چندے کے لیے خلافِ شریعت علاقائی تصدیقات (پانچویں قسط)

 

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی
(مہدپورضلع اجین،ایم پی)
[email protected]

ادائیگیِ زکوۃ کے لیے، صرف ظاہر دیکھنا ضروری ہے

اما الذی ھو علی الجواز حتی یظھر خطأہ: (۱)فھو ان یدفع زکوۃ ماله الی رجلٍ و لم یخطر بباله وقت الدفع ولم یشک فی امرہ فدفع الیه، فھذا علی الجواز، (۲)الا اذا ظھر بعد الدفع انه لیس محل الصدقة، فحینئذ لا یجوز لان الظاھر انه صرف الصدقة الی محلھا حیث نوی الزکوۃ عند الدفع، والظاھر لایبطل الا بالیقین، فاذا ظھر بیقین انه لیس بمحل الصدقة ظھر انه لم یجز، وتجب علیه الا عادۃ، ولیس له ان یسترد ما دفع الیه، و یقع تطوعاً (۳) حتی انه لو خطر بباله بعد ذالک و شک فیه ولم یظھر له شیئٌ لا تلزمه الا عادۃ لان الظاھر لایبطل بالشک۔۔۔۔۔۔۔۔(۴) (عندالاداء، اشرف) وان خطر بباله و شک فی امرہ و تحری و وقع تحریه علی انه محل الصدقة فدفع الیه جاز بالاجماع، (۵) وکذا ان لم یتحری ولکن سأل عن حاله فدفع (۶) او رآہ فی صف الفقراء (۷) او علی زی الفقراء فدفع فان ظھر انه کان محلا جاز بالاجماع و کذا ن لم یظھر حاله عندہ۔ (۸) واما اذا ظھر انه لم یکن محلا بان ظھر انه غنی او ھاشمی او کافر او والد او مولود او زوجته یجوز، و تسقط عند ابی حنیفة و محمد، ولا یلزمه الا عادۃ، وعند ابی یو سف: لا یجوز، و تلزمه الا عادۃ و به اخذ الشافعی۱؎۔۔۔۔ عن ابی حنیفۃ فی الوالد والولد والزوجۃ لا یجوز کما قال ابو یوسف۔
(بدائع الصنائع: ص۱۶۳؍ جلد۲؍ زکریا،۔۔۔ الردالمحتار مع الدر: ص۳۰۳؍ جلد ۳؍ زکریا)

