رمضان المبارک کا آخری عشرہ اور شب قدر

محب اللہ قاسمی
اللہ تعالیٰ بے حد مہربان ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بندہ ا س کے سامنے دست بدعاہو،گڑگڑائے اور مانگے کہ وہ اسے عطا کرے اگرہ وہ پہاڑ کے برابربھی گناہوں کے بوجھ تلے دباہو ،مگرخداکے حضورتوبہ کرے اور اس سے مغفرت طلب کرے تو اللہ اس کے تمام گناہوں کوبخش دے گا۔ رمضان المبارک میں اللہ اپنے بندوں پر مزیدمہربان ہوتا ہے۔ ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیتاہے۔ ہرنیکی پر اجرکی برسات کرتاہے۔ رمضان کے دوعشرے (رحمت، مغفرت) گزرچکے ہیں ۔ اب آخری عشرہ باقی ہے۔ جسے حدیث میں جہنم سے چھٹکارے کا عشرہ کہاگیاہے۔ اس عشرے کی یہ فضیلت ہے کہ تلافی مابعد کے تحت غفلت کی چادرہٹاکر اس میں زیادہ سے زیادہ عبادت وریاضت کے ذریعے ہم خداکا قرب حاصل کریں اور اپنے گناہوں سے تائب ہوکر جہنم کی آگ سے چھٹکارے کی دعاکریں ۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں (اللہ کی عبادت )میں جس قدرسخت محنت کرتے تھے اتنی اور کسی زمانے میں نہیں کرتے تھے۔ (مسلم)حضرت عائشہ ؓ سے ہی ایک اور روایت ہے جسے بخاری نے نقل کیا ہے کہ جب رمضان کی آخری دس تاریخیں آتی تھی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمربستہ ہوجاتے تھے ۔ رات بھرجاگتے اور اپنے گھروالوں کوبھی جگاتے تھے۔
وہیں اس آخری عشرے کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ نے اسی کی طاق رات میں شب قدرجیسی ایک عظیم ترین رات رکھی ہے۔ جس کے تعلق سے خدا کا فرمان ہے ۔
’’بیشک ہم نے قرآن کو شب قدرمیں اتارا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ شب قدرکیسی چیز ہے؟شب قدرہزارمہینوں سے بہترہے۔ اس رات میں فرشتے اور روح القدس (جبریل ؑ)اپنے پروردگارکے حکم سے ہرامرخیرکولے کراترتے ہیں ۔ سراپاسلام ہے۔ یہ شب قدر(اسی صفت وبرکت کے ساتھ)طلوع فجرتک رہتی ہے۔ ‘‘ (سوۂ قدر)
*لیلۃ القدرکے معنی*
قدرکے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ رات بہت ہی عظمت احترام کے قابل ہے کہ اس میں قران مجید کا نزول ہوا۔ قدربمعنی تقدیرکے بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ فرشتے اس رات اپنے رب کے حکم سے ہر طرح کے احکام وفرامین لے کر نازل ہوتے ہیں ۔ اس رات اللہ اپنے بندوں کی تقدیرکے فیصلوں کی تفصیلات اپنے فرشتوں کے سپرد فرماتاہے جوکائنات کی تدبیر اور تنفیذامورکے لیے مامورہیں ، اس میں ہرانسان کی عمراور موت اور رزق اور بارش وغیرہ کی مقداریں لکھی ہوتی ہیں ، جسے لے کریہ ملائکہ اترتے ہیں ۔ آیت کریمہ میں اس رات کو ایک ہزارراتوں سے بہترقراردیاگیا ہے کہ یہ امت محمدیہ کے لیے بڑے ہی شرف کی بات ہے کہ اس رات کی عبادت اس کے لیے ایک ہزارراتوں کی عبادت کا درجہ قراردیاگیا۔
*اس رات کی فضیلت*
نبی کریم ؐ نے بھی متعدداحادیث اس کی فضیلت بیان کی ہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشا فرمایاکہ جوشب قدرمیں عبادت کے لیے کھڑاہوا(نمازیں پڑھیں ،ذکرواذکارمیں لگارہا) تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ (متفق علیہ)
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: شب قدرمیں وہ تمام فرشتے جن کا مقام سدرۃ المنتہی پر ہے ،جبرئیل امین کے ساتھ دنیا میں اترتے ہیں اور کوئی مومون مردیا عورت ایسی نہیں جس کو وہ سلام نہ کرتے ہوں ،بجزاس آدمی کے جوشراب یا خنزیرکا گوشت کھاتا ہو۔
