ہندوستان کے بدلتے حالات: ایک جائزہ

تحریر۔۔ریاض الدین شفیق
موبائل نمبر۔۔۔9162090838
ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ملک ہے اس کے مضبوط ترین اقتصادیات اور بےمثال آئین کو دنیا کے لوگ بطور نمونہ پیش کرتے ہیں۔یہ ملک اپنی معاشیات سے بھی دیگر کئی ممالک کو مستفید ہونے کا موقع دیتا ہے اور ہر زمانہ میں عالمی سطح پر بھی اس کی مضبوط پکڑ رہی ہے۔ یہاں کے شہری دنیا کے ہر میدان میں طبع آزمائی کر کے اپنی قابلیت و لیاقت کا لوہا منواتے رہیں۔ اس ملک پر حالات جیسے بھی آئے ہو مگر یہ اپنی مخصوص نوعیت کی وجہ سے دیگر ملکوں سے امتیازی مقام رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔
لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے نو وارد ہونے والے واقعات و حادثات اس بات کا شدت سے احساس دلارہا ہے کہ اب اس ملک میں یقینی طور پر اقلیتوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ۔اس ملک میں اگر کسی کا قد باقی ہے اور اپنے جابرانہ تسلط سے اقلیت کو پسپا کرنے پر تلے ہوئے ہےتو وہ صرف اور صرف اکثریت ہے۔ چونکہ جس بے دردی انداز سے ان لوگوں نے سماج و معاشرہ میں اقلیت کے حقوق کو تار تار کر رکھےہے وہ نہایت ہی افسوس کی بات ہے۔اور دن بہ دن حالات ایسے پیدا کئے جارہے ہیں جو انسان اور انسانیت کیلئے نقصان دہ ہے۔ یہی وجہ ہےکہ ایک امن پسند ہندوستانی دوسرے ملک میں خود کو اب ہندوستانی کہتے شرم محسوس کرتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہےکہ تہذیب و تمدن کا وہ آپسی بھائ چارہ جو صدیوں سے ہندوستان کو ایک بےمثال ملک بنائے رکھا تھا وہ آہستہ آہستہ ملک الموت کی آہٹیں سن رہا ہے۔ اقلیت و اکثریت کا یہ بھید بھاؤ انسان کو ذہنی طور پر لاغر و کمزور بنارہا ہے اور اب سماج اچھائیوں سے دور ہٹکر خیر و شر کی تمیز محض اغلبیت کی بنا پر کر رہی ہے۔ اس کا مزید احساس اس وقت ہوتا ہے جب آپ کسی اکثریت والے علاقہ میں اسلامی لباس میں ملبوس ہوکر چند لمحے گزاریں اس وقت یقینا لوگوں کی نگاہیں آپ پر اس طرح پڑیں گی جس طرح شیر اپنے شکاری پر نظر بھیرتا ہے۔اوراگر آس پاس میں باطل کے خلاف آواز اٹھانے والے چند سکون پسند لوگ نہ ہو تو وہ فورا آپکو کسی غیر ملکی تنظیم سے جوڑ کر یا بھر کسی طرح کی افواہ کو ہوا دیکر بہت جلد لقمہ تر بنانے کیلئے تیار ہو جائیں گے۔ بہت ساری جگہوں پر نام نہاد لوگوں کے بیچ اقلیت کو خوف و ہراس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دہشت اس کے دلوں کو بالکل سراسیمہ کردیتی ہے ۔گھبراہٹ و بے چینی ان کے تلوار نما زبان کو گونگا بنا دیتی ہے۔حتی کہ اقلیت کو بعض دفعہ جسمانی اور ذہنی اذیت دی جاتی ہے ۔اس کشاکش کی کیفیت میں نہ تو وہ اپنی زندگی کا کوئ مقصد طئے کرپاتا ہے اور نہ ہی معاشرہ میں اس کی کوئی حیثیت باقی رہتی ہے۔۔۔
لہذا اگر ہم اقلیت ہیں اور اکثریت کے ہجوم میں سکونت پزیر ہیں یا بھر ہمارا رہنا سہنا اکثریت کے ساتھ ہوتا ہے تو ضروری ہےکہ ہر جگہ سوچ سمچھ کر قدم رکھیں،حالات کے مطابق کسی جگہ آنے جانے کا فیصلہ کریں، غیر قوم سے کبھی خیر کی امید نہ رکھیں۔ گرچہ کسی شخص سے اپنے بھائی سے زیادہ قربت کیوں نہ ہو ۔جہاں بھی جائیں پہلے نرمی اور بہترین اخلاق کا مظاہرہ کریں تاکہ ہمارے عمل سے برادران ملک متاثر ہو۔اور یاد رکھیں کبھی حالات آپ کیلئے بھلائ لیکر آتی ہے اور کبھی نقصان سہنا پڑتا ہے ۔آپ کو کبھی دو چار پتھر برداشت کرنا پڑسکتا ہے ۔اور اگر حالات مناسب ہو تو دس پتھر داغنے کا عزم ضرور رکھیں ۔۔۔
اور ہر حال میں اللہ پر بھرپور یقین و اعتماد رکھیں کیوں کہ وہی قوم کامیابی کی دہلیز تک جاتی ہے جس کا ارادہ نیک اور عزم و استقلال غیر متزلزل رہا ہو ۔۔۔۔۔اللہ ہمیں ان سب سچائیوں کو سمچھنے کی توفیق دے۔۔آمین
Comments are closed.