اندھیرے سے اجالے کی طرف

مولانا محمدشاہد الناصری الحنفی
مدیرماہنامہ مکہ میگزین ممبئ، صدررابطہ عالم انسانی، کل ہند ملی قیادت بورڈ و ادارہ دعوۃ السنہ مہاراشٹرا
خداخداکرکے وطن عزیز میں انتخاب کا موسم ختم ہوا ۔اورسیاسی قیادتوں نے جو فصل بویاتھا اس کی کٹنی اورچھٹنی کاسلسلہ بھی اختتام کوپہونچا۔ تقریبا پونے تین ماہ کے دوران الکشن کے تسلسل نے وطن عزیز کے عوام وخواص کوتھکادیا اورسیاسی قیادتوں نے ایک دوسرے پرجس طرح دشنام طرازی اورالزام بازی نیز استہزاء کی جوروش اختیارکی تھی اس نے دل درمند اورفکرارجمند نیز ہوشمند انسانوں کوبہت زک پہونچایا ۔ وطن عزیز کے سب سے بڑے منصب کابھی خیال نہ رکھاگیا ۔اوراہانت کی ایسی ایسی شکلیں سامنے لائ گئیں جوتاریخ نے پہلے سے دامن میں محفوظ نہیں رکھاتھا ۔ یہ واقعات اہانت انسانی تکریم کے اصولوں کے خلاف تھے ۔
بہرحال آج 23 مئ کوجو کچھ بھی آنکھوں کے سامنے نظرآیا وہ ہونی طے تھی انہونی نہیں تھی اس لئے کہ میڈیا کی مختلف شکلوں کی اورمختلف محکمات کےحکمراں کی ان کواعانت حاصل تھی ۔اور فریق مخالف قیادتوں کی توجہ صرف چوکیدار کوبدلنے کی تھی اورانہوں نے ساری محنت چوکیدار کوبدلنے پرکی تھی ۔اس کوچورثابت کرنے پرکی تھی جوناکام ہوئ ۔
بہرحال ملک کے عوام نے نہیں بلکہ خلاق عالم نے ایک بارپھر ملک کی قیادت وسیادت کیلئے وطن عزیز کی سیاسی قیادت بی جے پی کو زمام اقتدار تھمادیاہے جو اس آیت ربانی کے مصداق ہے کہ وہ جس کوچاہتاہے حکومت دیتاہے اورجس سے چاہتاہے حکومت چھین لیتاہے ۔
کیاکوئ اس صریح اعلان کاانکارکرسکتاہے ۔ کانگریس پارٹی ہی درحقیقت وطن عزیز کی ہرخرابی کی ذمہ دارہے ۔اقلیتوں پرظلم ہویاان کے حقوق کی غصب یابی انکے قتل وغارت گری کامنصوبہ ہو یامساجد ومقابر کی بے حرمتی یااس کاانہدام یہ سب کانگریس کی قیادت کے کارہائے نمایاں ہیں ۔ ساری سیاسی قیادتوں کے تانے بانے اسب پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اس نے وطن عزیز کے باشندوں کو زخم بھی دیا اورپھرمرہم بھی تقسیم کیا ۔
مجھے بی جے پی کی صفائ پیش نہیں کرنی ہے وہ توجمعہ جمعہ
آٹھ دن کی ہے ۔ وہ ان آٹھ دنوں میں کیا کرسکتے ہیں جوسترسالوں میں کانگریس کی قیادت نے کیاہے ۔
باتوں پراگریقین کیاجائے تودلفریب نعرے ساری سیاسی قیادتیں لگاتیں ہیں جوخواب کے مانند ہوتے ہیں ۔ سب کاساتھ سب کاوکاس بھی ایک نعرہ تھا ۔ ایک ہاتھ میں قرآن اوردوسرے میں سائنس بھی ایک بات ہے ۔ مگر کرنا اسی کوہے جس کے کلائ میں ہاتھ ہے ۔ اگرکوئ کہ رہاہے توہمیں قبول کرناچاہیے کہ وہ وکاس دے رہاہے ۔
کانگریس میں وطن عزیز کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان کبھی مامون ومحفوظ نہیں رہے ہاں چند خاندانی علماء ورؤسا اورلیڈران اپنے خاندان سمیت ہمیشہ محفوظ رہے مگر عام لوگوں کاکوئ پرسان حال نہیں ہوتا۔
ایسے حالات میں کیا خدائے علیم وخبیر کے اس ارشادکی صداقت کیوں کر نہ سامنے آتی کہ
وتلک الایام نداولھا بین الناس ۔
اس لئے اس الکشن سے مسلمانوں کوکیا لینادینا ۔ہم نے جمہوری عمل میں اشتراک کیا اپناووٹ حسب دلخواہ استعمال کیا ۔اس کے بعد ہماری فکروں کامحور روزمرہ کی طرح تعلیم۔ معاش ومعاد ہے نہ کہ بے جافکروں اورچکروں میں پڑنا کہ فلاں کی حکومت ہوگئ تواب کیا ہوگا ؟
یہ باتیں ایمان ویقین کی قوت کے منافی ہے۔
