قیاس آرائیاں، اور مسلمانوں کی حقیقت

ذوالقرنین احمد (چکھلی مہاراشٹر)
9096331543
جو لوگ بدر کا حوالہ دیکر حکومت کے تبدیل ہونے کی پیشنگوئی دے رہے تھے۔ کہ آج ۱۷ رمضان ہے، مسلمانوں کی فتح ہوئی تھی۔ چلو مان بھی لیا جائے، تو مسلم امیدوار تھے ہی کتنے ،کونسی فتح کیسی فتح، کانگریس بھی اگر آجاتی تو بھی مسلمان کی کونسی فتح ہوجاتی۔ جو جنگ بدر کی فتح کو ملک کے انتخابات میں مسلمانوں کی جیت سے تعبیر کر رہے تھے۔ وہ یہ بات سے ضرور واقف ہونگے کہ وہ ۳۱۳ کا لشکر کوئی معمولی لشکرنہیں تھا۔ وہ سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر نگرانی میں تربیت پاکر ایمانی قوت و طاقت سے اور زمینی حقائق پر مبنی اقدامات کرکے فتح حاصل کرنے والی مقدس جماعت تھی۔ انہوں صرف دعائوں پر انحصار نہیں کیا تھا۔ وہ دین کے بہادر سپاہی تھے جو میدان جنگ میں باطل طاقتیں زیر کرنے کیلئے تربیت بھی حاصل کرتے تھے۔ وہ آنے والے حالات کو بھانپ کر اس کے مقابلے کیلئے تیار رہا کرتے تھے۔ آج کے مسلمانوں کی طرح خواب خرگوش میں عیش و عشرت کی زندگی گزارنے میں مگن نہیں تھے۔ جو صرف کچھ دیر کیلئے ہوشیار ہوتے ہیں۔ اور پھر ایک گہری نیند میں چلے جاتے ہیں۔ فتح کے پرچم یونہی نہیں بلند ہوا کرتے۔ اس کے پیچھے عظیم ترین افراد کی قربانیاں ہوا کرتی ہیں۔ اس کے لیے زندہ دل ہونا چاہیے ہوتاہے۔ ائیر کنڈیشن آفس اور گھروں میں بیٹھ کر فلسفیانہ بحث و مباحثہ کرنے سے تبدیلی نہیں آیا کرتی ہے۔
اس کیلئے ایک میشن بناکر جد وجہد کرنی ہوتی ہے۔ قوم کو اعتماد میں لیے بغیر عوامی سطح پر کسی فلاحی کام کی تکمیل کرنا مشکل ہے۔ مسلمانوں نے سوشل میڈیا پر اتنی بیداری اس انتخاب میں دیکھائی جو اس سے پھلے کبھی دیکھنے نہیں ملی۔ لیکن یہاں باتیں کرنے سے کچھ ہاتھ نہیں آنے والا۔ ہم موجودہ نتائج کا اگر جائزہ لے تو پتہ چلتا ہے۔ کہ انگلیوں پر گنے چنے مسلمان لوک سبھا میں پہنچے ہیں۔ جب کہ مسلمانوں کی آبادی ملک کے اندر کم و بیش ۲۵ کروڑ سے زائد ہے۔ اتنے بڑی کمیونٹی کیلئے ان کی نمائندگی اور حقوق کے تحفظ کیلئے کم سے کم ۲۵ ایم پی تو ہونے چاہیے تھے۔ لیکن نہیں مسلمان آج بھی بکھرے پڑے ہیں۔ کچھ حد تک بیداری دیکھنے کو ملی لیکن اس میں اپوزیشن پارٹیوں نے وہاں سے مسلم کینڈیڈٹ کو ہی امیدواری دی جس کی وجہ سے ووٹ منتشر ہوگئے۔
اصل بات یہ چل رہی تھی کے مسلمان قیاس آرائیوں سے آگے بڑھ کر زمینی حقائق کو جان کر عملی میدان میں اتریں۔ بیان بازی نعرے بازی ، اور سوشل میڈیا پر چیخ پکار کرنے سے کچھ ہاتھ نہیں آنے والا، جس طرح کانگریس کے دور میں مسلمان پچھڑے ہوئے تھے۔ آج بھی وہی حالات بلکہ اس سطح سے بھی نیچے آچکے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے،کہ مسلمان میشن بناکر اپنے بچوں اور نوجوانوں کی صحیح تربیت و رہنمائی کرتے ہوئے ان کے لئے تعلیمی میدان میں ترقی کی راہ ہموار کریں، دینی شعور ان میں کوٹ کوٹ کر بھر دیں۔ تاکہ آنے والے حالات سے وہ افراد سینے سپر ہوکر مقابلہ کرنے کی طاقت رکھے۔ مبالغہ آرائی اور دل کو تسلیاں دینے سے کچھ نہیں ہونے والا نجومی کی طرح خود ہی اپنے لیے بہتر سوچ لینے سے تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ جنگ بدر میں ۳۱۳ صحابہ پر مشتمل دستہ غیر معمولی خوبیوں،صلاحتوں کا حامل تھا۔
وہ ایمان کی حلاوت سے لبریز تھے تو ساتھ میں جنگی ہربوں اور میدان جنگ کے ماہر بھی تھے۔ انہوں نے حقیقت سے آنکھیں نہیں موند لیں تھیں۔ وہ دشمنان اسلام کے خلاف میدان عمل میں آنے کیلئے ہر وقت تیار اور چوکنا رہا کرتے تھے۔ تاریخوں کو لیکر قیاس آرائیوں سےکچھ نہیں ہونے والا حقیقت سے اپنے آپ کو آشکار کرائیں۔ خواب خرگوش سے اپنے آپ کو جگایے۔ ورنہ تبدیلی تو خاک تم اپنی شہریت اور حقوق کو بھی کھو دیں گے۔ دین اسلام کا نفاذ دور کی بات ہے۔ فلحال تو شریعت کی حفاظت ہی تمہارے لئے سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ حقیقت کو تسلیم کروں یا غلامی کی زنجیروں میں بندھنے کیلئے تیار رہے۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.