جب حکام وقت برے ہوں تو ہم کیا کریں؟

مولانا سراج اکرم ہاشمی

(معاون مدیر مدرسہ الہدایہ کنشاسا جمہوری جمہوریہ کونگو افریقہ)

 

ہم اور آپ جس عہد میں زندگی گزار رہے ہیں،اس میں بدترین حکومت کی تمام نشانیاں موجود ہیں؛لیکن ہم مسلمان ہیں اور بحیثیت مسلمان ہمارایہ اعتقاد ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ مشیت الہی کا تابع ہے،ارباب اقتدار کے اعمال و افکار، بادشاہوں کی بادشاہت اور صاحبان تخت و تاج کے دل خالق کائنات کی دوانگلیوں کے درمیان ہیں، اورہمارے اعمال ہی حاکمان وقت کا روپ اختیار کرتے ہیں ـ جب حکام وقت برے، ظلم و تعدی پر کمر بستہ، اورہم ہر طرح سے مصائب میں گرفتار ہوں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے،آئیے قرآن وحدیث سے رہ نمائی حاصل کرتے ہیں ۔

قرآن کریم کے الفاظ میں "ظهر الفساد في البر والبحر بما كسبت أيدي الـناس” یعنی خشکی وتری کا بگاڑ ہماری بد اعمالیوں کے نتیجے میں رونما ہوتا ہے؛ لیکن یہ تو "إن رحمتي سبقت غضبي "[ بخاري٦٤٢٢] (میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے)کی کرشمہ سازی ہےکہ "ويعفو عن كثير ” كا شب و روز ظہور ہوتا رہتا ہے، ورنہ ہم سب ہلاکت کے قابل ہیں ـ

غزوۂ احد میں بعض اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر شعوری چوک ہوئی تو ستر شیدائیان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو جام شہادت نوش کرنا پڑا، اور آج ہم لوگ تو رات دن اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کی قصدا خلاف ورزیاں کرتے ہیں، اگر ہماری تمرد وسرکشی اور نافرمانی و حکم عدولی پر "أخذ عزيز مقتدر ” کا مظاہرہ ہونے لگے تو روزانہ کتنے مسلمانوں کی جانیں جائیں گی یہ غورکرناکوئی مشکل نہیں ـ

زبان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں کہ «إن الله تعالي يقول: أنا الله لا إله إلا أنا، مالك الملوك وملك الملوك، قلوب الملوك في يدي، وإن العباد إذا أطاعوني حولت قلوب ملوكهم عليهم بالرأفة والرحمة. وإن العباد إذا عصوني حولت قلوبهم عليهم بالسخطة والنقمة فساموهم سوء العذاب، فلا تشغلوا أنفسكم بالدعاء على الملوك؛ ولكن اشتغلوا بالذكر والتضرع إليّ، أكفّكم ملوككم».{مشكاة، ص:٣٢٣}

"میں ہی اللہ ہوں،میرے سوا کوئی اور پرستش کے قابل نہیں،میں بادشاہوں کا مالک اور شہنشاہ ہوں،بادشاہوں کے دل میرے قبضے میں ہیں،جب بندے میری اطاعت وفرماں برداری کرتے ہیں تو میں(ظالم)بادشاہوں کے دلوں میں بھی ان کےلیے رحمت وشفقت پیدا کر دیتا ہوں،لیکن جب بندے میری حکم عدولی اور نافرمانی کرتے ہیں تو میں (عادل )بادشاہوں کے دلوں میں بھی ان کے خلاف ناراضی اور انتقام پیدا کر دیتا ہوں،پھر وہ انھیں بدترین عذاب سے دوچار کرتے ہیں، لہذا ایسے وقت میں تم لوگ شاہان وقت کے خلاف بد دعا میں لگنے کی بجائےاپنے آپ کو ذکر واذکار اور گریہ وزاری کا پابند بناؤ،میں شاہان وقت کے شر سے تمھاری حفاظت کرلوں گا۔

حالات یقینا ہمت شکن اور ناگفتہ بہ ہیں،ہر جگہ فراعنۂ وقت کی جانب سے خون مسلم کی ارزانی ہے؛ لیکن ان احوال سے نکلنے اوربچنے کی قرآن وسنت نے جو راہیں بتائی ہیں ان سے یا تو ہم ناواقف ہیں یا ان پر عمل پیراہونے کےلیے ہم تیار نہیں ـ

آخر کتنی نگاہیں ہیں جنھوں نے پاکیزگی کے سرمے پہنے اور خدا کے سامنے بدنگاہی کی معصیت پر اشک بار ہوئیں؟کتنی پیشانیاں خدا کے سامنے سر بسجود ہوئیں؟کتنے قدم راہ خدا میں آگے بڑھے؟اور کتنے دل دلوں کے پھیرنے والے کے آگے روئے اورگڑگڑائےکہ خدایا!ہم اپنی بد اعمالیوں سے تیرے حضور تائب ہوتے ہیں،تو ہمیں معاف فرما کر نیک اور صالح حکم راں عطا فرما!

حدیث نے ہمیں جس چیز سے روکا ہے ہم لوگ شام وسحر اسی میں مشغول رہتے ہیں ـ ہماری صبح کا آغاز حاکمان وقت کو برا بھلا کہنے سے ہوتا ہے،دن ان کی تنقیص وتعییب میں گزرتا ہے، تو راتیں ان پر سب وشتم کی بوچھاڑ کرتے ہوئے کٹتی ہیں ـ

امام دارالہجرت مالک بن انس کے اس ارشاد گرامی کو یاد رکھیے "لن يصلح آخر هذه الأمة إلا بما صلح به أولها ".

 

نئی تدبیر سے اصلاح امت ہو نہیں سکتی

پرانی راہ سے ہٹ کر ہدایت ہو نہیں سکتی

Comments are closed.