اللہ کی مرضی کا احترام کیجئے

طلبۂ مدارس سے گزارش

 

مولانا فضیل احمد ناصری

استاذ حدیث و نائب ناظم تعلیمات

جامعہ امام انور شاہ دیوبند

 

شوال کا مہینہ دنیائے مدارس میں تعلیمی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں داخلے کی ساری کار روائیاں انجام پاتی ہیں۔ قدیم طلبہ سالانہ امتحان کی کار کردگی پر آگے بڑھتے ہیں، جب کہ نئے طلبہ اپنے پسندیدہ اداروں کا رخ کر کے اور امتحان کے مراحل سے گزر کر نیا سفر شروع کرتے ہیں۔ کامیاب ہو گئے تو داخلہ پا گئے، اور ناکام ہوئے تو اگلے ادارے کی تلاش۔

 

*خواہش مندانِ دارالعلوم کی فراوانی

 

پورے ہندوستان میں اگر کسی دینی ادارے کی طرف طلبہ کا رجوع سب سے زیادہ ہوتا ہے، وہ دارالعلوم دیوبند ہے۔ ملک کے طول و عرض سے کھنچ کر اور سمٹ کر اکثر طلبہ دیوبند آ جاتے ہیں اور یہیں پڑاؤ ڈال دیتے ہیں۔ بیش تر طلبہ تو داخلے کی تیاری بھی یہیں کرتے ہیں اور اس کے لیے اوائلِ رمضان میں ہی یہاں سکونت اختیار کر لیتے ہیں۔ طلبہ کی ایک چھوٹی تعداد اپنے وطن میں عید کی نماز پڑھ کر دوسرے یا تیسرے دن دیوبند پہونچ جاتی ہے۔ دیوبند آنے والے طلبہ اتنے جذباتی اور شہیدِ محبت ہوتے ہیں کہ یہاں آکر اپنے گھر اور خویش و اقارب کو بھول ہی جاتے ہیں۔ تیاری، تیاری، اور صرف تیاری۔ زندگی کے سارے معمولات پیچھے اور امتحانِ داخلہ کی تیاری سب پر فائق۔ وقت آتا ہے، امتحان ہوتا ہے اور پھر نتائج کا بے صبری سے انتظار ۔ انتظار بھی اتنا کہ دماغ سے سب کچھ ہرن ۔ ایسا انتظار تو مجنوں نے بھی اپنی لیلا کا نہیں کیا ہوگا۔ خدا خدا کر کے نتیجہ آیا تو نتیجہ دیکھنے والوں کی ایک ہوڑ سی لگ جاتی ہے۔ ایک بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ طلبہ ایک دوسرے پر چڑھ کر اور ایڑیوں کے بل ہو کر اپنا نام تلاشتے ہیں۔ نام آگیا تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ ہوش و حواس کام نہیں کرتے۔ زبان لڑکھڑاتی اور سبقت کی مریض ہو جاتی ہے۔ بخیلی حاتم طائی کی سخاوت میں ڈھل جاتی ہے۔ مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں۔ جگہ جگہ فون کر کے مسرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔

 

*ناکام طلبہ کی مایوسی

 

وہیں طلبہ کی ایک بہت بڑی جمعیت وہ بھی ہوتی ہے، جس کا داخلہ نہیں ہوا۔ اس کی مایوسی کچھ نہ پوچھیے۔ زمانۂ جاہلیت میں جو حال لڑکیوں کی پیدائش پر باپ کا ہوتا تھا، وہی ان طلبہ کا ہوتا ہے ۔ دوست اور آشناؤں سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ چہرہ خشک ہو جاتا ہے۔ ہونٹوں پر پپڑیاں جم جاتی ہیں اور جسم صدیوں کا مریض دکھائی دیتا ہے۔ ان طلبہ سے آپ پوچھیں گے تو ان کی آواز میں نقاہت ہوگی۔ جواب دینے میں بھی بخل سے کام لیں گے اور کچھ روز اس طرح گزاریں گے گویا ان کی پوری کائنات لوٹ لی گئی ہو۔

 

میں نے بعض طلبہ کو دیکھا ہے کہ وہ عیاذاً باللہ اللہ کو گالیاں بھی دے گئے۔ ان کا خیال، بلکہ یقین تھا کہ داخلہ تو ہونا ہی چاہیے تھا۔ کاپیاں اتنی شان دار گئیں کہ ہمیں اپنی ناکامی کا واہمہ تک بھی نہ تھا۔ اللہ میاں کا یہ فیصلہ میرے نزدیک درست نہیں۔ العیاذ باللہ!

