ہندوستان کی کھوج

عمر فراہی

طلاق ثلاثہ کے مسئلے کو لیکر سپریم کورٹ نے جب پارلیمنٹ کو آرڑیننس لانے کی ہدایت کی تواس کے خلاف ملک کے مختلف ریاستوں میں نقاب پوش مسلم خواتین نے زبردست احتجاج کیا مگر نہ تو اس احتجاج پر سپریم کورٹ نے کوئی نوٹس لیا اور نہ ہی موجودہ حکومت نے کوئی دباؤ محسوس کیا۔ اب وہی حکومت دوبارہ پارلیمنٹ میں اس بل کو پیش کرنے کیلئے بضد ہے ۔جمہوریت میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے لیکن کوئی بھی احتجاج اسی وقت کامیاب ہوتا ہے جب حکومت کو مظاہرین سے ان کی حکومت کیلئے کوئی خطرہ ہو ۔جہاں تک شاہ بانوں کے تعلق سے راجیو گاندھی کی حکومت میں کامیاب احتجاج کی مثال دی جاتی ہے تو اس وقت کانگریس یہ سمجھتی تھی کہ مسلمان اس کے ووٹ بینک ہیں اس لئے راجیو گاندھی کو جھکنا پڑا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ راجیو گاندھی نے ہندو ووٹروں کے توازن کو برقرار رکھنے کیلئے بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کے شیلانیاس کیلئے بھومی پوجن کروایا۔ ایک دلیل سکھوں کی بھی دی جاتی ہے کہ سکھ اپنے احتجاج سے اپنے مطالبات پورا کروا لیتے ہیں یا حکومت ان سے ڈرتی ہے لیکن کیا کبھی کسی نے یہ سوچاکہ حکومت سکھوں سے ڈرتی کیوں ہے ؟
کیا سکھ مسلمانوں سے زیادہ بہادر ہیں یا مسلمانوں سے زیادہ ان کا اپنے خدا پر یقین پختہ ہے ؟جبکہ یہ وہی سکھ ہیں جنھیں اندراگاندھی کے قتل کے بعد دلی کی سڑکوں پر پھوٹ پڑنے والے فساد میں چن چن کر قتل کیا گیا تھا ۔یوں کہیں کہ یہ فساد مودی کی حکومت میں گجرات 2002 کے خونی فساد سے اس لئےمختلف نہیں تھا کہ اس قتل عام میں کانگریس کے ہندو لیڈران بھی شامل تھے اور جب راجیو گاندھی سے اس فساد پر قابو نہ پانے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ جب کوئی بڑا درخت گرتا ہے تو زمین ہل ہی جاتی ہے ۔کیا راجیو گاندھی کے اس بیان اور گودھرا گجرات فساد کے بعد نریندر مودی کے عمل کے ردعمل والی منطق سے مختلف کہا جاسکتا ہے ؟ یہ وہی دور تھا جب پنجاب بھی سلگ رہا تھا پنجاب میں سکھ ملیٹنٹ ہندوؤں کا قتل کر رہے تھے ۔سوچئے کیا حکومت سکھوں کی دہشت گردی سے ڈر گئی۔حکومتی ایجنسیوں نے شدت پسند سکھ نوجوانوں کو جس طرح انکاؤنٹرکرنا شروع کیا سکھوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی اور ایک سیاسی محاذ اکالی دل کے ذریعے ریاست کی باگ ڈور پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا لیا اور ہماری حکومت نے بھی سمجھ لیا کہ اس نے دہشت گردی پر قابو پالیا ۔سکھوں کو مسلمانوں پر یہی ایک فوقیت حاصل ہے کہ وہ ایک ریاست میں اکثریت میں ہیں اور 1989میں جب سے کشمیر میں شورس کا ماحول پیدا ہوامرکزی حکومت کا رویہ سکھوں کی طرف سے مصلحتاً اس لئے بھی نرم ہوا کہ ماضی میں جو آگ پنجاب میں سلگ چکی ہے وہ اگر دوبارہ شعلہ بن گئ تو حکومت کیلئے بیک وقت کشمیر اور پنجاب دونوں محاذ پر علاحدگی پسند طاقتوں سے نپٹنا مشکل ہو جائیگا ۔لیکن عام ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف جو ناانصافیاں ہو رہی ہیں تویہ ہوتی رہیں گی ۔