چندے کے لیے خلافِ شریعت علاقائی تصدیقات (چھٹی قسط)

 

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی
(مہدپورضلع اجین، ایم پی)

اقامتی مدرسوں میں بچوں کی تعداد

لوکل تصدیقات جاری کرنے والے بعض لوگ مدارس میں بچوں کی ایک مخصوص تعداد ضروری قرار دیتے ہیں۔ جب کہ اصحابِ صفہ سے لے کر آ ج تک مدرسوں میں بچوں کی تعداد کی کوئی خا ص مقدار مقرر نہیں رہی ہے، پھر بھی اداروں نے دین و اسلام کی عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ چار سو (400) بچوں والے اداروں سے زیادہ افراد جڑے ہوتے ہیں؛ اس لیے ان کو تعاون حا صل کرنے میں زیادہ دشواری نہیں پیش آتی ہے، جب کہ صرف چار بچوں والے اداروں سے کم لوگ جڑے ہوتے ہیں؛ اس لیے وہ تعاون کے زیادہ حق دار ہو تے ہیں کہ کہیں وہ ادارے بند نہ ہو جائیں، اور چوں کہ صرف چار بچے ہیں؛ اس لیے ان اداروں کے بند ہونے کا مسلمانوں کو علم بھی نہیں ہوسکتا، کہ بروقت مسلمان سہارا دے کر انہیں زندگی دے سکیں، یہ ادارے عام طور پر جانکنی کے عالم میں ہوتے ہیں، اور ان کے دکھ درد کی خبر عام مسلمانوں کو نہیں ہوپاتی ہے۔ تعدادِ طلبا کے بارے میں چند مدرسوں کے نام ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں؛
٭ دارالعلوم دیوبند کے بارے میں علم رکھنے والا ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ ایک استاد اور ایک شاگرد سے شروع ہوا۔

٭ حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب (مہتمم دارالعلوم دیوبند) کو جامعہ اسلامیہ بنارس میں شیخ الحدیث بنانے والے عالم، قاضی اطہر مبارک پوری کے دوست، تیس سے بھی زائد معیاری کتابوں کے مصنف مولانا اسیر ادروی ملک کے مؤقر اور مشہو ر ادارے ’’جا معہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد‘‘ کے دارالاقامہ میں مقیم طلبا کی تعداد کے بارے میں لکھتے ہیں:
٭ ’’مدرسہ شاہی کا دارالطلبہ محلہ اصالت پورہ میں تھا یہ ایک کرایہ کا مکان تھا، اس میں چند طلبا رہتے تھے، ایک وسیع آنگن تھا، پندرہ بیس طلبہ رہتے تھے۔‘‘
(داستانِ ناتمام: ص۷۱؍ حصہ اول)

٭ جنو بی ہند کی مشہور درسگاہ ’’دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد‘‘ جہاں فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دا مت برکاتہم نے ۲۲؍ سال تدریسی فرائض انجام دیے۔ وہاں ابتدائی دور میں طلبا کی تعداد کے بارے میں بتاتے ہیں:
’’جب یہاں آیا تھا تو عربی جماعت میں طلبہ کی کل تعداد سولہ (16) تھی۔‘‘
(حرف چند: تحریر مولانا اشرف علی قاسمی، قاموس الفقہ: ص۲۰۹؍ جلد اول)

٭ مولانا اسیر ادروی اپنے ایک ابتدائی اقامتی مدرسے کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’دارالعلوم شاہی کٹرہ مئو (یو پی) شروع میں ایک مسجد میں تھا بعد میں مسجد کی مشرقی جانب تین کمروں پر مشتمل مکان خریدا گیا، ایک کمرہ مطبخ کے لیے اور ایک کمرہ طلبا کی رہائش کے لیے اس میں صرف چھے طلبا تھے‘‘۔
(داستانِ ناتمام: ص۲۹؍ حصہ اول)

٭ مولانا اسیر ادروی صاحب اپنی طالب علمی کے ایک دوسرے مدرسے "مدرسہ حنفیہ جونپور” کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’مدرسہ حنفیہ (جونپور) میں چالیس پچاس کے قریب طلبہ پڑھتے تھے، جس میں سب بنگالی تھے اور داڑھی والے تھے، ان میں صرف ایک طالب علم بلیا ضلع کا عبد الصمد تھا جس کی ایک آنکھ مصنوعی تھی، چھپرا ضلع کے دو فقیر نما لڑکے تھے۔‘‘(داستانِ ناتمام: ص۳۴؍ حصہ اول)

