Baseerat Online News Portal

سیدی علی میاں ندوی اور خطابت

 

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

حضرت مولانا سیدی ابوالحسن علی ندوی رحمہ الله کی گوناگوں صفات میں سے یہ بھی ہے کہ آپ ایک عمدہ خطیب تھے، لوگوں کو مخاطب کرنے میں دل و جذبات سے کام لیتے تھے، ان کے مسائل کا حل بتلانے اور دل کی دنیا آباد کرنے کی کوشش ہوتی تھی، آپ کی تقاریر کا مجموعہ پڑھنے والے یا بالمشافہ آپ کی خطابت سے لطف اندوز ہونے والے، یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ دل کی بات کرتے تھے، انسان کی بات کرتے تھے، عبد و معبود کو ملانے اور زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کی بالادستی کی بات کرتے تھے، آپ کے الفاظ دل کی گہرائیوں سے نکلتے تھے، تو جادو کا اثر رکھتے تھے، آپ کا انداز گرچہ شوخ نہ ہوتا اور عام طرز خطابت سے جداگانہ انداز اختیار کرتے، تاہم محفل میں لوگوں کی نگاہیں اشک بار ہوجاتیں، وہ دل کی چوٹ کھاتے اور میدان عمل میں کچھ کر گزرنے کی نیت کرتے تھے، ایسے میں آپ کی شخصیت قلم میں تیغ اصیل اور سخن میں بانگ درا معلوم ہوتی ہے، جن سے دلوں کو گرمایا، ممولوں کو شہباز سے لڑایا اور ہاری ہوئی بازی کو جشن فتح سے بدل دیا، اور وہ حرارت و سوز پیدا کردی تھی کہ آج بھی ان کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں، اور پستی سے عروج کا سبق یاد کیا جا سکتا ہے۔ یہاں پر مولانا کی تقاریر کے مجموعے سے دو اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں، پڑھیے اور دیکھیے! کہ حضرت مولانا کس سحر انگیزی کی دنیا اپنے آپ میں سموئے ہوئے تھے:
"مادی زندگی کا کوئی شعبہ مومن کے دم سے قائم نہیں، وہ اگر کسی ملک سے چلا جائے تو اس کی ظاہری زندگی میں کوئی خلل واقع نہ ہوگا، دنیا جس طرح کھاتی کماتی ہے، کھاتی کماتی رہے گی۔ انسان جس طرح جیتے مرتے ہیں، جیتے مرتے رہیں گے۔ مگر یاد رہے کہ زندگی کی رونق نکل جائے گی، اور وہ ایک بے جان جسم ہوکر رہ جائے گی، عقل کے باسی بت کدے میں جہاں خود پرستی اور شکم پرستی کے سوا کچھ نہیں، وہی ایک مجذوب ہے، جس کے عشق و مستی سے اس عالم میں گرمی و ہنگامہ ہے، وہ اگر نکل جائے تو دنیا صرف تجارت کی منڈی اور زندگی فقط ناو نوش ہے، زندگی کے اس گمان آباد میں وہی ایک صاحب یقین ہے، جس کا یقین ٹوٹے ہارے دلوں کا سہارا اور ناکامی و ناامیدی کے سمندر میں ڈوبنے والوں کےلیے کنارا ہے، خود غرضی و خود مطلبی کے اس بازار میں وہی ایک صاحب ایثار ہے، جو اپنی جان پر کھیل جاتا ہے، اور اپنا سرمایہ دوسروں کےلیے لٹا دیتا ہے، بے حس انسانوں کی دنیا میں جو سینے میں دل کی جگہ پتھر کے سل رکھتے ہیں، وہی ایک صاحب محبت ہے، جو سارے جہاں کا درد اپنے جگر میں رکھتا ہے، اور اپنے سوز سے خود ہی جلتا اور پگھلتا رہتا ہے، ہر زمانے میں فقر پر امارت کو، گدائی پر بادشاہی کو، آخرت پر دنیا کو، ادھار پر نقد کو، غیب پر شہود کو، ایمان پر جان کو قربان کرنے کی اسی میں سب سے زیادہ ہمت ہے”.
” جب رات کی تاریکی دن کی روشنی کو چھپا لیتی ہے، جب ہوا و ہوس کا لشکر ہرطرف سے امنڈتا ہے، جب ایک انسان اپنے پیٹ کی خاطر اپنے بھائی کا گلا کاٹنے لگتا ہے، جب قومیں اپنی انانیت اور تکبر میں کمزور قوموں کو ہضم کرنے لگتی ہیں، جب دولت کا بت علانیہ پجنے لگتا ہے، جب وطن اور قوم کی دیوی پر انسان بھینٹ چڑھنے لگتا ہے، جب انسان اپنی قوت و دولت کے نشے میں خدائی کا دعوی کرنے لگتا ہے، جب ذخیرہ اندوزی اور نفع بازی کی مصیبت سے انسان دانے دانے کو ترسنے لگتا ہے، جب نفس کی آگ بھڑکتی ہے، اور دل کی روشنی بجھتی ہے، جب موت کا خیال دل سے بالکل نکل جاتا ہے، جب زندگی کے بازار میں ذی روح انسان کی قیمت گرجاتی ہے، اور بے جان دھاتوں اور جمادات کی قیمت چڑھ جاتی ہے، جب عریانی و بے حیائی گناہ و معصیت کا دنیا پر دور دورہ ہوتا ہے، اور وہ علم و فن بن جاتے ہیں، جب اغراض و خواہشات کے سوا دنیا میں کسی کی حکومت نہیں معلوم ہوتی اور تمام دنیا میں فساد پھیل جاتا ہے تو روح کائنات اس مرد خدا کو آواز دیتی ہے۔
خیز کہ شد مشرق و مغرب خراب ” (مطالعہ شعر و ادب: ۱۵۷-۱۵۸)

Comments are closed.