ہار میں جیت کا عنوان بھی ہو سکتا ہے!!!

ثناءاللہ صادق تیمی

رزلٹ آ چکا ہے، نریندر مودی ملک کے ایک بار پھر وزیر اعظم ہونے جارہے ہیں، انہیں مکمل اکثریت اور زبردست جیت حاصل ہوئی ہے. انہیں مبارکباد اور یہ آشا بھی کہ وہ ملک کو ترقی و تعمیر کی راہ پر آگے بڑھانے کا کام کریں گے.

الیکشن ہوا تھا تو کسی کی ہار کسی کی جیت تو ہونی ہی تھی سو ہوگئی. کچھ سیاسی پارٹیوں کو زبردست دھکا لگا تو کچھ کے وارے نیارے رہے لیکن سچ پوچھیے تو یہ نریندر مودی کی جیت رہی اور اصلا اسی ایک شخص کا کرشمہ کام کرتا ہوا نظر آیا. یہ اس آدمی کی بہت بڑی کامیابی تھی کہ اس نے روزگار، کرپشن، مہنگائی اور بقیہ چیزوں کو درکنار کرتے ہوئے نیشنل سیکوریٹی کو انتخابی مدعا بنایا اور خود ہیرو بن کر ابھرنے میں کامیاب رہا.

بحیثیت ایک ذمہ دار شہری کے ہم نے سوچ سمجھ کر ووٹنگ کی، ہمیشہ رزلٹ حق میں آئے ضروری نہیں ہوتا، اس پورے اپیسوڈ میں کچھ چیزیں البتہ قابل توجہ رہیں.

لگ بھگ سارے اکزٹ پول نے بی جے پی کو دوبارہ اقتدار میں بتایا تھا، ہماری عجیب نفسیات ہے، اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ ہم اکزٹ پول کی حقیقت پر گفتگو کرتے، یہ سب کیسے ہوتا ہے اس پر سوچتے اور اندازہ لگاتے کہ کیا کچھ ہو سکتا ہے، ہم نے دو عجیب و غریب رویہ اپنایا.

ای وی ایم کا سبق دہرانے لگے اور اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ رہی کہ کسی مجہول شخص کی الٹی سیدھی باتوں میں اپنا سکون ڈھونڈنا شروع کردیا.

اسی کے ساتھ ایک بات اور نوٹ کرنے کے قابل رہی کہ ہم نے یہ ماننا شروع کردیا کہ ملک فرقہ پرست ہو گیا ہے اور اب ہندو راسٹر بننے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا.

یہ سب در اصل فریب زدہ اور شکست خوردہ ذہنیت ہے. الیکشن ہوا، ہار ہوئی جیت ہوئی، جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے وہ اپنا ایجینڈا نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہے، پچھلے پانچ سال بھی کوشش کرتی رہی ہے، ان پانچ سالوں میں بھی کوشش کرے گی.

ہم انتخابی سیاست میں اپنا اقتدار بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، ہم کسی نہ کسی پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں اور اس میں بھی عام طور پر یہی دیکھتے ہیں کہ کون نسبة کم نقصاندہ ہے. ایسے میں اتنا زیادہ واویلا کرنا یا نو امید ہونے کی کیفیت میں جانا عقلمندی نہیں. ہم جنہیں سیکولر سمجھتے ہیں وہ بھی ہندو ہیں اور جنہیں سنگھی سمجھتے ہیں وہ بھی ہندو ہیں اور کب کون سنگھی اور سیکولر بن جائے اس کا بھی ٹھکانہ نہیں رہتا. ویسے بھی اب تک ہم نے اپنا وجود خود ہی سہارا ہے اور آئندہ بھی ان شاءاللہ ہم خود ہی سہاریں گے.

اس موقع پر ہی نہیں ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سیاست صرف وہ نہیں جو انتخابات میں ہوتی ہے سیاست اصلا وہ ہے جو تعلیم، تجارت، وکالت، پولیس، فوج اور بیروکریسی میں جگہ بنانے کی کوشش کرتی ہے اور پھر اپنے حقوق لڑپانا سکھاتی ہے. سیاست کو خدمت خلق اور نفع رسانی سے بھی گہرا تعلق ہے، اس خاص زاویے سے بھی ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس پائیدان پر کھڑے ہیں ؟؟؟

خوش فہمیوں سے بنایا گیا گھروندا ٹوٹ ہی جاتا ہے، اللہ پاک کو زیادہ بہتر معلوم ہے کہ کب کس فیصلے میں کیا مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے، ہم ایمان والوں کو اللہ پاک سے سدا بہتری کی امید باندھنی چاہیے.

اس لیے جو ہوا سو ہوا، آگے صبر وتحمل، استقلال وثبات اور پوری لگن سے اپنے اچھے کاموں میں لگیے، تعلیم اور فکر آخرت کو اپنا توشہ بنائے رکھیے ان شاءاللہ ہمارا رب ہمیں رسوا نہیں کرے گا

و إن تصبروا و تتقوا لا يضركم كيدهم شيأ

Comments are closed.