’’اور ایسی صورت کہ جس میں معطی پر غیر مستحق کو زکوۃ دینے کی غلطی ظاہر ہو جائے اس کی تفصیل یہ ہے کہ مثلاً:
(۱) اس نے کسی آدمی کو اپنی زکوۃ کا مال دیا اور اس وقت اس کے دل میں غلط جگہ مال دینے کا خیال نہیں آیا اور اس کو غلطی کا کچھ شک بھی نہیں ہوا اور اس نے اس کو زکوۃ دی، تو اس صورت میں بھی (جب تک کہ غیر مصرف ہونا ظاہر نہ ہو جائے، اگرچہ اس نے غیر مصرف میں زکوۃ دی تب بھی) اس کی زکوۃ ادا ہوگئی۔
(۲) ہاں بعد میں ظاہر ہوگیا کہ وہ زکوۃ کا مصرف نہیں تھا تو ایسی صورت میں زکوۃ ادا نہیں ہو ئی، کیوں کہ ظاہر سے معلوم ہو گیا کہ اس نے زکوۃ کی نیت کرکے غیر مصرف میں دیا ہے، اور ظا ہری معاملے کا حکم؛ ظاہر کے خلاف یقین ملنے کے بعد ہی باطل ہوتا ہے، اور جب یقین سے معلوم ہوگیا کہ یہ مصرف نہیں ہے، تو معلوم ہوگیا کہ زکوۃکی ادا ئیگی نہیں ہوئی، اب اس پر زکوۃ کا اعادہ ضروری ہے، لیکن اعادہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو مال اس غیر مصرف کو دیا ہے اُسے واپس لیا جائے، اِس کا اختیار نہیں ہے۔ (بلکہ اسے لینے والا غیر مستحق شخص، عنداللہ گنہ گار ہوگا۔اشرف) اور اسے دیا ہوا مال معطی کی طرف سے نفلی صدقہ ہوجائے گا۔ (۳) یہاں تک کہ اگر اس کو دینے کے بعد شک ہوا اور شک کی تائید میں کوئی یقینی بات نہیں ظاہر ہوئی تو اعادہ بھی ضروری نہیں ہے، (بلکہ زکوۃ ادا ہو گئی) کیوں کہ ظاہر، شک سے باطل نہیں ہوتا ہے۔ (۴)(اور ادائیگی کے وقت) اگر اس کے دل میں شبہ ہوا اور اس معاملے میں اس کو شک ہوا پھر اس نے تحری (غور وفکر) کیا اور اس کی تحری اس پر واقع ہوئی کہ یہ مستحقِ زکوۃ ہے (پھر اس نے غیر مستحق زکوۃ کو مستحق سمجھ کر زکوۃ دے دی) تو اس کی تحری کی وجہ سے اس کی زکوۃ ادا ہوگئی۔(۵) اور اسی طرح اگر اس نے تحری نہیں کی؛ لیکن اس کے حال کے بارے میں پوچھا اور (اس نے اپنے مستحق ہونے کو بتلایا یا ظاہر کیا تو) اس کو زکوۃ دے دی۔ (۶) یا اس کو فقیروں کی صف میں دیکھا۔ (۷) یا اس کو فقیروں کے لباس میں دیکھا،اور اسی بنیاد پر اس کو زکوۃ دے دی تو بالاجماع زکوۃ ادا ہوگئی، اس کا ظاہر ایسا ہو کہ وہ مستحق زکوۃ معلوم ہوتا ہو یا مذکورہ علامات (۴،۵،۶،۷،) کے علاوہ اور کوئی غیر مستحقِ زکوۃ ہونے کی ظاہری علامت نہ ہو۔ اس صورت میں اس کو زکوۃ دی تو بھی زکوۃ ادا ہو گئی۔(۸) اور (اگر تحری کے بعد زکوۃ کی ادائیگی کی پھر) ظاہر ہوا کہ وہ مصرف نہیں تھا، اس طور پر کہ وہ مالدار ہے یا ہاشمی ہے یا کافر یا باپ ہے یا بیٹا ہے یا اس کی بیوی کا بچہ ہے تو (بھی) زکوۃ ادا ہوگئی، اور امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہما کے نزدیک اس پر سے زکوۃ سا قط ہوجائے گی، اس کو دوبارہ زکوۃ ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔ اور (چوں کہ یقینی طور پر غیر مصرف ہونا معلوم ہوگیا اس لیے) امام ابو سفؒ کے نزدیک زکوۃ ادا نہیں ہوئی اور ان کے نزدیک اعادہ ضروری ہے۔ اسی (عدم ادائیگی اور لزوم اعادہ) کو امام شافعیؒ نے بھی اختیار کیا ہے۔ اور باپ، بیٹا، بیوی کے بارے میں زکوۃ نہ ادا ہو نے کے بارے میں ایک دوسری روایت امام ابو حنیفہؒ سے منقول ہے، جیسا کہ امام ابو یوسفؒ نے کہا ہے۔‘‘ (بدائع و ردالمحتار)

اس طویل عبارت کون قل کر کے ترجمہ میں نمبرات قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو زکوۃ کی ادائیگی کے لیے صحیح مصرف اور تعیینِ مصرف کی خاطر تحری کافی ہے، یا پھر ۵؍ یا ۶؍ یا ۷؍ میں کوئی علامت، زکوۃ وصول کرنے والے میں پائی جائے تو یہ صحیح مصرف میں زکوۃ کے پہونچنے کی شہادات ہوں گی۔
مستحقین تک کے پہونچنے کی تحرِی کے لیے ۵؍۶؍۷؍ نمبر کے علامات کے لیے سفرا کے پاس ’’معیا ری اداروں کی طرف سے جاری کی گئی تصدیقا ت‘‘ کا موجود ہونا کافی ہے ۔
بعض علاقائی ائمہ اور علما اپنی تشہیر وخود نمائی کے لیے تصدیق جاری کرتے ہیں اور تصدیق نامہ دینے کے لیے سفرائے مدارس کے تعلق سے شکوک و شبہات لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھاتے ہیں، جب کہ ان کی طرف سے یہ ہو نا چاہیے کہ وہ سفرا کے پاس موجود ’’معیاری اداروں کی طرف سے جاری کی گئی تصدیقا ت‘‘ کا معائنہ کر کے درستگی کی صورت میں انہیں چندہ کرنے میں تعاون کرتے؛ کیوں کہ معیاری اداروں کی تصدیقات ہونے کی صورت میں ’’تحری‘‘ اور علامات۵؍۶؍۷؍ پائی گئیں، جو ادائیگئ زکوۃ کے لیے کافی وجوہ ہیں۔

(۱۰؍ رمضان ١٤٤٠ھ/ 16 مئی 2019ء)

Comments are closed.