چندے کے لیے خلافِ شریعت علاقائی تصدیقات (ساتویں قسط)

۔
چندے کے لیے خلافِ شریعت علاقائی تصدیقات
(ساتویں قسط)
بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی
(مہدپور ضلع اجین، ایم۔پی)
[email protected]
سفراء و محصلین کی مشکلات
بے شمار حکمتوں اور مصلحتوں کے پیش نظر، مدارس کی مالیات کا انحصار چندے پر ہے۔ ان مدارس کو مسلمانوں میں سے 5؍ یا 6؍ فیصد لوگ زکوۃ و عطیات صحیح طور پر ادا کرتے ہیں اور انہیں عطیات سے مدرسین وملازمین کی تنخواہیں، تعمیرات، اور مطبخ میں مقیم طلبا کے طعام اور علاج و معالجہ کو پورا کیا جاتا ہے، مدرسوں کا تعاون کرنے والے یہ 5؍ یا 6؍ فیصد مسلمان غیروں کی طرف سے کیے جانے والے غلط پروپیگنڈے سے بدظن ہوتے جارہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ مدارس سے فارغ ہو نے والے، مسجدوں میں خدمات پر مامور، ائمہ حضرات کی طرف سے ایسی کوتاہیاں ہورہی ہیں جن سے امت میں مدارس کے تعلق سے بدظنی بڑھتی جارہی ہے، جو کہ بہت ہی مضر اور خطرناک نتائج کا پیش خیمہ ہے۔
*چھوٹے حضرت، بڑے حضرت*
ہندوستان کے ایک مرکزی اور عظیم ادارے سے دونوں (چھوٹے حضرت اور بڑے حضرت) فارغ التحصیل ہیں؛ لفظ ’’چھوٹے‘‘ صرف ’’بڑے حضرت‘‘ کے مقابلے میں ہے، ورنہ یہ ’’چھوٹے حضرت‘‘ وہاں کسی سے بھی چھو ٹے نہیں ہیں۔ مذکورہ مرکزی ادارے کے سفیر، کشائشِ زر و فراہمئ مال کے لیے ان دونوں حضرتوں سے مل کر اپنے تصدیق نامے کے لیے بات کرنا چاہتے ہیں؛ ’’چھوٹے حضرت‘‘ فرماتے ہیں کہ: ’’بڑے حضرت سے ملاقات کریں!‘‘، دوسری نماز میں ’’بڑے حضرت‘‘ سے ملاقات ہوئی تو وہاں سے جواب ملا کہ: ’’چھوٹے حضرت سے بات کریں۔‘‘ ان دونوں’’حضرتوں‘‘ کی بد اخلاقی سے پریشان ہو کر ایک نماز میں امام سے مائک چھین کر سفیر موصوف نے اپنا درد لوگوں سے یوں بیان کیا کہ:
’’ تمہارے چھوٹے اور بڑے حضرت، مجھے اس طرح چکر لگوارہے ہیں، ان کی گو شمالی ہونی چاہیے۔‘‘
ایک دوسرے موقع پر کسی نے کہا کہ:
’’ہمارے مولانا ۔۔۔۔۔۔کو جس مدرسے سے معزول کیا گیا ہے، یہ صاحب اسی مدرسے سے ہمارے یہاں چندہ کرنے آگئے؟‘‘
اس وقت کوئی جواب دینے کے بجائے، سفیر موصوف بوقت نماز، مائک پر کھڑے ہوئے اور لوگوں کا ذہن اس طرح پاک کیا: ’’ا گر تم اپنے مولانا۔۔۔۔۔۔ کو چندہ دیتے تھے تو سو، ڈیڑھ سو سال سے جتنا چندہ دیا ہے وہ سب میں واپس کرادوں گا۔ اور اگر ۔۔۔۔۔ادارے کو چندہ دیتے تھے تو ہمیں ایسا کیوں کہا جارہا ہے؟‘‘
رَمَضان المبارک میں روزے اور سفر کی حالت میں مرکزی اداروں کے سفرا ایسے ’’چھوٹے، بڑے حضرتوں‘‘ سے پر یشان کیے جاتے ہیں، اس سے اندازہ کریں کہ چھوٹے چھوٹے اور غیر معروف؛ لیکن ضرورت مند مدارس کے سفرا کے سامنے ایسے’’نا شکرے حضرتوں‘‘ کی طرف سے کیسی کیسی پریشانیاں کھڑی کی جاتی ہوں گی۔ عام سفرا کو کیسے کیسے مایوس کن اور حوصلہ شکن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔
ایک شہر میں بعد مغرب کسی سفیر کا ورود ہوا، اس شہر کے ضلع میں مرکزی مقام پر تصدیق نامہ جاری کر نے والے جلوہ افروز ہیں۔ اس شہر سے تقریبا ستر کلو میٹر (70KM) دور شام کو بعد نماز مغرب ایک سفیر تقریبا ایک ہزار کلو میٹر (1000km) کا سفر طے کرکے وارد ہوئے، انہیں عشا میں اعلانِ چندہ سے منع کرکے کہا گیا کہ آپ ضلع کے ہیڈ آ فس (70 کلو میٹر دور) سے اپنی سفارت کا تصدیق نامہ لائیں، تبھی آپ یہاں چندہ کر سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ موصوف کے پاس بڑے اور معیاری اداروں کا تصدیق نامہ موجود ہے اور وہاں سے جو نیا تصدیق نامہ جاری ہوگا وہ سفیر موصوف کے پاس موجود کاغذات کو ہی دیکھ کر جاری ہوگا، رات میں اگر علاقائی تصدیق نامہ حا صل کرنے کے لیے ہیڈ آفس کا سفر کرتے ہیں، تو عشا کا چندہ نہیں ہوگا اور اگر سفیر موصوف لوہے اور پتھر کے بنے ہوئے نہیں ہیں تو ان کے طویل سفر پر تکان کا احساس کس کو ہے؟ رات میں اگر ہیڈ آفس پہنچ جاتے ہیں تو ضروری نہیں ہے کہ اسی رات ان کو تصدیق نامہ مل جائے؛ کیوں کہ تصدیق کنندگان تصدیق جاری کرنے کے عظیم کام میں دن بھر مصروف رہنے کی وجہ سے ممکن ہے بستر استراحت پر جا چکے ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے دن بھی تصدیق حاصل کرنے کے لیے سفیر موصوف کو فربہ حضرتوں کا انتظار کرنا پڑے؛ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ حضرت کسی سفر پر ہوں۔ اس طرح ہر ہر علاقہ میں تصدیق جاری کرنے کے شوقین ائمہ کی جاہ طلبی کی وجہ سے سفیروں کے قیمتی اوقات ضائع ہو تے رہتے ہیں لیکن شاید ہی کسی کو اس کا احساس ہو۔
*پا نچ دن کا تصدیق نامہ*
ملک ہندوستان کے مشرقی اور بالکل آخری سرے سے ایک سفیر وارد ہوئے ہیں، ہونٹ سوکھے ہوئے، بوسیدہ و کہنہ کپڑے میں ملبوس، گرد آلود چپل، پیروں پر غبار، خوش روئی کا دور دور تک پتہ نہیں، جمعیۃ علما اور دوسرے بڑے اداروں کی تصدیقات ساتھ میں ہیں، ان کے لیے علاقائی ائمہ نے پا نچ دن کا تصدیق نامہ جاری فرمایا؛ پانچ دنوں کا تصدیق نامہ گویا موبائل یا نیٹ کے TOPUP (ٹاپ اپ) کی طرح ان کی ایمان داری اور مدرسے کی ضروریات پانچ دنوں کے بعد ختم ہو جائیں گی۔؟
*کیسے نا سمجھ اور۔۔۔*
رَمَضان المبارک کا مہینہ ہے ائمہ کی مجلس ہے۔ سفیروں پر تبصرہ ہو رہا ہے۔ سفیروں کے استخفاف سے متعلق نہ ختم ہونے والی مختلف باتوں کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ ایک امام نے فرمایا کہ: ’’یہ سفیر کتنے نا سمجھ اور بد تمیز ہوتے ہیں؟ میں سنت کی نیت با ندھنے کے لیے تکبیر تحریمہ بول کر ہاتھ کانوں کی طرف اٹھانا ہی چاہ رہا تھا کہ ایک سفیر نے میرے منھ کے پاس تصدیق نامہ کر دیا بولا: دیکھ لیجیے، دیکھ لیں، چندے کا اعلا ن کرنا ہے۔ میں نے زور سے ڈانٹا۔‘‘
امام موصوف کو پتا ہونا چاہیے کہ "نا سمجھ اور بد تمیز” کی شناخت کی صلاحیت انہیں سفیروں کی محنتوں اور کوششوں کا ثمرہ ہے اور اس صلاحیت کے ساتھ منبر و محراب تک آپ کی پہونچ بھی انہیں نا سمجھوں اور بد تمیزوں کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے۔ رمضان میں جب کہ عام مسلمان اپنے گھروں پر رہ کر ہر ممکن سہولیات کے ساتھ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے روزہ، افطار، عید اور خوشیوں کا تقریبا ہر من پسند انتظام کر لیتے ہیں، یہ سفرا روزہ، تراویح، نمازوں اور ذکر و اذکار کے ساتھ دن بھر ایک جگہ سے دوسری جگہ کا چکر لگاتے رہتے ہیں، ان کی قربانیاں؛ ائمہ کی نظروں سے کسی بھی حال میں اوجھل نہیں ہونی چاہیے، ملت کے رجالِ کار اور علماے دین کی طرح، سفراے مدارس بھی اقبال کے اس شعر کا مصداق ہیں: ع
*حنا بند عروس لالہ ہے خونِ جگر تیرا*
*تیری نسبت براہیمی ہے ، معمارِ جہاں تو ہے*
مختلف علاقوں کے ائمۂ مساجد سے درخواست ہے کہ دین کی ترویج و اشاعت میں اپنی توانائی صرف کریں، اگر اپنی کم ہمتی کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتے ہیں تو فانی دنیا میں اپنے نام کی تشہیر کے لیے خدما تِ دینیہ میں مصروف افراد کی راہوں میں مشکلات کھڑی کرکے اپنی آخرت نہ خراب کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی خود نمائی کے لیے خدامِ دین کی راہوں کا روڑہ بننے سے بچائے اور دین کی نصرت کی تو فیق عطا فرمائے۔
(۱۲؍ رمضان المبارک ۱٤٤٠ھ / 18 مئی 2019ء)
–
Comments are closed.