 

کئی طلبہ کو میں نے یہ بھی کہتے سنا کہ اب تو میں اپنی داڑھی تراش لوں گا۔ اپنی ٹوپی اتار لوں گا۔ اپنی عالمانہ وضع قطع ختم کر لوں گا۔ اس شناخت سے اب کیا واسطہ!! وغیرہ وغیرہ ۔ گویا اسلامی وضع قطع اپنا کر اللہ پر احسان کر رہا ہے۔ کئی طلبہ کو اپنا دماغی توازن کھوتے بھی میں نے دیکھا ہے۔

 

*دوسرے اداروں کی طرف رجوع

 

دو تین دن اسی ماتم میں گزر گئے۔ ہوش آیا اور غم کسی حد تک کافور ہوا تو اب دوسرے بڑے اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ امتحان دیتے ہیں ۔ داخلہ پاتے ہیں اور تعلیمی سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ مدرسے کے اسباق شروع ہو گئے۔ رجسٹر آنے لگا تو یہ بھی حاضر ہونے لگے۔ جسم درس گاہ میں ہے۔ نظر بظاہر استاذ اور کتابوں کی طرف ہے، مگر ذہن انہیں ناکامیوں میں الجھا ہوا اور دل یکسر بجھا ہوا ۔ بہت سے طلبہ تو سال بھر نباہ جاتے ہیں، لیکن کچھ طلبہ وہ بھی ہوتے ہیں جو قیدِ رجسٹر سے آزاد ہو کر کبھی اس ادارے کا ذائقہ لیتے ہیں اور کبھی اس ادارے کا۔ اسی کو طلبہ اپنی اصطلاح میں شعبۂ سماعت کہتے ہیں۔

 

*یہ ادارہ آپ کے لیے سب سے بہترین ہے

 

جو طلبہ کسی مدرسے میں داخل ہو کر باقاعدہ پڑھنے لگتے ہیں، مگر مایوس رہتے ہیں، ان سے عرض ہے کہ ایک طرف تو آپ کی خواہش تھی اور ایک طرف اللہ کی خواہش۔ آپ کی خواہش تھی کہ ہمارا داخلہ دارالعلوم میں ہوتا اور اللہ کی خواہش تھی کہ فلاں ادارے میں ہوتا۔ آپ کی خواہش تو خالص نفسانیت پر مبنی ہے اور اللہ کی خواہش آپ کی کامیابی کا ضامن۔ آپ خوش ہو جائیے کہ ہم اس وقت اپنی مرضی کے ادارے میں نہیں، بلکہ اللہ کی مرضی کے ادارے میں ہیں۔ اس سے بہترین جگہ آپ کے لیے کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔ آپ ہرگز احساسِ کمتری میں مبتلا نہ ہوں، بلکہ خوشی منائیں کہ اس جگہ تک ہم اپنی خواہش سے نہیں، اللہ کی مرضی سے آئے ہیں۔

 

*اپنی شناخت ہرگز نہ چھپائیے

 

دیوبند کے مدارس میں طلبہ کی ایک تعداد وہ بھی ہوتی ہے جس کا داخلہ دارالعلوم میں تو نہیں ہوا، مگر اپنے گھر والوں کو اطلاع دے رکھی ہے کہ ہمارا داخلہ الحمدللہ دارالعلوم میں ہو گیا۔ یہ کھلا ہوا فراڈ ہے۔ ایسے طلبہ اللہ کے فیصلے سے ناخوش اور خواہشِ نفسانی کے سخت شکار ہیں۔ اس ادارے میں جب اللہ نے آپ کو پہونچایا ہے تو فخر سے اپنے مدرسے کا نام بتائیے۔ مدرسے کا نام چھپانا گویا دھوکہ دینا ہے، جس کا حرام ہونا ظاہر ہے۔

 

