اس چاکری کو آزری کیوں نہ کہوں؟

عمر فراہی
یااللہ ۔۔!
کچھ دن پہلے ہم نے فیس بک پر پوسٹ کئے گئے اپنے ایک مضمون میں زوال پزیر مسلم معاشرے کی اخلاقی صورتحال پر ایک تبصرہ کیا تھاجس کا عنوان ہے "بے غیرت اور بے شرم معاشرے کی تصویر ”
ویڈیو میں کچھ مسلم عورتیں لڑائی کرتے ہوۓ نظر آرہی ہیں ۔یہ ویڈیو پاکستان کی ایک خاتون جرنلسٹ نے شیئر کیا تھا ۔ہم نے یو ٹیوب پر سرچ کیا تو دیکھا کسی نے حیدرآباد چار مینار کے عنوان سے اپ لوڈ کیا ہے جس کا لنک بھی اسی مضمون میں موجود ہے۔ ہم نے بھی اسی عنوان سے مضمون کی شروعات کر دی جیسا کہ اسی مضمون میں بہار اور ممبئی کے چار واقعات کا تذکرہ بھی ہے لیکن تلنگانہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک شیر بہادر نے اسے ریاست حیدرآباد کے مسلمانوں کی توہینی تصور کرتے ہوۓ قانونی کاروائی کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ہم بھی ڈر گئے اور ڈرنا بھی چاہئے کیونکہ آجکل ریاستوں کا سائبر سیل بھی بہت ہی فعال ہے پتہ نہیں کب پولیس دروازے پر اچانک دھمک پڑے اور اصحاب قلم کی قلم چھین کر ہتکڑی پنہا دی جاۓ ۔خاص طور سے قلمکار یا کوئی سوشل کارکن ایک ضعیف اور پسماندہ قوم سے ہو تو چاہے وہ سنجیو بھٹ جیسا آئی ایس آفیسر ہی کیوں نہ ہو قانون کو حرکت میں آ ہی جاناہے ۔یوگی ادیتیہ ناتھ کی پولیس کو دیکھا بھی گیا کہ کس طرح اس نے پرشانت کنوجیا کو ایک عام سی ویڈیو شیئر کرنے کی وجہ سے چودہ دن کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا۔شکر ہے پرشانت کنوجیا کے خاندان کے پاس سپریم کورٹ جانے کی طاقت تھی ورنہ وہ ابھی تک جیل میں سڑ رہا ہوتا۔ بدقسمتی سے خالص مسلم امہ کی اصلاح کیلئے متحرک ایک اردو صحافی ایسے موقع پر حسبنااللہ و نعم الوکیل پر ہی صبر کر سکتاہے !
اتفاق سے ہماری اس پوسٹ کے دوسرے دن آندھرا سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے ایک ایم پی جی کشن ریڈی جو وزیر بھی ہو چکے ہیں نے کہا کہ ملک میں جہاں کہیں بھی دہشت گردانہ واقعات ہوتے ہیں اس کی جڑیں حیدرآباد میں پیوست ہوتی ہیں اور اس نے حیدرآباد کو دہشت گردوں کا اڈہ بتایا ۔اس بیان کے دوسرے دن بی جے پی کے ایک اور لیڈر ٹی راجہ سنگھ نے تو اسد الدین اویسی پر ہی الزام لگایا کہ وہ دہشت گردوں کی مالی مدد کرتے ہیں ۔اسدالدین اویسی نے اتنے سنگین الزامات کے باوجود ان دونوں لیڈران کے خلاف قانونی کاروائی کرنا تو دور کی بات اپنی اسٹائل کے برعکس انہیں ان کے عہدے کی مریادہ کا خیال رکھنے کی تلقین کی ۔باقی فیس بکی شیر بہادروں کی غیرت کب اور کیوں جاگتی ہے اور یہ کب شیر سے گیدڑ بن جاتے ہیں ہمیں پتہ ہے۔ بیشک اوروں کی طرح اردو مسلم قلمکار بھی مختلف سیاسی جماعتوں اور ارباب اقتدار کے خلاف طنز و تنقید کے لہجے میں بھی بات کرتا ہے لیکن کسی علاقائی عصبیت کے تحت کسی ملک اور ریاست کے عوام ,کسی مسلک اور عقیدے کی توہین کرنا اس کا پیشہ نہیں ۔ہاں ایک مسلمان کی حیثیت سے مسلمانوں کی اخلاقی پستی اور گراوٹ کے واقعات چاہے وہ ملک کے کسی بھی حصے میں ہوں مصنف اس کی تصویر دکھاتا ہے تاکہ قومی سطح پر دعوت و تبلیغ اور مسلمانوں کی اصلاح میں مصروف تنظیمیں اس طرف توجہ دیں ۔مسلم بستیوں میں وہ چاہے حیدرآباد ہو لکھنئو ہو یا ممبئی یا کوئی بھی مسلم علاقہ ایسے غیر اخلاقی واقعات کہیں پر بھی سرزرد ہو سکتے ہیں ۔ ان واقعات سے ہمیں بھی رنج ہوتا ہے ۔