Baseerat Online News Portal

شاہ عبداللہ اور امام مرسی؛ دو کردار دو انجام

محی الدین غازی

 

دیکھنے والوں کے لئے تاریخ میں عبرت کے بہت سے مقامات ہیں، اور واقعہ یہ ہے کہ حکمرانوں کی تاریخ عام انسانوں کی تاریخ سے زیادہ عبرت ناک اور سبق آموز ہوتی ہے۔

 

سترہ جون سنہ 2012 کا دن مصر کی تاریخ کا بہت اہم دن تھا، اس دن مصر کی تاریخ میں پہلی بار صاف وشفاف انتخابات کے نتائج سامنے آئے، اور امام محمد مرسی مصر کے پہلے منتخب صدر قرار دئے گئے۔ امام مرسی نے منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے جولائی کے دوسرے ہفتے میں ہی سرزمین حرم کا رخ کیا۔ اس سفر میں انہوں نے سعودی عرب کے شاہ عبداللہ سے ملاقات بھی کی۔ اس وقت مصر کے مالی حالات بہت خراب تھے، لیکن اس ملاقات میں انہوں نے مالی مدد کی بھیک کے لئے دامن نہیں پھیلایا، بلکہ مل جل کر ایک طاقت ور اسلامی بلاک قائم کرنے کی بات کی۔ امام مرسی اس کے بعد اگست کے اواخر میں ایران گئے، اور طہران میں منعقد ناوابستہ ممالک کی چوٹی کانفرس میں خلفاء راشدین کا ذکر خیر کیا، اور شامی حکومت کے ظلم پر سخت تنقید کی، جس پر شام کے وفد نے کانفرس سے واک آؤٹ کردیا۔ ایران کے ایک ٹی وی چینل نے خلفاء راشدین کا ذکر کو حذف کردیا اور شام کی جگہ بحرین کردیا، جس پر دنیا بھر میں ایران پر سخت تنقید ہوئی۔

 

امام مرسی سعودی عرب کے ساتھ مل کر امت کے عروج کی راہیں ہموار کرنا چاہتے تھے، لیکن شاہ عبداللہ نے تو ایک خطرناک شیطانی کھیل کھیلنے کی ٹھانی ہوئی تھی، ان کے اوپر یہ خبط سوار تھا کہ عالم عرب میں آئی ہوئی بہار کو ہر قیمت پر خزاں میں بدل دیا جائے۔ چنانچہ ایک بہت بڑی سازش رچی گئی، اور شاہ عبداللہ، محمد بن زاید، مصری فوج کے جرنیل، اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی (موساد) اور ان کے بہت سے مذہبی اور لبرل ایجنٹ عناصر نے مل کر ایک سال کے اختتام پر امام مرسی کی حکومت کے خلاف بغاوت کرادی، اور خیر وبھلائی کے اس پھول کو کھلنے سے پہلے ہی مسل ڈالا۔

اس بغاوت کے خلاف ہزاروں جیالے رابعہ کے میدان میں پرامن احتجاج کرنے بیٹھ گئے، وہ چالیس دن تک پرامن احتجاج کی عظیم ترین مثال پیش کرتے رہے، اور خود کو مہذب سمجھنے والی دنیا کے اجتماعی ضمیر پر کچوکے لگاتے رہے، مگر دنیا کا ضمیر سوتا بنا رہا۔ آخرکار باغی حکومت کے حوصلے بڑھے، اور چودہ اگست سنہ 2013 کا وہ سیاہ دن بھی دنیا نے دیکھا جب ان نہتے مسلمانوں کے خلاف اس دور کی بدترین فوجی کارروائی کی گئی، اس کارروائی میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے، سینکڑوں نہتے مردوں اور عورتوں کو نذر آتش کردیا گیا، اور اس کے ساتھ ہی اسلام کے ہزاروں متوالوں کو جیلوں میں بھردیا گیا۔ امام مرسی کے ساتھ ملک کے بڑے بڑے سینکڑوں علماء کرام اور ہزاروں دین پسند نوجوان مرد اور عورتیں جھوٹے مقدمات، فرضی عدالتی کارروائیوں اور سخت ترین تعذیب کا نشانہ بنائے گئے، اور اس طرح چھ سال گزر گئے۔

اللہ کی مشیت دیکھیں، کہ میدان رابعہ کے قتل عام کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور تیئیس جنوری سنہ 2015 کو شاہ عبداللہ کی موت کی خبر کا اعلان ہوگیا۔ جس طرح کبھی ظالم حجاج کے مرنے پر امت کے صالحین نے ألا لعنۃ اللہ علی الظالمین (سنو اللہ کی لعنت ظالموں پر ہے) پڑھا تھا، شاہ عبداللہ کے مرنے پر بھی دنیا بھر میں اہل اسلام نے یہ جملہ دوہرایا۔