اس جگہ ایک مثال پیش کرنی مناسب ہے۔ ہندوستان میں صوبۂ بہار وہ واحد صوبہ ہے، جہاں کے لوگ اس کی طرف اپنے انتساب کو پسند نہیں کرتے اور اس انتساب سے انہیں چڑ اتنی ہے کہ اگر کوئی بہاری کہہ دے تو اسے بہت بڑی گالی سمجھتے ہیں۔ ان کی یہ حالت در اصل احساسِ کمتری کی پیداوار ہے۔ انسان کوئی بھی ہو، اپنی مرضی سے کسی خاص علاقے میں پیدا نہیں ہوا، بلکہ اللہ کی مرضی سے پیدا ہوا ہے۔ کسی کا بہار میں پیدا ہونا اللہ کی مرضی سے ہے، مقاماتِ مقدسہ کے بعد اہلِ بہار کے لیے سب سے بہترین مقام بہار ہی ہے۔ اس سے اچھا صوبہ نہیں ہو سکتا، لہذا وہ اپنی شناخت ہرگز نہ چھپائیں، بلکہ فخر سے کہیں کہ الحمدللہ میں بہاری ہوں۔ اگر کوئی مسلمان اپنی مرضی سے پیدا ہوتا تو ہندوستان میں کوئی بھی پیدا نہ ہوتا، بلکہ سب چاہتا کہ اس کی پیدائش حجازِ مقدس میں ہو۔

 

*دارالعلوم میں داخلہ معیارِ علم نہیں

 

دارالعلوم دیوبند برصغیر ایشیا کی عظیم دینی درس گاہ ہے۔ اس کی اپنی تاریخی عظمت ہے۔ اس کی خدمات کا ڈنکا پورے عالم میں بجتا ہے۔ ڈیڑھ سو برسوں سے اسلام کا یہ قلعہ ملتِ بیضا کی خوب صیانت کر رہا ہے۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ پوری دنیا چاہتی ہے کہ یہیں سے پوری تعلیم پائے۔ غیر ممالک کے کچھ طلبہ اگرچہ اب بھی یہاں موجود ہیں، مگر بس برائے نام ۔بالفرض و المحال اگر دارالعلوم اعلان کر دے کہ جتنے طلبہ دیوبند میں آئیں گے، سب کو داخلہ ملے گا، تو اس کے علاوہ سارے مدارس طلبہ کو ترس جائیں گے۔ اس کی اسی مقبولیت کا نتیجہ ہے کہ دارالعلوم میں داخلہ کو معیارِ صلاحیت اور دوسری جگہ داخلہ کو معیارِ نقص باور کیا جاتا ہے، اسی لیے جن طلبہ کا یہاں داخلہ نہیں ہوتا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری صلاحیت خام ہے اور داخلہ پانے والوں کی صلاحیتیں اعلیٰ درجے کی ہیں۔ یہ طرزِ فکر سخت نادانی کی بات ہے۔

 

*حجاز میں پیدا ہونا معیارِ ایمان نہیں

 

یہاں تمثیلاً عرض ہے۔ جس طرح حجاز میں پیدا ہونا معیارِ ایمان نہیں اسی طرح ہندوستان میں پیدا ہونا معیارِ کفر بھی نہیں۔ ابو لہب جیسے سیکڑوں کفار وہاں پیدا ہوئے اور تھوڑے بہت کافر آج بھی وہاں موجود ہیں۔ جب کہ ہندوستان میں ایسے سیکڑوں مسلمان ہیں، جن کی ایمانی کیفیت حجاز کے بہت سے مسلمانوں سے بدرجہا زائد بڑھ کر ہے۔ لہذا کوئی ہندوستانی مسلمان اپنے مسلمان ہونے میں شک کرے تو یہی کہا جائے گا کہ اسے رانچی کے مجنوں خانے میں بھیجا جانا چاہیے۔

 

*امام ابو حنیفہؒ دارالعلوم کے فارغ تھے؟

 

میں آپ سے کہتا ہوں اور صاف صاف کہتا ہوں کہ آپ احساسِ کمتری میں ہرگز مبتلا نہ ہوں۔ آپ اگر محنت اور شوق و ذوق سے پڑھیں گے تو یہاں پڑھوا کر بھی اللہ تعالی آپ سے دین کا بڑا کام لے لے گا۔ دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک محدث آئے۔ بڑے بڑے مفسر آئے۔ منطق و فلسفہ کے لاتعداد امام آئے۔ علوم و فنون کے عظیم حاملین پیدا ہوئے، کیا یہ سب دارالعلوم دیوبند کے فارغ تھے؟ آج بھی ملک و بیرونِ ملک میں عظیم الشان ہستیاں ایسی ہیں، جنہوں نے دارالعلوم دیوبند کا منہ تک نہیں دیکھا، مگر ان کے علم و فضل کا پوری دنیا لوہا مانتی ہے، اسی لیے عرض ہے کہ جم کر پڑھیے اور انہیں اساتذہ سے اپنے مستقبل کی تعمیر کیجیے۔ اللہ نے چاہا تو آپ بھی دین کے اہم رجال میں شمار ہوں گے اور پوری علمی کائنات آپ پر رشک کرے گی۔

Comments are closed.