آو کسی غریب و محتاج کو سہارا دیں

اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اس میں ہر ایک کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔ اللہ پاک نے کسی کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑا۔ ہر ایک کے لیے ایسے اسباب وذرائع مہیا کردیے ہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ اللہ کی زمین پر رہ کر اپنی زندگی کے ایام گزار سکے۔ یتیم ونادار اور لاوارث بچوں کے بھی معاشرتی حقوق ہیں۔ ان کی مکمل کفالت ان کے حقوق کی پاسداری ہے اور اس سے منہ موڑلینا ان کے حقوق کی پامالی ہے اسلامی تعلیمات ہر طرح سے ہمارے لئے مکمل نظام زندگی بیان کرتی ہیں وہ چاہئے معاشرے ہو کہ سیاست ہو وہ انفرادی زندگی ہو کہ اجتماعی زندگی ہو اس وقت جو بات کرنے کی ہے وہ ہے معاشرے کے ایک خاص حکم کی جو ہمارے معاشرے کو تباہ ق برباد ہونے سے باز رکھتا ہے میری مراد ہے غرباء کی دل جوئی ان سے محبت ان کی ضروریات کا خیال ہمدردی و غمگساری اسلام کی ایسی تعلیمات ہیں جو معاشرے کو بگڑنے سے محفوظ رکھتی ہیں
محتاجوں،غریبوں ، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد، معاونت ، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے ۔ دوسروں کی مدد کرنے،ان کے ساتھ تعاون کرنے، ان کے لیے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاءفراہم کرنے کو دین اسلام نے کار ثواب اور اپنے ربّ کو راضی کرنے کانسخہ بتایاہے ۔ خالق کائنات اللہ ربّ العزت نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے ، صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مقدور بھر مددکرے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ” نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے،اور مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔(سورة البقرةآیت177)، قرآن حکیم کی سورة البقرہ ہی میں ارشاد ہے” (لوگ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔“ ( سورة البقرہ آیت 215)
ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی سے خرچ کرتے ہیں۔
تنگ دستی اور حاجت کے وقت میں بھی اللّہ کی راہ میں خرچ کریں:
قرض حسن یا صدقات کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہم بڑی رقم ہی خرچ کریں یا اسی وقت لوگوں کی مدد کریں جب ہمارے پاس دنیاوی مسائل بالکل ہی نہ ہوں بلکہ تنگ دستی کے ایام میں بھی حسب استطاعت لوگوں کی مدد کرنے میں ہمیں کوشاں رہنا چاہیے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ (آل عمران۱۳۴)
جو محض خوشحالی میں ہی نہیں بلکہ تنگ دستی کے موقع پر بھی خرچ کرتے ہیں․․․․․ ان کے رب کی طرف سے اس کے بدلہ میں گناہوں کی معافی ہے اور ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں
سماجی بہبود کا بنیادی مقصد معاشرے کے محتاجوں، بے کسوں، معذوروں، بیماروں، بیواؤں، یتیموں اور بے سہارا افراد کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح وبہبود ہے ان کی ضروریات زندگی کا خیال رکھنا درس ہے اسلامی تعلیمات کا اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اس بارے میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے حکم دیا ہے کہ ان کی دلجوئی کی جائے انہیں بے یار و مددگار نہ چھوڑا جائے پر ایک بات یاد رکھنے کے لئے اہم ہے کہ انہیں صدقات و خیرات دے کر ان پر احسان نہ جتایا جائے کیونکہ ایسا کرنا تمہاری نیکی کو برباد کر دے گا اللہ تعالی قرآن کریم میں مومنین سے مخاطب ہے کہ آئے ایمان والو اپنے صدقات ضائع نہ کرو لینے والوں کو ایذا دے کر یا اب جو ہمارے ہاں یہ رسم صلی ہے کہ غریب کی مدد کرتے وقت تصاویر لی جاتی ہیں انہیں کچھ مال تھما