اس رت کی فضیلت کے حصول کے تعلق سے نبی کریمﷺ کا عمل دیکھاجائے توآپؐ اس رات کی برکت حاصل کرنے کے لیے بے حد جدجہد کرتے ہیں ، جس چیز کی جتنی اہمیت ہوتی ہے ،اس کے لیے اتنی ہی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضرت ابوسعید خدری ؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا۔ آپؐ نے ایک ترکی طرز کے خیمے کے اندررمضان کے درمیان دس دن اعتکاف کیا۔ اعتکاف ختم ہونے پرآپؐ نے اپنا سرمبارک خیمے سے باہر نکالا اور فرمایا: میں نے اس رات کی تلاش میں پہلے دس دن کا اعتکاف کیا پھرمیں نے بیچ کے دس دن کا اعتکاف کیا۔ تب میرے پاس آنے والا آیا اور ا سنے مجھ سے کہاکہ لیلۃ القدررمضان کی آخری دس راتوں میں ہے۔ پس جولوگ میرے ساتھ اعتکاف میں بیٹھے تھے انھیں چاہیے کہ وہ اب آخری دس دن بھی اعتکاف کریں ۔ مجھے یہ رات (لیلۃ القدر)دکھائی گئی تھی مگرپھربھلادی گئی اور میں نے دیکھا کہ میں اس رات کی صبح کوپانی اور مٹی میں (برسات کی وجہ سے) نماز پڑھ رہا ہوں ۔ پس تم لوگ اسے آخری دس دنوں کی طاق تاریخوں میں تلاش کرو۔ ( بخاری ومسلم )
آپؐ کا یہ طرز عمل اور شب قدرکی تلاش وجستجواہتمام اس کی اہمیت کا پتہ دیتا ہے۔ آپ کی پوری زندگی قرآن کی تفسیر ہے ۔ مذکورہ واقعہ سے یہ بات بالکل درست ثابت ہوتی ہے کہ اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ معتکف کواس رات کی خیروبرکت سے مالامال کردیتا ہے۔ اس لیے کہ معتکف کا ہرعمل خداکی رضاکے لیے اسی کے دربارمیں حاضری کے ساتھ ہوتا ہے۔ جو عبادت میں شمار کیاجاتاہے۔ لہذا آخری عشرے کی طاق راتیں بھی انھیں میسرہوتی ہیں جس میں شب قدرکوتلاش کرنے کا حکم ہے۔
*شب قدرکی دعا*
حضرت عائشہ صدیقہ ؓنے نبی کریم ؐ سے دریافت کیا کہ اگرمیں شب قدرکوپاؤں توکیا دعاکروں ۔ آپ نے فرمایایہ دعاکرو’’اللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفْوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْف عَنِّی‘‘ اے اللہ آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اور عفو و درگزر کو پسند فرماتے ہیں میری خطائیں معاف فرمائیے۔ (قرطبی)
*لیلۃ القدرکا تعین*
لیلۃ القدرسے متعلق اس بات کی توصراحت ہوتی ہے کہ وہ رمضان المبارک کے مہینے میں آتی ہے۔ مگراس کی تاریخ کے سلسلے میں بہت سے اقوال ہیں ۔ تفسیرمظہری میں ہے کہ ان سب اقوال میں صحیح یہ ہے کہ لیلۃ القدررمضان مبارک کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے مگرآخری عشرہ کی کوئی خاص تاریخ متعین نہیں بلکہ ان میں سے کسی بھی رات میں ہوسکتی ہے۔ وہ ہررمضان میں بدلتی رہتی ہے۔
*آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم*
جہاں تک تعین شب قدر کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں بہت سی احادیث ہیں ۔ جیسا کہ نبی کریم کا ارشاد ہے :تحروا لیلۃ القدرفی العشرالاواخرمن رمضان یعنی شب قدررمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ بخاری شریف کی ہی ایک اور روایت کے مطابق آپ کا ارشاد ہے :تحروالیلۃ القدرفی الوترمن العشرالاواخر من رمضان ۔ یعنی شب قدرکو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ اگرآخری عشرے کی طاق راتوں (۲۱۔ ۲۳۔ ۲۵۔ ۲۷۔ ۲۹) کومرادلیاجائے اور شب قدرکوان راتوں میں دائراور ہررمضان میں منتقل ہونے والا قراردیاجائے تو توایسی صورت تمام احادیث صحیحہ جوتعین شب قدرکے متعلق آئی ہیں جمع ہوجاتی ہیں ۔ اسی لیے اکثرائمہ فقہانے اس کو عشرہ اخیرہ میں منتقل ہونے والی رات قراردیاہے۔
ایک مقولہ ہے ’’مَنْ جَدَّ وَجَدَ ‘‘جس نے کوشش کی اس نے حاصل کرلیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگرانسان محنت لگن اور یکسوئی کے ساتھ کوئی کام کرے تووہ اس کے بہترانجام کو پالیتا ہے ۔ انسان کی کوشش اسے حصول اہداف کے قریب لے آتی ہے ۔ ایسے میں اتنی اہم ترین شب کی اگرکوئی قدرنہ کرے اور یونہی غفلت میں گزاردے تواس کے لیے پھرکوئی شب قدرنہیں اور وہ بڑاہی محروم ہوگا جواللہ تعالی کے اس عطیے سے لاپرواہے۔ ایک حدیث کے مطابق جوشخص شب قدرکی خیروبرکت سے محروم رہا وہ بالکل ہی محروم اور بدنصیب ہے۔
Comments are closed.