٭ مناظر اسلام حضرت مولانا طاہر حسین گیاوی اور حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب فتحپوری مفتی اعظم مہاراشٹر، کے رفیق، ۵۳؍ کتابوں کے مصنف، حضرت مو لانا اعجاز احمد اعظمیؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’مدرسہ دارالعلوم حسینیہ محلہ امروہہ، اس میں دورۂ حدیث میں صرف دو طالب علم ہیں، ایک قدیم ساتھی حافظ الطاف حسین کو بھی یہیں بلالیا۔۔۔ ہم چار آدمیوں پر مطبخ قا ئم ہوا پھر شرکا بڑھ گئے۔‘‘ (حکا یتِ ہستی: ص ۲۵۴؍)

٭ مدرسہ دینیہ غازی پور میں جب (۱۳۹۳ھ میں) مدرِّس کی حیثیت سے مامور ہوئے تو وہاں طلبا کی تعداد کے بارے میں موصوف لکھتے ہیں:
’’عربی درجا ت کا حال یہ تھا، کہ عربی چہارم میں دو طالب علم تھے، عربی سوم میں ایک طالب علم، عربی دوم میں کوئی نہ تھا، عربی اول میں دو تین تھے، فارسی میں یاد نہیں کوئی تھا یا نہیں؟ چند طلبا حفظ میں تھے، دارالا قامہ میں زیادہ سے زیادہ دس و پندرہ تھے۔‘‘
(حکایتِ ہستی: ص ۳۶۰؍۳۸۸؍)

ان تفصیلا ت کا مقصد یہ ہے کہ تصدیقات کے سلسلے میں مساجد کمیٹیاں ائمہ کو خواہ مخواہ کے کام کی ذمہ داری نہ دیں اور نہ ہی تصدیق (یعنی جھوٹی گواہی) جیسے لغو کاموں پر اُن کی تشجیع کریں۔ کاغذوں میں طلبا کی تعداد دیکھ کر، تصدیقات جاری کرنے والوں کی نا سمجھی بہت نقصان دہ ہے۔
گذشتہ سال تک ایک بڑے شہر میں سفرا کو تصدیق اس شرط پر دی جاتی تھی کہ ان کے مدرسے میں کم از کم پینتیس بچوں کا ہونا ضروری ہے۔ جو لوگ اپنے کاغذوں میں بچوں کی تعداد مذکورہ دِکھادیتے، انہیں چندہ کرنے کی تصدیق جاری کردی جاتی، دوسرے سال تصدیق کنندگان نے شرط لگائی کہ اب جس مدرسے میں اسّی (80) بچے ہوں گے، اس مدرسہ کے سفیر کو چندہ کرنے کے لیے تصدیق دی جائے گی ۔ ایک دوسرے مقام پر ایک بزرگ نے اسّی (80) سے بڑھا کر دو سو (200) کی تعداد لازم کردی۔ بد معاملہ سفیروں نے اپنے مدرسے کی ترقی اور بچوں میں اضا فے کی کاغذی کہانی بنائی اور انہیں تصدیق فراہم کردی گئی۔
اب یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ: قافلہ صلوات کی طرح یہ تصدیقات اپنے سے متضاد یعنی ’’شہادات زور‘‘ کے معنی میں ہیں۔ اور اس میں سفرا سے زیادہ بد عنوان، تصدیقات جاری کرنے کے شوقین افراد ہیں؛ کامیاب مدرسے عام طور پر دیہی علاقوں میں قائم ہوتے ہیں، جہاں مقامی لوگوں سے ضروریاتِ مدرسہ کی تکمیل کے لیے مالیات کی فراہمی بہت دشوار ہوتی ہے؛ اس لیے یہ شرط عقلی اور شرعی طور پر بہت ہی غلط اور فساد کا باعث ہے۔

(۱۱؍ رمضان ١٤٤٠ھ/ 17 مئی 2019ء)

Comments are closed.