چندے کے لیے خلافِ شریعت علاقائی تصدیقات(چوتھی قسط)

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی گونڈوی
(مہدپور ضلع اجین، ایم پی)
[email protected]
دینی تعلیم کے لیے دوسرے شہر میں زکوة منتقل کرنا مکروہ بھی نہیں
دینی تعلیم کے لیے دوسرے شہر میں زکوۃ منتقل کرنا مکروہ بھی نہیں۔
"الردالمحتار شرح تنویر الابصار” میں اس مسئلے کو اس طر ح بیان کیا گیا ہے:
(و) کرہ (نقلھا الا الی قرابة)۔۔ (او احوج) او اصلح او اورع او انفع للمسلمین (او من دار الحرب الی دارالاسلام او الی طالب علم) وفی المعراج: التصدق علی العالم الفقیر افضل۔ (الرد المحتار مع الدرالمختار: ص۳۰۴؍ ج ۳، زکریا)
’’اور زکوۃ کو ایک شہر سے دوسرے شہر میں منتقل کرنا مکروہ ہے؛ البتہ یہ کراہت ایسی صورت میں نہیں رہے گی جب دوسرے شہر میں موجود اپنے رشتہ دار ۔۔۔۔۔۔ یا اپنے شہر سے کوئی دوسرے شہر میں زیادہ ضرورت مند ہو، یا اپنے شہر سے زیادہ مناسب یا پرہیز گار ہو یا دوسرے شہر میں ضرورتمندوں کو دینے سے مسلمانوں کو زیادہ فائدہ پہونچتا ہو۔ اور دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف منتقل کرنا، ~اسی طرح دین کے طالب علموں کے لیے بھی ایک شہر سے دوسرے شہر میں زکوۃ کو منتقل کرنا مکروہ نہیں۔ اور ’معراج‘ میں ہے کہ: ضرورت مند عالم دین (خواہ وہ کسی بھی شہر میں رہتا ہو۔ اشرف) پر خیرات کرنا زیادہ افضل ہے ۔‘‘~ (الردالمختار مع الدر)
خط کشیدہ عبارتوں کو بار بار پڑھیں اور دوسرے علاقوں میں ضرورت مند مدارس کے لیے امداد کی برآمدگی کو روکنے کی تدبیریں کرنے والوں کی نادانی پر ماتم کریں۔ ہندوستان میں ایک شہر سے دوسرے شہر میں زکوۃ و صدقات عام طور پر دینی تعلیم حا صل کرنے والوں ہی کے لیے منتقل ہوتے ہیں۔ تنویرالابصار نیز ردالمحتار کی عبارتیں اعلان کر رہی ہیں کہ: طلباے علوم دینیہ کے لیے ان اموال کو ایک شہر سے دوسرے شہر میں منتقل کرنا مکروہ نہیں ہیں۔ جو علما علاقائی تعصب کی بنیاد پر اس عنوان کے تحت بڑی بڑی مِٹِنگیں کرتے ہیں کہ: اپنے شہر میں خواہ ضرورت نہ ہو تب بھی اپنے شہر کی زکوۃ کو اپنے شہر سے زیادہ ضرورت مند علاقوں میں جانے سے کس طرح روکا جا ئے؟‘‘ اور اپنے موقف کی تائید میں عام مسلمانوں کو مغالطے میں ڈالتے ہوئے "کرہ نقلھا” کو (اس کے پس منظر سے صرفِ نظر کرتے ہوئے) بطور دلیل پیش کیا کرتے ہیں، ان علما کو برما کے حالات کے اپنے سامنے رکھنے چاہیے؛1960ء تک برمی مسلمان ہندوستان، پا کستان، بنگلہ دیش کے مدرسوں کا بھرپور مالی تعاون کرتے رہے ہیں، اس کے بعد راتوں رات ان کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی، سر پر گھر کی چھت بھی باقی نہیں بچی اور اب نیلے سائبان اور فرش خاکی کے درمیان انہیں رہنے اور سر چھپانے کے لیے کوئی جگہ میسر نہیں ہورہی ہے۔ اللہ تعالی ان کو پھر اُن کے ماضی کی طرف لوٹا دے، ظالموں کے ظلم و ستم سے انہیں نجات عطا فرمائے۔ آمین!