جمہوری ملک کانظام جس طرح الکشن کے ذریعہ عمل میں لایاجاتاہے اسی روایت کے تحت پھر حکومت سازی ہوگی اورملک کانظام رواں دواں رہےگا۔
ہاں اگرظلم بڑھے گا توپھراقتدار کی تبدیلی ہوگی اور یہ سلسلہ چلتاہی رہےگا جب تک دنیاآبادرہے گی ۔ کہ یہی مشیت الہی ہے ۔ سارا نظام حکومت یاافراد حکومت ہماری منشاء کے مطابق ہو یہ ممکن نہیں قانون ربانی میں بھی بندے کے اس منشاء کی تردید کی گئ فرمان باری ہے عسي أن تكرهوا شيئا وهو خير لكم وعسى ان تحبوا شيئا وهو شر لكم والله يعلم وانتم لاتعلمون ۔
یہ اوربات ہے کہ سابقہ پنج سالہ بھی بحیثیت مجموعی مسلمانوں کیلئے کچھ اچھا ثابت نہیں ہوا ۔ وطن عزیز کے رہنما دستور کے مخالف مسلمانوں کے عائلی قوانین پرشب خون مارے گئے ۔مگرقصوراپناتھا کہ کورٹ میں اپنے لوگ گئے تھے ۔
اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہم نے اسلام کے عادلانہ اصولوں کی تعلیم سے ان کو بے بہرہ رکھا تھا ۔وہ اپنوں کے ڈسے ہوئے تھے اس لئے وہ وطن عزیز کی عدالت میں انصاف وعدل مانگنے گئے تھے۔
پھر حکومت نے جوکچھ کیاوہ سب کے سامنے ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو اس حکومت سے بدظنی ہوئ اوراس کو مخالف سیاسی قیادتوں نے خوب پختہ کردیا کہ اب مسلمانوں کااسلام خطرہ میں ہے ۔اوربی جے پی اسلام دشمن جماعت ہے ۔ افسوس کی بات تویہ ہے کہ گذشتہ پانچ سالوں میں ان مذہبی قائدین نے جوسابقہ حکومتوں کے سربراہ اعلی سے برابر مذاکراتی ملاقات کیاکرتے تھے محض اس وجہ سے ملک کے اس نئے سربراہ اعلی کونظرانداز کیا کہ یہ بی جے پی کے ہیں ؟
آہ صدآہ ان کی ایمانی بصیرت وفراست صرف پارٹیوں کی وفاداری پرہی مرکوز رہی وہ امت دعوت کے نکتہ کے پیش نظرہی اپنا اخلاق ان پرپیش کرتے اوراسلام کی تعلیمات کوباورکراتے توشاید حکومت کی نظر میں اس قدر بے وقعت احتجاج کی ضرورت ہی پیش نہ آتی ۔ مگر اس فکر کو ان قائدین کے دماغ سے کس طرح ختم کیاجاتا کہ وزیراعظم منموہن سنگھ بھی مسلمان نہیں تھے جس طرح وزیراعظم شری مودی نہیں ہیں ۔
وہ توبھلاہو سعودی عرب کے شاہ سلمان کا کہ انہوں نے بڑی حکمت وتدبر کے ساتھ ہمارے وزیراعظم صاحب کوسعودی عرب کاسب سے بڑا ملکی اعزاز سے نوازا کہ اسلامی اخلاق کے ایک پہلو کامظاہرہ ہوگیا ۔
بہرحال مشیت الہی اورحکم الہی کے تحت دوبارہ اسی خدا کے بندے شری مودی وزیراعظم بن چکے ہیں جس خداکے بندے ہم مسلمان بھی ہیں توہم کوکسی تشویش میں مبتلاء ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔
آج شام میں ہمارے وزیراعظم صاحب نے جوتقریرکی ہے وہ بہت ہی امیدافزاء ہے اورواقعی وہ ایک اچھے ذی ہوش انسان اورمفکر اوروسیع القلب شخص کی تقریرہے۔ لیکن اس کوعملی جامہ پہنانا بھی خلاق عالم کا کام ہے ۔ ہماراکام امید رکھناہے اوراس پریقین رکھناہے کہ ہرشب تاریک کی سحر ہوتی ہے جس کرقرآن مجیدنے۔ یخرجھم من الظلمات الی النور۔ سے تعبیرکیاہے۔
انہی سطور کے ساتھ ہم ایک بارپھر2014ء کی طرح 2019 ء میں بھی اپنے وزیراعظم صاحب کا وطن عزیز کے سب سے بڑے منصب پراستقبال کرتے ہیں ۔ ان کوخوش آمدیدکہتے ہیں ۔اوران کی خدمت میں پیغمبرانسانیت حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بات پیش کرتے ہیں جوانہوں نے دنیاکے سارے انسانوں کو سندیش دیاہے ۔ کہ ساری مخلوق خدا کاکنبہ ہے جوخدا کے کنبہ سے محبت رکھے گا خدابھی اس سے محبت رکھے گا۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.