اس تکلیف کی وجہ ہماری اپنی بھی دینی غیرت اور حمیت ہےجو ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ لوگ جو دنیا کی امامت کیلئے پیدا کئے گئے ہیں وہ چاہے روۓ زمین کے کسی بھی خطے میں بستے ہوں ان کا اخلاق دنیا کی تمام قوموں پر غالب ہونا چاہئے ۔حال ہی میں علی گڑھ میں دو مسلم نوجوانوں نے معمولی رقم کی وجہ سے ایک ہندو خاندان کی دو سالہ معصوم بچی کا قتل کر دیا ۔اس کا تذکرہ ممبئی اردو نیوز کے ایڈیٹر شکیل رشید صاحب نے اپنے پچھلے سنڈے کے اداریے میں بھی کیا ہے کہ یہ کس قبیل کے مسلمان تھے ؟۔دراصل ان کو مسلمان کہنا بھی مسلمانوں کی توہین ہے ۔دوسرے سنڈے کو شکیل صاحب نے بنگلور کے مولانامنصور خان کے فراڈ پر روشنی ڈالی کہ ٹوپی والا منصور خان عوام کو ٹوپی پہنا کر چلا گیا ۔
ایک دوسری ویڈیو جو حیدرآباد کی ہی ہے اور اسے شکیل رشید صاحب نے اپنے ٹائم لائن پر شیئر کیا ہے جس میں ایک نوجوان ایک دوسرے نوجوان کو چاکو مار کر لہو لہان کر رہا ہے جو بعد میں شاید ہلاک بھی ہو گیا ۔معاملہ یہ تھا کہ ایک لڑکی نے مقتول سے محبت سے شادی کی تھی اور قاتل اس کا رشتہ دار تھا ۔کیا ایک مسلمان صحافی مسلمانوں میں بڑھ رہے اس عدم برداشت کی صورتحال کو نہ دکھاۓ یا اس پر بحث نہ ہو ؟
ایک سال پہلے ہمارا علی گڑھ جانا ہوا تو وہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ایک مشہور و معروف شخصیت سے ملاقات ہوئی جو لا کالج میں پروفیسر ہیں اور سماجی کاموں میں فعال بھی رہتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کی نئی نسل کی ناقابل اصلاح صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ ان پر تو اللہ کا عذاب آجانا چاہئے۔ ان کی بات سے اتفاق کرنا نہ کرنا اپنی جگہ مگر جو لوگ صرف تقریر و تحریر اور تقریبات سے ہٹ کر بھی عملاً اصلاح معاشرے کی جدو جہد میں مصروف ہیں انہیں ہماری حالت دیکھ کر دکھ تو ضرور ہوتاہے۔کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہمارے مسلم حکمرانوں اور اسلاف نے ہمارے ملک میں اگر کوئی تابناک ماضی نہ چھوڑا ہوتا تو ہمارے پاس قومیت کے نام پر فخر کرنے کیلئے کیا ہوتا ؟
اب آپ یہ ویڈیو بھی دیکھ لیں ۔اسے حیدرآباد کے ہمارے ایک دوست نے ایک جون کو ہی بھیج دیا تھا لیکن کچھ دیگر موضوعات کی وجہ سے اس پر تبصرہ نہ کرسکا ۔یہ شخص 30 مئی کو آندھراپردیش کی راجدھانی حیدرآباد میں جگن موہن ریڈی کی وزیراعلی کی حلفیہ تقریب میں جو دعائیہ الفاظ جس لہجے میں استعمال کر رہا ہے اس پر آخر تک دھیان دیں۔سیاسی دلالی کی بھی حد ہوتی ہے ؟ ۔کیا جمہوریت زدہ مسلمان اتنے بے غیرت ہو چکے ہیں کہ معمولی عہدے اور منصب کیلئے دینی شعار کا مزاق اڑائیں؟
کیا اقبال نے انھیں کیلئے کہا تھا کہ
بجلیاں جن میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے
ہم بہت زیادہ اس پر کوئی اپنا تبصرہ نہیں کریں گے ۔ لیکن اس کراۓ کے مولوی کو جسے مولوی کہنا بھی مولوی کی توہین ہے یقیناًجگن موہن ریڈی کے مسلمان لیڈران کی شہہ حاصل ہے تاکہ ان لیڈران کو اس دلالی ,چاکری اور چاپلوسی کے عوض خوبصورت عہدوں سے نوازا جاۓ ۔میر صادق از دکن اور جعفر از بنگال کے پاس بیچنے کیلئے اپنے آقاؤں کی ریاست تھی اب متحدہ قومیت کے علمبردار مسلمانوں کے پاس دین اور دستار بیچنے کے سوا بچا ہی کیا ہے !سمجھ میں نہیں آتا کہ کب تک یہ سب ہوتا رہے گا ؟کیا چاہتے ہیں ہم؟
اس وقت حاگنے سے کیا فائدہ جب انفرادی طور پر وقوع پزیر ہونے والا ہجومی تشدد کا فتنہ اجتماعی شکل اختیار کر لے گا۔۔!
Comments are closed.