جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

ڈاکٹر سلیم خان

قرآن حکیم میں بنی اسرائیل کا ایک دلچسپ واقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے‘‘کیا آپ نے ( حضرت ) موسیٰ کے بعد والی بنی اسرائیل کی جماعت کو نہیں دیکھا جب کہ انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجئے تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں’’ ۔ ظاہر بات ہے کہ یہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد اور حضرت عیسیٰ ؑ کی بعثت کے درمیان کا زمانہ ہے جبکہ بنی اسرا ئیل اسی طرح کے حالات سے دوچار تھے جیسےآج صہیونیوں نے فلسطینیوں کی حالت کررکھی ہے۔ بنی اسرائیل کے درمیان موجود سموئیل نبی بہت بوڑھے ہوچکے مگر اپنی قوم کی رگ رگ سے واقف تھے اس لیے ‘‘ پیغمبر نے کہا کہ ممکن ہے جہاد فرض ہو جانے کے بعد تم جہاد نہ کرو ’’۔ اپنے نبی کا اندیشہ سن کر ‘‘ انہوں نے کہا بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کر دیئے گئے ہیں’’ ۔ اس یقین دہانی کے باوجود ‘‘ پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سوائے تھوڑے سے لوگوں کے سب پھر گئے اور اللہ تعالٰی ظالموں کو خوب جانتا ہے ’’۔ بنی اسرائیل کےاس مطالبے پر بائبل سے حضرت سموئیل ؑ کا بیان صاحب تفہیم القرآن نے ان الفاظ میں رقم کیا ہے:

” سموئیل نے ان لوگوں کو، جو اس سے بادشاہ کے طالب تھے، خداوند کی سب باتیں کہہ سُنائیں اور اس نے کہا کہ جو بادشاہ تم پر سلطنت کرے گا، اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ وہ تمہارے بیٹوں کو لے کر اپنے رتھوں کے لیے اور اپنے رسالے میں نوکر رکھے گا اور وہ اس کے رتھوں کے آگے دَوڑیں گے اور وہ ان کو ہزار ہزار کے سردار اور پچاس پچاس کے جمعدار بنائے گا اور بعض سے ہل جتوائے گا اور فصل کٹوائے گا اور اپنے لیے جنگ کے ہتھیار اوررتھوں کے ساز بنوائیگا اورتمہاری بیٹیوں کو گُندھن اور باورچن اور نان پُز بنائے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں اور زیتون کے باغوں کو ، جو اچھے سے اچھے ہوں گے، لے کر اپنے خدمت گاروں کو عطا کرے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں کا دسواں حصّہ لے کر اپنے خواجوں اور خادموں کو دے گا اور تمہارے نوکر چاکر اور لونڈیوں اور تمہارے شکیل جوانوں اور تمہارے گدھوں کو لے کر اپنے کام پر لگائے گا اور وہ تمہاری بھیڑ بکریوں کا بھی دسواں حصّہ لے گا۔ سو تم اس کے غلام بن جا ؤ گے اور تم اُس دن اس بادشاہ کے سبب سے، جسے تم نے اپنے لیے چُنا ہوگا فریاد کرو گے، پر اس دن خدا وند تم کو جواب نہ دے گا۔ ’’ (باب ۷ آیت ۱۵ تا باب ۸ آیت ۲۲)۔

تین ہزار سال قبل لوگوں کے حاشیۂ خیال میں جمہوری نظام سیاسی نہیں تھا ورنہ بعید نہیں کہ بنی اسرائیل انتخاب کا اہتمام کرکے اس کے نتائج سے اپنے نبی کو آگاہ کردیتے لیکن سموئیل نبی کے ذریعہ بادشاہوں کی بیان کردہ کوئی ایک بھی ایسی صفت نہیں ہے جو عصرِ حاضر جمہوری حکمرانوں میں پائی نہ جاتی ہو ۔ اس سے پتہ چلتا ہےکہ طریقۂ تقرر ثانوی ہے اور حکمراں کی بے دینی یادینداری بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ وہ اگر الہامی تعلیمات کا پابند ہے تو طالوت کی مانندکم قوت ہونے کے باوجود ظلم و جبر کا خاتمہ کردیتا ہے ورنہ جالوت کی طرح عدل و انصاف کو پامال کرتے ہوئے اپنے لاؤلشکر سمیت شکست وریخت سے دوچار ہوجاتاہے ۔چہار جانب پھیلے ہوئےجالوت صفت حکمرانوں کی بابت ارشادِ ربانی ہے ‘‘انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے ، جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں ، اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار خدا کو گواہ ٹھیراتا ہے ، مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن حق ہوتا ہے جب اسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے ، تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہو تی ہے کہ فساد پھیلائے ، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے ۔ حالانکہ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا’’(البقرہ:۲۰۴تا۲۰۵)۔ اس بات کو علامہ اقبال نے کیا خوب بیان کیا ہے ؎

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

Comments are closed.