سانحہ مظفرپور : ستر سے زائد بچوں کی موت کا ذمہ دار کون؟

عارف حسین طیبی
گذشتہ پندرہ دنوں سے بہار کے مظفر پور میں ستر سے زائد بچوں کی موت کی خبریں آرہی ہیں موت کی وجہ دماغی بخار بتایا جارہا ہے اب تک میڈیا رپورٹ کے مطابق گذشتہ پندرہ دنوں میں ستر سے زائد پچوں کی موت ہوچکی ہے دو سو سے زائد بچے اسپتال میں ایڈمٹ ہیں ان میں سے کئی بچوں کی حالت نازک بتائی جارہی ہے لیکن ہر طرف سناٹا ہے اپوزیشن پوری طرح خاموشی کی دبیز چادر اوڑھے سکون کی نیند سورہا ہے الکٹرونک میڈیا کی پوری ٹیم مغربی بنگال کی سرزمیں میں اپنے قبضہ جمائے ہوئے ہیں وہاں بی جے پی کی سرکار جب تک بن نہیں جاتی تب تک مغربی بنگال کی دھرتی سے انکا کہیں اور جانے کا بالکل ارادہ نہیں ہے الکٹرونک میڈیا مغربی بنگال میں ڈاکٹروں کے ہڑتال پر ڈیبیٹ تو کر رہی ہے لیکن مظفر پور میں ستر سے زائد بچوں کی موت پر بالکل خاموش ہے میڈیا کا یہ دوہرا معیار یقینا شرمناک ہے کسی بھی نیشنل چینل پر ابھی تک سانحہ مظفر پور پر بحث نہیں ہوئی ہے کہ حکومتی اہلکاروں سے سوال پوچھے جائیں آخر اتنے بچوں کی موت کا ذمہ دار کسے ٹھرایا جائے
آج میڈیا صرف یک طرفہ نظریات کو فروغ دے رہی ہے جو جمہوریت کی بقا اور سالمیت کے لئے سب سے خطر ناک ہے آج عوامی مسائل کو حل کرنے کے بجائے جمہوری قاعدے سے منتخب وزراء مغربی بنگال کی سیاست میں اپنی دلچسپی کا سامان ڈھونڈ رہے ہیں ملک میں کیا ہورہا ہے انہیں اس بات سے کوئی مطلب نہیں کیوں کہ عوام نے جس طرح کی اکثریت سے انکو نوازا ہے ان میں نزاکت اور کبر کی امیزش عام سی بات ہے وہیں دوسری طرف مظفر پور اور اطراف و اکناف کے
عوام اس اچانک بچوں پر آنے والی مصیبتوں سے گھبرائی ہوئی ہے کوئی کسی کا پرسان حال نہیں بہار کے ہر ضلعوں میں موسم گرما کی وجہ مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے لیکن اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی اور ناقص نظم و نسق صاف نظر آتا ہے عوامی نمائندے جو حالیہ الیکشن میں کامیاب ہوئے ہیں وہ زمین پر کہیں نظر آرہے ہیں آخر مظلوم اور مقہور عوام اپنی بد حالی اور بے بسی کس سے شیئر کرے کوئی بھی سننے والا نہیں
لوک سبھا الیکشن کے سبھاؤں میں پردھان منتری کے ذریعہ دئیے گئے اس بیان کو یاد کیجئے جسمیں انہوں نے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ آپ امیدوار کو مت دیکھئے کون ہے اور کہاں سے آیا ہے بس آپ کمل کے بٹن کو دبائیے سیدھا ووٹ مجھے ملے گا اور ایک مضبوط سرکار بنانے میں ہماری مدد کیجئے تاکہ ملک کی تحفظ اور معاشی اور اقتصادی حالات کو سدھار نے کے لئے ہمیں جو فیصلہ لینا ہو اسمیں ہم آزادانہ طور پر کچھ کرسکیں یقینا وزیر اعظم کی اس بات کی تائید میں ملک کے عوام نے بڑی دلچسپی دکھائی اور بھاری اکثریت ساتھ انکے امیدواروں کو کامیابی سے ہمکنار کیا بڑے جاندار اور شاندار طریقے سے حکومت پر قابض ہونی والی بی جے پی اقتدار کے نشے میں اس بات کو بھول گئی کہ انکے اوپر کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں آج مظفر پور جس اندوناک اور اضظرابی حالات کا شکار ہے اور جس طرح حکومتی اداروں کی عدم توجہی کے باعث اموات کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے آج حالت یہ ہوگئی ہے کہ ایک دن میں بیس سے زائد بچوں کی موت ہوجاتی ہے لیکن کہیں ہنگامہ اور شور تک نہیں ہوتا اور بڑی بے دردری سے ماؤں کے گودوں کو سونی کی جارہی ہے لیکن ایک مضبوط سرکار بے بس اور لاچار نظر آتی ہے مصیبت کی اس گھڑی میں بہار سرکار کا بھی اسٹینڈ عوامی حلقوں میں غیر ذمہ دارانہ اور مشکوک رہا ہے ایسا لگتا ہے پورا سسٹم مفلوج ہو چکا ہے سیاسی اور حکومتی وعدے حقیقت کی زمیں پر دم توڑتی نظر آتی ہے عوام کو مکرو فریب کی خوشنما اور شاندار وعدوں کے مایا جال میں بڑی چالاکی سے الجھایا جارہا ہے امیدوں کی جگہ صرف پچتاوا ہے بے بسی ہے لاچاری ہے موت کی آغوش میں چلے جانے والے بچوں کا پھول سا چہرہ ہے جو اب مرجھا چکا ہے اور ان بچوں کے یادوں کی کرب انکے والدین کو سونے نہیں دیتا ہے آخر اس طرح کے اضطرابی صورت حال کا ذمہ دار کون ہے آخر کب تک معصوم بچے موت کی آغوش میں سماتے رہیں گے وقت رہتے اگر بہتر اقدام کئے جاتے تو اس ہنگامی صورت حال پر بآسانی قابو پایا جاسکتا تھا لیکن ہمارے ملک میں موت کے بعد دوا کی تلاش کی جاتی ہے
اس اضطرابی کیفیت کے لئے بہار اور مرکزی حکومت دونوں برابر کے شریک ہیں ایک طرف بہار کے وزیر صحت اس بات کو کہتے نہیں تھکتے کہ بہار میں گذشتہ کئی سالوں سے دماغی بخار کے تئیں عوام میں بیداری مہم چلائی جارہی ہے پھر سوال اٹھتا ہے کہ عوامی بیداری کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں بچوں کے اموات کیوں ہوئیں سرکار کے پاس اسکا کیا جواب عوام کو انہیں بتانا چاہئے
جب ایک میڈیا اہلکار بہار کے وزیر صحت سے سوال پوچھتے ہیں کہ منتری جی ستر سے زائد بچوں کی موت ہوچکی ہے آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ استعفی دے دینا چاہئے منتری جی جواب دیتے ہیں استعفی کی ضروت نہیں ہم اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں کاش منتری جی اپنی ذمہ داری نبھاتے تو ستر سے زائد ماؤں کی گود سونی نہیں ہوتی آج مظفر پور کی حالت یہ کہ اسپتال میں مریضوں کو رکھنے کی جگہ نہیں ہے لوگوں میں گھبراہٹ اور افراتفری کا ماحول پسرا ہے بچوں کی موت سے اسپتال کی درو دیوار سے ماؤں کی چیخنے کی آواز سنکر ہر آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں
اسپتال کے نام سے لوگوں میں خوف اور بے سکونی غالب آجاتی ہے ادھر بڑی بڑی باتیں کرنے والی ریاستی سرکار 2020 کے الیکشن کی تیاری میں مصروف ہے اور جنکے پاس کام نہیں ہے وہ مغربی بنگال کے سرکار پر سیاسی تیقید و تنقیص میں اپنا وقت ضائع کرتے نظر آتے ہیں ستر سے زائد اموات کی کسی کو فکر نہیں سیاسی داؤ پیچ کے درمیان عوام کا جانی اور مالی خسارہ صاف نظر آتا ہے جہاں ایک طرف وزیر صحت ڈاکٹروں کو بہتر علاج کی صلاح دیتے نظر آتے ہیں تو وہیں دوسری طرف اسی دن سڑک پر ایمبولینس کو روک کر وزیر صحت کی گاڑیوں کے قافلے کو ہری جھنڈی دکھائی جاتی ہے یہ ہندوستان ہے یہاں قول و عمل میں صاف فرق عام سی بات ہے کاش منتری جی اپنا قافلہ روک کر ایمبولینس کو جانے کا اشارہ کرکے لوگوں کے لئے ایک مثال قائم کرتے تو ہمیں لگتا کہ یقینا اب ملک میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہوگیا لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ہے آج ملک میں ضرورت ہے حفظان صحت کے شعبہ میں بہتر اور نمایا کارکردگی کی تاکہ پھر اس طرح بے وجہ بچوں کی موت کے کربناک منظر سے ملک روبرو نہ ہو
Comments are closed.