ظالموں پر اللہ کی لعنت تو یقینی حقیقت ہے۔ اور اس کا کبھی کبھی دنیا میں اظہار بھی ہوتا رہتا ہے۔ شاہ عبداللہ کے بیٹے اپنے باپ کے ساتھ جس طرح کار حکمرانی میں شریک تھے، اسی طرح ظلم وخوں ریزی کے منصوبوں میں بھی ان کے ساتھ شریک تھے، خاص طور سے ان کا بیٹا متعب بن عبداللہ جو اس وقت سعودی عرب کی قومی افواج کا سربراہ تھا سب سے پیش پیش تھا، وہ اس وقت کا محمد بن سلمان تھا۔ پھر جب زمین پر اللہ کی عدالت کا ظہور ہوا، تو دنیا نے دم بخود ہوکر دیکھا کہ سنہ 2017 میں متعب سمیت چار بھائیوں کو ان کے چچا زاد بھائی محمد بن سلمان نے ایک ہوٹل میں مالی بدعنوانی کا الزام لگا کر نظر بند کردیا، اور ہفتوں بند رکھا۔ یہاں تک کہ انہیں دس بلین ڈالر کے اثاثوں کے عوض وہاں سے رہائی ملی۔ متعب اور اس کے بھائیوں نے مل کر اتنی خطیر رقم کے اثاثے بن سلمان کے حوالے کردئے۔ شاہ عبداللہ کے ایک بیٹے عبدالعزیز نے جو باپ کے زمانے میں نائب وزیر خارجہ تھا علاج کے بہانے ملک سے فرار ہوکر فرانس میں سیاسی پناہ لی۔ متعب اور اس کے سب بھائیوں کو تمام عہدوں سے معزول کردیا گیا، اور ان کی نقل وحرکت پر پابندیاں عائد کردی گئیں۔

 

غرض یہ کہ 2013 میں شاہ عبداللہ اور اس کے بیٹے مل کر عالم اسلام میں تباہی کا سامان کررہے تھے، مگر 2017 تک محض چار سال کے اندر ان شہزادوں کی یہ حالت ہوگئی کہ سارا غرور خاک میں مل گیا، اور اپنے ہی ملک میں جہاں عوام وخواص دن رات ان کی بڑائی کے گن گاتے تھے، ذلیل قیدی بن کر رہ گئے، ملک کے میڈیا میں ان کا ذکر مالی بدعنوانیوں کے حوالے سے کیا جانے لگا۔ ان شہزادوں کی حالت زار اب یہ ہے کہ سعودی عرب میں کسی کی ہمت نہیں ہوتی ہے کہ ان کی ہم دردی میں دو لفظ بول دے۔ سعودی عرب کے درباری علماء نے بھی اپنی عادت کے مطابق شاہ عبداللہ اور اس کے بیٹوں کو چھوڑ کر شاہ سلمان اور محمد بن سلمان کی پرستش شروع کردی، کیوں کہ وہ ہمیشہ زندوں کی پوجا کرتے ہیں، مردوں سے انہوں کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے۔

 

واقعہ یہ ہے کہ اس وقت شاہ عبداللہ کی ساری اولاد پر جتنا برا وقت آیا ہے، سعودی شاہوں میں سے کسی کی اولاد پر ایسا برا وقت نہیں آیا۔ یہ واضح طور پر اللہ کی عدالت کا ظہور ہے، میدان رابعہ کے قتل عام پر صرف چار سال گزرے اور دنیا نے اس کے کچھ ذمہ داروں کا عبرت ناک انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ شاہ عبداللہ نے دنیا بھر کے ڈکٹیٹروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے امت کو ڈکٹیٹر شپ کی طرف ڈھکیلا، اور آج ان کے بیٹے ڈکٹیٹر شپ کا سب سے زیادہ شکار ہے، اور دنیا کا کوئی ڈکٹیٹر ان کے حق میں دو لفظ بولنے کا روادار نہیں ہے۔

 

عبرت کے لئے یہ اشارہ کافی ہے کہ ذرائع کے مطابق شاہ عبداللہ اور ان کے بیٹوں نے مصری افواج کو دس بلین ڈالر دے کر مصر کی آزادی کا سودا کرایا تھا اور وہاں اسلام پسندوں کا بے دردی سے قتل عام کرایا تھا، اور پھر شاہ عبداللہ کے بیٹوں کو اپنی جاں بخشی کے لئے بھی دس بلین ڈالر دینے پڑے، جس کے بعد جاں بخشی تو ہوگئی مگر غلامی اور رسوائی ان پر بری طرح مسلط ہوگئی۔

 