دوسرے شہر میں زکوۃ منتقل کرنا؛ صرف مکروہ تنزیہی
’’کرہ نقلھا‘‘ میں جس کراہت کا بیان ہے، وہ ایسی صورت میں ہے جب کہ مذکورہ بالا افراد کے علاوہ کسی دوسری غرض سے دوسرے شہر میں زکوۃ دی جائے؛ ورنہ مکروہ بھی نہیں ہے۔ اور مذکورہ بالا افراد کے علاوہ دوسرے شہر کے مستحق باشندوں کو زکوۃ دینے کی جو کراہت ہے وہ کس نوعیت کی ہے؟ ردالمحتار میں اس کی تشریح یوں کی گئی ہے کہ:
"قوله (کرہ نقلها) ۔۔۔۔۔ ای الکراھۃ تنزیھیۃ: تأمل، فلو نقلھا جاز لان المصرف مطلق الفقراء. درر. ویعتبر فی الزکاۃ مکان المال فی الروایات کلھا (الردالمحتار مع الدر: ص۳۰۴؍ ج ۳۔ زکریا)
’’صاحب تنویر اور الدر المختار کا کہنا ہے کہ: زکاة کو (ایک شہر سے دوسرے شہر) منتقل کرنا مکروہ ہے، اس کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس حکم میں پڑوسی کے حق کی رعایت کی گئی ہے، تو دوسرے شہر کے بجائے اپنے شہر میں رہنے والے پڑوسی کو دینا زیادہ بہتر ہوا، (زیلعی)۔ اور اگر دوسرے شہر میں بھیج ہی دے تو کراہت سے مراد ’مکروہ تنزیھی‘ ہے۔ اس کو خوب سمجھ لو! اس لیے اگر کسی دوسرے شہر میں زکوۃ منتقل کردی تو بھی زکوۃ ادا ہو جائے گی؛ کیوں کہ زکوۃ کا مصرف مطلق طور پر فقیر ہے، خواہ وہ کسی شہر میں ہو۔ اور مال کے انتقال کی یہ کراہت آدمی کی رہائش اور توطن کے بجائے تمام کی تمام روایات کے مطابق مال کی جگہ کے لحاظ سے ہے۔‘‘ (الردالمحتار مع الدر ص۳۰۴؍ ج ۳۔ زکریا)
مکان المال کی صورت یہ ہے کہ: مثلا ’’لندن‘‘ میں کوئی کاروبار کرتا ہے، اور اس کا وطن نیپال ہے۔ تو چوں کہ اس کا سرمایہ لندن میں ہے؛ اس لیے وہاں سے اپنے وطن نیپال میں مذکورہ بالا افراد (علماء، مدارس، ملی امور) کے علاوہ دوسرے حاجتمندوں پر خرچ کرنے کی بجائے لندن میں ہی محتاجوں اور مستحقین پر خرچ کرے، ورنہ مکروہ تنزیہی ہوگا۔ عجیب بات ہے کہ اس ناحیہ پر بھی متعصبین کی زبان بدل جاتی ہے، ایک طرف اپنی ریاست سے غریب ریاستوں میں دینی تعلیم میں مصروف علماء و طلبا کے لیے صدقات کو جانے سے روکنے کے لیے مشاورتی مجلسیں کرتے ہیں، دوسری طرف خود اپنی ریاست میں غیر ممالک سے امداد کی درآمدگی کے لیے پُر زور اپیل جاری فرماتے ہیں۔
حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی نوراللہ مرقدہ نے سورہ توبہ میں مسجد ضرار سے متعلق آیا ت کی تفسیر کے لیے، حسبِ معمول ’’معا رف ومسائل‘‘ کی شہہ سرخی لگائی اور اس کے تحت پا نچ ذیلی عنوانات قائم فرمائے ہیں، جن میں دو عنوانات، ملت اسلامیہ کے بگڑے ہوئے دل و دماغ کی اصلاح کے لیے بہت ہی مؤثر ہیں، چنانچہ مفتی صاحبؒ تحریر فرماتے ہیں:
(۱) ’’وطنی یا نسبی قومیت کی بنیاد پر تعاون و تناصر کفر و جاہلیت کا نعرہ ہے۔‘‘ (معارف القرآن: جلد ۸؍ ص۴۴۹؍)
(۲) ’’اسلامی سیاست کا سنگ بنیاد، خالص اسلامی برادری قائم کرنا ہے۔ جس میں رنگ و نسل اور زبان، اور ملکی وغیر ملکی کے سب امتیازات بالکل ختم کردیے جائیں۔‘‘ (معارف القرآن: جلد ۸؍ ص۴۵۴؍)
۹؍رمضان ١٤٤٠ھ/ 15 مئی 2019ء
–
Comments are closed.