کر تو یہ فعل بدترین گناہ ہے یہ تھوڑے ہی آپ ہم ان پر کوئی احسان کر رہے ہیں جو یوں انہیں سرعام رسوا کریں یہ تو عین عبادت اور حکم ربی ہے گر ہم اس سے منہ پھیر لیں تو یقینا یہ ہمارے ایمان کے لئے کوئی نیک شگون نہیں مانا جائے گا آئے میری ملت کے خیر خواہو ان غرباء و محتاجوں کی بے کسی کا تماشا نہ بناؤ ان کی عزت و احترام کو یوں سرعام نیلام نہ کرو یہ اسلام کی تعلیمات نہیں بلکہ ابلیسی فریب ہے ورنہ حکم تو یہ ہے ایک ہاتھ سے یوں دو کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو
احادیث نبوی علیہ السلام میں بار بار اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ یتیموں محتاجوں مفلسون کی اعانت کی جائے ان سے حسن سلوک کیا جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ایسا کرتے تھے وہ تو یتیموں کے والی غریبوں کے مولا کہلائے جاتے ہیں ان کی آنکھیں تو نم ہوتی تھیں کسی لاچار و مفلس کو دیکھ کر آئے مطالعہ احادیث سے جانتے ہیں کہ کیا کیا تعلیم ملی ہے ہمیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اپنے دل کے سخت ہونے کا ذکر کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اپنے دل کو نرم کرنا چاہتے ہو تو مسکین کو کھانا کھلاؤ اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھو
حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کثرت سے ذکر الٰہی فرماتے، عام بات چیت بہت کم فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز کو طویل فرماتے اور خطبے کو مختصر اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بیواؤں اور مسکینوں کی حاجت روائی کرنے کے لئے اُن کے ساتھ چلنے میں کوئی عار محسوس نہیں فرماتے تھے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں وہ پہلا شخص ہوں جس کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا مگر یہ کہ ایک عورت جلدی سے میرے پاس آئے گی، میں اُس سے پوچھوں گا: تمہارا کیا مسئلہ ہے؟ تم کون ہو؟ وہ عرض کرے گی: میں وہ عورت ہوں جو اپنے یتیم بچوں کی پرورش کے لئے بیٹھی رہی (دوسرا نکاح نہیں کیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اسے جنت میں داخل فرما دیں گے)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اپنے دل کے سخت ہونے کا ذکر کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اپنے دل کو نرم کرنا چاہتے ہو تو مسکین کو کھانا کھلاؤ اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھو

حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس نے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اُس کا مقصد صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا تھا تو اُس کے لئے ہر اُس بال کے بدلے نیکیاں ہیں جس، جس بال کو اُس کا ہاتھ لگا تھا۔ جس نے اپنی زیر کفالت کسی یتیم بچی یا بچے کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ اور میں جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی میں تھوڑا سا فاصلہ رکھا
حضرت مصعب بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ان کے والد ) :” حضرت سعد (رضی اللہ عنہ) کو یہ خیال ہوا کہ انہیں اپنے سے کم تر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،تم لوگ تو انہی کمزوروں کی وجہ سے مدد کئے اور رزق دیئے جاتے ہو۔ صحیح بخاری( ٢٧٣٩)

ان احادیث کی روشنی میں یہ بات تو سمجھ آگئی ہے کہ ان لاچار و مفلس لوگوں کی کی مدد و اعانت کرنا حکم نبوی علیہ السلام بھی ہے اور طریقہ نبوی علیہ السلام بھی بحثیت امت یہ ہمارے لئے عین عبادت ہے اس میں ہمارے لئے نوید فلاح و کامرانی ہے پر یہ خیال رہے کہ ہمارا یہ کام صرف عبادت ہو تجارت نہ بنے
