جہاد ہمارا دھندہ نہیں

مدثراحمد
ایڈیٹر،روزنامہ آج کاانقلاب ،شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327
دو مہینوں میں 5 اموات،ایک درجن سے زائد حملے ۔یہ حملے ہوئے ہیں مسلمانوں پر ، حملوں کی وجہ نہ تو مسلمانوں نے کسی کو حراساں کیا ہےنہ ہی کسی پر حملہ کیا ہے۔ جتنے حملے ہوئے ہیں وہ سب حملے رام کے نام پراورگائے کے نام پر کئےجانے والے حملے ہیں۔ان حملوں والے لوگ نہ کسی دہشت گردتنظیم سے تعلق تھا نہ ہی یہ لوگ کبھی بھی کسی کو حراساں کرنے میں آگے رہے ہیں مگر انہیں جس طرح سے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے وہ انسانیت کیلئے شرم کی بات ہے، ہندوستان کے آئین میں جہاں ہر کسی کے مذہب ، ذات، جان ، مال، آزادی کے تحفظ کا دعویٰ کیا گیا ہے اسی آئین کے برخلاف مسلمانوں کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ رکن پارلیمان اعظم خان نے پارلیمان میں اپنی تقریر کے دوران ہندوستان کے ماضی ، حال مستقبل کے تعلق سے جو بیان دیا ہے وہ قابل ستائش ہے ، اعظم خان نے واضح الفاظ میں کہا کہ یہ ملک چمن ہے اس چمن کے پھولوں کی جتنی حفاظت کی جارہی ہے اتنی ہی حفاظت چمن کے کانٹوں کی بھی کی جائےکیونکہ جب تک کانٹے اورپھول مل کر نہیں رہیں گے وہ چمن نہیں کہلائے گا۔ اعظم خان نے ملک میں مسلمانوں پر ہورہے تشدد کی بھی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کی دوسری سب سے بڑی اقلیت کو اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہے اوردھرم کے نام پر مسلمانوں کا قتل کیا جارہا ہے۔ اعظم خان کا یہ بیان پارلیمان کے بے حس زیر اقتدار حکمرانوں کیلئے شرمندہ کرنے والا بیان رہا لیکن پارلیمان کے باہر بیٹھے ہوئے ہم مسلمانوں کے قائدین کیلئے بھی ماب لنچنگ یعنی گروہی تشدد کے تعلق سے بھی کچھ سوالات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیونکہ مسلم تنظیمیں جماعتیں قائدین رہبر اورسیاستدان مسلمانوں پر ہورہے تشدد کے خلاف آواز اٹھانے سے گریز کررہے ہیں؟ ۔سوال یہ کہ جس وقت مسلمان گروہی تشدد رام کے نام، لوجہاد کے نام، گائے نام، داڑھی کے نام پر قتل کئے جارہے ہیں کیا اس وقت ہماری ملی وسماجی تنظیمیں عید ملن پارٹیاں، عید ملن مشاعرہ، عید ملن جلسے، یکجہتی کے جلسے، اتحاد بین المذاہبین کے جلسے منعقد کرتے ہوئے مرحومین کی موت کا مذاق کا تو نہیں اڑارہے ہیں ؟۔سوال یہ ہے کہ کیا آج بھی ہمارے قائدین کو یہ یقین ہے کہ عید ملن پارٹیوں کا انعقاد کرتے ہوئے ہم دوسرے مذاہب کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے ہمارے نوجوانوں کو تحفظ فراہم کرسکتے ہیں ؟ ۔ ہمارے عید ملن ، قومی یکجہتی پروگراموں میں وہی لوگ شرکت کررہے ہیں جو ہرسال بریانی ومصالے دار پکوان کھانے کا شوق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ان جلسوں سے باہر نکل کر اپنوں میں امن کا پیغام پھیلانے کے بجائے اپنوں میں کھانے کی تعریفیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اورانکے اپنے ہی مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں۔ ہم نے امن کے پیغام کو عام کرنے کیلئے کیا کیا نہیں کیا، دعوتیں دیں، قرآن بانٹا، امن کے پیغامات بانٹیں، افطار پارٹیاں دیں، عید ملن پارٹیوں کا انعقاد کیا۔ ہر طرح کے حربے اپنائے لیکن جو سپولے تھے وہ اب سانپ بن گئے ہیں۔ کانگریس کے لیڈروں کو بھی ان یکجہتی پروگراموں میں مدعو کیا تھا انہیںبھی چلا چلا کرہم نے کہا کہ ہمارا مذہب پاک ہے ۔ ہم امن چاہتے ہیں ، ہم کسی پر حملے کرنے والوں میں سے نہیں ہیں لیکن یہ سپولے اب سانپ بن کر ہمیں ہی ڈسنے لگے ہیں ۔ نرم ہندوتوا رویہ اختیا رکرتے ہوئے کانگریسوں نے مسلمانوں کی جان کی قیمت کا اندازہ لگانا بھی گنوارہ نہیں سمجھا۔ دوسری جانب ہماری ملی تنظیمیں اس قدر بے حس ہوچکی ہیں کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو پھر ایک مرتبہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے متحد کرنے کے بجائے اپنے آپ میں مگن ہوچکے ہیں ۔ جب جنگ آزادی کی روداد پڑی جاتی ہے تو حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا وہ فتوی یاد آتا ہے جس میں حضرت مولانا سید بریلوی، مولانا اسماعیل شہد، حضرت شاہ ولی اللہ جیسی عظیم شخصیتوں نے انگلینڈ کی مضبوط حکومت کو مات دے کر ہندوستان سے باہر نکالنے کیلئے اپنی جانیں قربان کی تھیں ۔ مگر آج انہیں کے مقلدین حکمت حکمت کے نام پر مسلمانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ اگر اب بھی ہمارے قائدین حکمت کا دامن چھوڑ کر طاقت وشجاعت کو اپنانے کیلئے مسلمانوں کے درمیان اعلان نہیں کرتے ہیں تو ایسے ہی بے گناہ مسلمان جام شہادت نوش کرتے رہیں گے۔ ہماری ملی تنظیمیں آج اس حدتک محدود ہوچکی ہیں کہ سال میںایک مرتبہ عید ملن منعقد کرلیں، سیلاب آئے تو چندہ اکھٹا کرکے متاثرین کو پہنچائیں، زلزلے آئیں تو سرازنوتعمیر کیلئے چندے وصول کریں، زیادہ سے زیادہ زکوۃ وفطروں کی رقم جمع کر غریب ومستحق بچوں میں اسکالرشپ تقسیم کردئے۔ بازآبادکاری کیلئےچندے جمانااور غریبوں میں اسکالرشپ تقسیم کرنا موجود وقت کی ضرورت نہیںبلکہ جن مسلمانوں کی جانیں جارہی ہیں ان مسلمانوں کےتحفظ کیلئے آواز اٹھانا وقت کی ضرورت ہے۔ اگر اب بھی اس ضرورت کو محسوس نہیں کرتے ہیں تو تنظیمیں کھلے عام اعلان کردیں کہ ہم تو بس چندے والے ہیں اور جہاد ہمارا دھندہ نہیں ہے۔ تو مسلمانوں خود بخود ظالموں کے سامنے سرجھکائیں گے اور ہم جیسے لکھاری موجودہ حالات پر لکھنے کے بجائے افسانہ نویسی اورشعر وشاعری کرکے اپنے جذبات کو بکھیر لیں گے۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.