چندے کے لیے خلافِ شریعت علاقائی تصدیقات (آٹھویں اور آخری قسط)

۔
بقلم: مفتی محمداشرف قاسمی
(مہدپور ضلع اجین، ایم پی)
[email protected]
خدامِ دین، سفرا کو پریشان نہ کیا جاے۔
مختلف، معتمد اور اکابر علماء کرام مدرسوں میں حاضر ہوتے ہیں اور بذات خود مدرسوں کا معائنہ کرنے کے بعد ان کی ضروریات کو محسوس کرکے عام مسلمانوں سے ان کے تعاون کے لیے تحریری شکل میں تصدیق نامے دیتے ہیں۔ انہیں حقیقی، اصلی اور شرعی تصدیق ناموں کو لے کر مسجدوں اور مسلمانوں کے دروازوں پر سفرا حاضر ہوتے ہیں اور مسلمان انہیں تصدیق ناموں کی بنیاد پر سفرا کا تعاون کرتے ہیں۔
چند سالوں سے ہر ہر شہر میں سفیروں کو علاقائی تصدیق نامے دینے اور لینے کا زور بڑھتا جارہا ہے۔ ہر ہر شہر میں الگ الگ تصدیق نامے انہیں تصدیق ناموں کی بنیاد پر جاری کیے جاتے ہیں؛ جب سفرا کے پاس پہلے سے موجود اصلی تصدیق نامے آپ کے نزدیک قابل قبول ہوتے ہیں تو وہی اصلی تصدیق نامے عام مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول بنا کر اپنے لیٹر پیڈ اور اپنے نام کی تشہیر کے لیے نقلی جعلی اور غیر شرعی علاقائی تصدیق ناموں کے ماننے اور منوانے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے؟
پہلی بات یہ ہے کہ آپ نے ادارہ کو نہیں دیکھا ہے اور آپ کے پاس اداروں کا کوئی عینی شاہد نہیں ہے، جس کی شہادت کی بنیاد پر تصدیق نامہ جاری کیا جائے۔ اس کے باوجود تصدیق نامہ جاری فرماتے ہیں۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ علاقائی تصدیق نامے شرعی لحاظ سے تصدیق نامے ہیں ہی نہیں؛ بلکہ اصلی اور حقیقی تصدیق ناموں کے بجاے اپنے نقلی تصدیق ناموں پر اعتماد کرنے کی الٹی سوچ پیدا کی جارہی ہے، جو کہ غلط ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس طرح تصدیقی کھیل سے صرف صحیح کام کرنے والے متاثر ہوتے ہیں، اس انتظام سے غلط لوگوں کو نہیں روکا جاسکتا ہے۔
اس طرح نامناسب اور بے ضرورت تصدیق نامہ جاری کرنے والوں کی اخلاقی فروتنی بھی بہت افسوس ناک حد تک اپنی انتہا کو پہنچی ہوتی ہے۔
یاد رکھیں! ضرورت مند مدارس کے معتمد سفرا کو علاقائی تصدیق نامہ لینے دینے کی الجھن و پریشانی میں ڈالنا دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے نا معقول ہے۔
دینی لحاظ سے تو ظاہر ہے کہ جس ادارہ کو آنکھ سے نہیں دیکھا اس کے بارے میں مستحق ہونے کی تصدیق جاری کی جاتی ہے۔
دنیاوی لحاظ سے یہ کہ ایسی لغو تصدیق جاری کرنے والوں کی بد اخلاقی پورے میں ملک میں سفیروں کی زبانوں پر ہوتی ہے۔ گرچہ آفس میں بیٹھ کتنا بڑا حضرت جی بن لیں۔
اور کچھ بعید نہیں ہے کہ تصدیق نامہ دینے لینے کی الجھن میں روزہ دار، مسافر، عالم، حافظ، مظلوم ،سفرا کی آہیں، بد دعائیں مقبول ہوکر تصدیق نامہ کا تماشہ کرنے والوں کی اولادوں کو بھکاری بنادیں۔ اللھم احفظنا۔
میری اس تحریر پر ملک کے مختلف صوبوں سے مبارکبادیاں موصول ہو رہی ہیں۔ میں مبارک باد دینے والوں سے علاقائی تصدیق نہ لینے کی بات کہتاہوں تو جواب ملتا ہے کہ مدرسے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جہاں اغنیا و معاونین کی بداخلاقیاں برداشت کر لیتے ہیں، وہیں ان تصدیق کنندگان کی طرف سے کھڑی کی گئی پریشانیاں بھی برداشت کرنا ہماری مجبوری بنتی جارہی ہے۔
یہ تماشہ کب تک چلتا رہے گا؟
*معذرت*
بندۂ ناچیز نہ کسی مدرسے کا ذمہ دار ہے نہ سفیر؛ لیکن رسمی طور پر ایک مولوی ہونے کے ناتے اپنی دینی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ دینی خدمت گاروں کی پریشانیاں ختم یا کم کرنے کی کوشش کرے۔
اس سلسلے میں یہ تحریر مرتب کی گئی ہے۔ از اول تا آخر بندہ کی کوشش رہی ہے کہ سخت کلامی سے سر خامہ محفوظ رہے؛ لیکن پھر بھی کہیں کسی جملہ یا لفظ سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو تو درگزر فرما کر دامنِ عفو میں جگہ عنایت فرمائیں!
تحریر کا مقصد کسی کی کردار کشی اور دل آزاری نہیں ہے؛ بلکہ بے ضرورت کام سے خدامِ دین کو جو پریشانیاں پیش آرہی ہیں ان پر غور وفکر کے لیے ارباب حل و عقد مسلمانوں کو متوجہ کرنا ہے۔
فقط والسلام
*محمد اشرف قاسمی*
خادم الافتاء شہر مہدپور
(اجین، ایم پی)
Comments are closed.