ جلد ۴؍)

ایک مرتبہ مکہ و مدینہ میں قحط پڑگیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عراق اور شام سے غلہ منگوایا۔ (طبقات ابن سعد اردو مترجم: جلد ۳؍ ص۸۲؍ نفیس اکیڈمی کراچی)

(۸؍ رمضان ١٤٤٠ھ / 14 مئی 2019ء)

Comments are closed.