کسی زمانے میں کچھ مسلم حکومتوں کے حکمراں مضبوط تھے تو ہماری حکومتوں پر بھی ان کا کچھ نفسیاتی دباؤ تھا لیکن اب حالات بدل چکے ہیں ۔مسلم حکمراں اپنا وقار کھو چکے ہیں۔بھارت میں تاریخ ہمارے ساتھ نہیں ہے یا ہم اپنا ماضی ہار چکے ہیں ۔اس بدلے ہوۓ عالمی ماحول میں مسلم لیڈران علماء دین اور دانشور حضرات کو بہت ہی دانشمندی اور احتیاط کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جذباتی بیانات یا مظاہرے اگر پر امن ہوں تو ٹھیک ہیں ورنہ اکثر ایسے مظاہروں اور احتجاجی ریلیوں میں حکومتی ایجنسیاں خود اپنے لوگوں کو شامل کرکے اسے تشدد کی طرف موڑ دیتی ہیں تاکہ آئندہ کوئی تنظیم احتجاج کرنے سے بھی خوف کھائے۔کچھ سال پہلے برما میں مسلمانوں پر ہو رہے مظالم کے خلاف آزاد میدان کے احتجاج کو اسی طرح مشتعل کیا گیا اور ایک نوجوان شہید بھی ہوا ۔اسی تشدد کو بنیاد بنا کر ذاکر نائیک کے اجتماعات پر بھی پابندی لگائی گئی۔بابری مسجد شہادت کے بعد اسی طرح سیمی کے نوجوان بھی سڑکوں پر آۓ جذباتی تقریریں کی گئیں مگر اس کا نتیجہ کیا ہوا ۔ایجنسیوں نے اس تنظیم کے جذباتی نوجوانوں کو مزید مشتعل کرکے اس پر پابندی کے ثبوت اکٹھا کئے اور ایک دن بلاسٹ کے جھوٹے مقدمات میں دبوچ لیا ۔اب ہجومی تشدد کو لیکر ایک بار پھر کچھ طلبہ تنظیم اور مدارس کے نوجوانوں نے احتجاج اور مظاہرے کا بندوبست کیا ہے ۔اس احتجاج سے یقیناً موجودہ گورنمنٹ پر کوئی دباؤ تو نہیں پڑنے والا ہے اور نہ ہی پچھلے ستر سال سے لاقانونیت کے دلدل میں ڈوبے بھارت میں خاص طور سے اقلیتوں کے تحفظ کے تئیں قانون بہت فعال ہو جاۓ گا ۔اور ہوگا بھی کیسے جبکہ پارلیمنٹ کے ساتھ فیصد ممبران کریمنل ریکارڈ رکھتے ہیں۔اگر مسلمانوں کے پرامن احتجاج اور مظاہروں سے کچھ فائدہ ہو سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ مسلم تنظیمیں سوشل میڈیا کے ذریعے مقامی اور غیر مقامی مہذب دنیا کے سامنے یہ تصویر پیش کر سکتے ہیں کہ ونسٹن چرچل نے ہندوستانی لیڈران کے بارے میں جو پیشن گوئی کی تھی وہ غلط نہیں تھی ۔ یہ وقت مسلمانوں کیلئے بہت ہی ہوشیاری صبر اور استقامت سے کام لینے کا ہے ۔سوشل میڈیا پر بغیر کسی فرقہ وارانہ منافرت کے انصاف کے خلاف ظلم و جبر کی تصویر پیش کرنا ہے خواہ مظلوم کسی بھی مذہب اور مسلک سے تعلق رکھتا ہو اور خواہ یہ ظلم مسلمانوں کے علاقوں سے بھی کیوں نہ ہو ۔بہت اچھی بات ہے کہ مذہب کے نام پر ایک فرقے کے لوگوں کے ہجومی تشدد کے خلاف ایک بہت بڑی تعداد غیر مسلم برادران وطن کی بھی سامنے آئی ہے ۔سوشل میڈیا پر کئی غیر مسلم نوجوان مرد و خواتین نے جو ویڈیو اپ لوڈ کی ہے اور جس طرح پارلیمنٹ میں ترنمول کانگریس کی نو منتخب خواتین ممبر آف پارلیمنٹ مہوا مویترا نے فاشزم کے خلاف جذباتی انداز میں اپنا زبردست احتجاج درج کروایا ہے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت ابھی زندہ ہے اور مسلمانوں کو اسی بھارت سے ایک بار پھر قدیم ہندوستان کی کھوج کرنی چاہئے جسے لوگ سونے کی چڑیا کہتے تھے ۔

Comments are closed.