اس دور پرشعوب میں جہاں امت مسلمہ انتہائی کرب و اذیت میں مبتلا ہے ہر طرف امت کی چینخ و پکار بلند ہورہی ہے بچے بوڑھے پیر و جوان قربان ہورہے ہیں ہزاروں افراد بے گھر بے یار و مددگار در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں امت مسلمہ کی ایک اچھی خاصی تعداد مختلف ممالک میں کچرے سے کھانے کے چند لقمے چن رہی ہے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے رزق کے لقمے نہ ملنے کے سببایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں تو ایسے میں
ہم بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے ہاں بیواؤں اور یتیموں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو بے سہارا و بے کس ہیں جن کے پاس سوائے اللہ تعالی کے نام کے کچھ بھی نہیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ عید قریب ہے ایک دن کا فاصلہ ہے پر یتیم کے گھر میں کھانے کے لالے پڑے ہیں بیوائیں اپنی بے بسی و لاچارگئی کی مار جھیل رہی ہیں پر ان کی مدد کرنے والا کوئی موجود نہیں صاحب ان کی آنکھوں سے بہتے موتی ان کا درد بیان کرنے کو کافی ہے ایسے بھی یتیموں کی تعداد کوئی کم نہیں جن کے والد نے اپنی زندگی اپنی ملت کی بقا کے لئے قربان کردی تو یہ فریضہ ہم پر اب عائد ہوتا ہے کہ ان معصوم بچوں کا خیال رکھیں ان بیواؤں کی گر مدد نہ کی گئی تو یقینا اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے یہ کوئی (اللہ نہ کرے ) کوئی غلط کام بھی کرسکتی ہیں کیونکہ لاچارگئی انسان سے اس کی پہچان ہی نہیں اس کی عزت و توقیر بھی چھین لیتی ہے
ان مبارک ساعتوں میں ان کی امیدیں بھی ہم سے جڑ جاتی ہیں کہ اب امت ہماری مدد کرے گئی ہم بھی اپنا چولہا گرم کریں گئے تو آئے ہم اپنے آس پاس میں اس بات کے لئے کوشاں رہیں کہ کہیں ہمارا حال ایسا تو نہیں کہ جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ وہ مومن نہیں جو خود تو شکم سیر ہوجائے اور اس کا پڑوسی بھوکا پیاسا ہو
ایک اور یاد دہانی

اکثر ہمارے ہاں یہ بات مد نظر رکھی جاتی ہے کہ ماہ رمضان کے آخری عشرے کے آخری دنوں میں صدقات و خیرات دینا بہتر ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہے میرے عزیزو ہم جو رمضان کے پہلے عشرے کے اختتام پر ہی اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کوشاں ہوکر بازاروں کا رخ کرتے ہیں اور پورے دو ہفتے اپنے لئے اپنے بچوں کے لئے مختلف انواع و اقسام کی خریداری کرتے ہیں تو کیا یہ یتیم بچے بیوائیں اپنی ضروریات صرف ایک دن پہلے عید کے پوری کرسکتے ہیں ایک بار دل پر ہاتھ رکھ کر سوچے تو کہ اللہ نہ کرے گر یہ ہمارا بچہ ہوتا گر یہ بیوا ہماری بہن بیٹی ہوتی تو کیا تب بھی ہم اس کی اعانت ایسے ہی کرتے ہرگز نہیں تو پھر رسول رحمت صل اللہ علیہ وسلم کی امت کے بچوں اور بیواؤں سے یہ سکوک رکھنا ہم باعث فخر و مسرت سمجھتے ہیں بہتر ہوتا کہ ان کی مدد پہلے سے ہی کی جاتی تاکہ یہ اپنی ہلکی پھلکی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پریشان نہ رہتے
دوسری بات
ہم یہ جو ایک دو روپیہ یا زیادہ سے زیادہ دس بیس روپیہ کسی غریب و محتاج کو تھما دیتے ہیں اس سے تو ممکن ہی نہیں کہ یہ اپنی ضروریات کو پورا کرسکیں بہتر ہوتا کہ گر ہم ان کی کم از کم کوئی ایسی ایک ضرورت خود ہی پوری کرتے جو ان کو حاجت ہوتی یہ بات بھی کوئی فرض عین نہیں ہے کہ جو صدقہ فطر کی رقم مقرر کی گئی ہے اس سے زائد ایک روپیہ بھی نہیں دینا ہے میرے بھائی ہم سے جتنا ہوسکے ہماری جتنی استطاعت ہو ہمیں ان کی اعانت کرنی چاہئے اللہ تعالی تو کبھی بھی ہمیں گن گن کر نہی دیتا تو ہم ایسا کیونکر کریں
الطاف جمیل ندوی
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.