عبرت کی بات یہ بھی ہے کہ شاہ عبداللہ کی اولاد کو نمونہ عبرت بنانے کے لئے مشیت ایزدی نے محمد بن سلمان کو استعمال کیا۔ لیکن محمد بن سلمان کو خود اس بات کا احساس نہیں ہورہا ہے، اور وہ بھی صہیونی طاقتوں کی طرف سے بخشے گئے اقتدار کے نشے میں بدمست ہوکر اسی انجام کی طرف کشاں کشاں بڑھا جارہا ہے۔

 

دوسری طرف امام مرسی پر اللہ کی رحمتوں کا مشاہدہ کریں، اللہ نے امام مرسی کو اپنی راہ میں قید وبند کے سخت امتحان سے گزرنے کا حوصلہ دیا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ چھ سال جیل کے عقوبت خانوں میں صبروشکر کے ساتھ دن دن بھر اور رات رات بھر اللہ کے ذکر، اس کی کتاب کی تلاوت اور اس کی عبادت میں مصروف رہے، اور اس طرح قرب الہی کے درجات طے کرتے رہے۔ پھر ان کی وفات اس شان کے ساتھ ہوئی کہ پوری امت نے انہیں شہید کہ کر پکارا، صالحین نے ان کی صالحیت کے گن گائے، اور ان کی عظمت پر تمام امت نے اتفاق کا اظہار کیا۔ انہیں بدنام کرنے کے لئے جھوٹ کے جتنے جالے بنے گئے تھے وہ سب یکایک غائب ہوگئے۔

 

سب سے خاص بات یہ ہے کہ ان کی غائبانہ نماز جنازہ پوری دنیا میں بار بار نہیں ہزاروں بار پڑھی گئی۔ امام احمد بن حنبل کہتے تھے کہ ہمارے اور ظالموں کے درمیان جنازے کے دن فیصلہ ہوا کرے گا۔ بلاشبہ امام مرسی کا جنازہ اسلامی تاریخ میں سب سے چھوٹے جنازوں میں شمار کیا جائے گا، کیوں کہ ظالموں نے مسلمانوں کو ان کی نماز جنازہ پڑھنے نہیں دی۔ لیکن اسلامی تاریخ میں سب سے بڑے پیمانے پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھے جانے کا اعزاز اللہ تعالی نے امام مرسی کے نصیب میں رکھا۔ خاص بات یہ ہے کہ حنفی اور مالکی مسلکوں میں غائبانہ نماز جنازہ نہیں ہے، پھر بھی تمام مسلمانوں کے ساتھ دنیا بھر کے کروڑوں حنفیوں اور مالکیوں نے بلا تردد ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ سوچتا ہوں امام ابوحنیفہ اور امام مالک کی روحیں مسرور ومطمئن ہوں گی کہ امام مرسی کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرنے کی راہ میں ان کا مسلک رکاوٹ نہیں بنا۔

 

امام مرسی کے اوپر ہونے والے ظلم وجبر پر پوری امت نے بے پناہ غم وغصے کا اظہار کیا۔ ہر ملک اور ہر مسلک کے لوگوں نے یک زبان ہوکر ظلم کی مذمت کی۔ سوشل میڈیا کی ساری دیواریں امام مرسی کی نورانی تصویروں اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے والی تحریروں سے رنگین ہوگئیں۔ اس دور میں پوری امت کی ایسی بے پناہ محبت شاید ہی کسی کے حصے میں آئی ہو۔

 

امام مرسی کی وفات پر ساری امت سوگوار ہے، لیکن سب سے زیادہ حسرت وغم کی کیفیت حرمین کی دیواروں پر چھائی ہے۔ حرمین کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے وہاں دور حاضر کے نہ جانے کتنے ظالم طاغوتوں کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی گئی ہے۔ راقم خود ایسی کئی نمازوں میں بادل ناخواستہ شریک ہوا، اور ظالموں کے لئے لعنت اور مظلوموں کے لئے نصرت کی دعا کرکے دل کو تسلی دی۔ جب کہ امام مرسی کی سب سے پہلی غائبانہ نماز جنازہ اسرائیل کے زیر تسلط مسجد اقصی میں ادا کی گئی، لیکن حرمین کو اس شرف سے یکسر محروم رکھا گیا۔ اس پر کسی نے بجا طور پر تبصرہ کیا کہ امت اسی سے اندازہ کرلے کہ صہیونیت کا تسلط حقیقت میں سب سے زیادہ کہاں ہے۔ خیر ظالموں کی رسوائی کے لئے یہ خبر کافی ہے کہ حرمین میں بھی لاتعداد اہل اسلام نے انفرادی طور پر امام مرسی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔

 

یہ تو دنیا میں عدالت الہی کی کچھ جھلکیاں ہیں، ابھی آخرت کی عدالت کے روبرو ہونا باقی ہے۔ اس دنیا میں ہونے والا ظلم کا ہر واقعہ آخرت کی عدالت کے یقینی ہونے کی گواہی دیتا ہے۔

Comments are closed.