Baseerat Online News Portal

ماقبل بی جے پی اور مابعد کانگریس

ابو فہد

کل تک ہمارے بہت سے بہی خواہ اور کرم فرما ، میرا مطلب ہے ہمارے کئی اردو قلم کار دوست مولوی حضرات اور صحافی،ملک کی قدیم سیاسی پارٹی کو کوستے تھے اور کہتے تھے کہ یہ برسراقتدارپارٹی کا ہی دوسرا رخ ہے۔ویسے اس بات سے کچھ خاص اختلاف نہیں تاہم وہ ساتھ ہی ساتھ اُس مسلم قیادت کو بھی گالیوں کی زد پر رکھ لیتے تھے جس نےاس قدیم پارٹی کے ہاتھ پر گویا بیعت کررکھی تھی اور ہر حال میں ساتھ دینے کی قسم کھا رکھی تھی ، عسر میں بھی اور یسر میں بھی۔ یہ مسلم قیادت کبھی سامنے سے اور کبھی پیچھے سے وار پر وار کھاتی رہی مگر اس نے نہ تو امید کا دامن چھوڑا اور نہ ہی پارٹی کاہاتھ ۔ اس نے ہر الیکشن میں ووٹ دیتے اور دلواتے وقت شاید یہی سوچا اور خیال کیاکہ ’شاید ان کا آخری ہو یہ ستم‘ مگر ووٹنگ کا عرصہ گزرجانے کے بعد پھر وہی ستم بالائے ستم والی صورت حال لوٹ کر آتی رہی۔یہاں تک امت کے اعتماد کی ڈور ٹوٹ گئی اوروہ کانگریس کے ساتھ ساتھ مسلم قیادت سے بھی بڑی حد تک بیزار ہوگئی۔

سیاست کی بساط پر وقت کی گاڑی شاید اسی طرح افتاں خیزاں چلتی رہتی اور تھوڑا غصہ اور تھوڑی رضامندی کے ساتھ مسلم قیادت اپنے آپ کو ملک کی سب سے پرانی اور سب سے بڑی پارٹی کے ساتھ دھوپ چھاؤں کے سفر پر گامزن رہتی اور امت اسی طرح پارٹی اور قیادت دونوں کو کبھی کوسنے ، کبھی گالیاں اور کبھی مجبوری کی رضامندی کے ساتھ اسی طرح گرتی پڑتی آگے بڑھتی رہتی۔ مگرپھر یوں ہوا کہ اچانک ہی سب کچھ بدل گیا ۔ ’کھلی جب آنکھ نرگس کی نہ تھا جزخار کچھ باقی‘ہاتھ خود بخود چھوٹ گیا اور دامن از خود پھسل گیا۔برسراقتدار پارٹی الیکشن کی مہموں میں مذہبی کارڈ کھیل کر، سیاسی شخصیات کی خرید وفروخت کے بڑے کاروبار کے ذریعے اور پھر مزید برآںمشینوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے سہارے بہت بڑے فرق کے ساتھ منظر عام پر آگئی اور ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل گئی۔یہاں تک کہ حریف پارٹی کو مضبوط اپوزیشن کی پوزیشن میں رہنے کے لائق بھی نہیں چھوڑا۔

یہاں ایک نکتے کی بات یہ بھی ہے کہ کانگریس کے ساتھ دوستی نبھانے میں مسلم مذہبی قیادت کو تو ہمیشہ زبان طعن پر رکھا گیا مگر مسلمانوں کے غیر مذہبی سیاسی قائدین یعنی کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے مسلم نمائندے ہمارے ان کرم فرماؤں کے منظور نظر رہے، آج بھی کانگریس میں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہے اور کئی تو بہت سینئر ہیں اور بڑے عہدوں پر فائز ہیں مگر ان کے تعلق سے یہ بات کم ہی کہی گئی کہ انہوں نے مسلم امت کو ایک ہی پارٹی کا غلام بناکر رکھا ، خود بھی غلامی کی زنجیر سے بندھے رہے اور امت کو بھی باندھ کر رکھا۔

مگراب جب کہ کانگریس کی قیادت کے دن گنے جاچکے ہیں تواب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے یہ کرم فرما اور امت کے بہی خواہ کیا کہیں گے اور کیا کریں گے۔ متبادل جس طرح کل نہیں تھا متبادل تو آج بھی نہیں ہے۔ کل تک تو چلو یہی تھا کہ کوسنے اور گالیاں نکال لیتے تھے، کبھی پارٹی کے خلاف اور کبھی مسلم قیادت کے خلاف، مگر اب تو اس سے بھی جاتے رہے۔اور اب اس صورت حال میں کیا کریں گے:’جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی‘ کہ آدمی سر کھجانے اور سر پیٹنے کے شغل سے بھی جاتا رہتا ہے۔

کوئی بھی انسان اپنا دوسرا قدم اس وقت تک نہیں اٹھا سکتا جب تک اسے پہلے اٹھائے گئے قدم کو مضبوط سہارا نہ مل جائے۔ جب ایک پیر آپ مضبوط زمین پر رکھ دیتے ہیں تبھی پیچھے والا پیر زمین سے اٹھاتے ہیں۔ مگر ہمارے کرم فرمااس اہم اصول کا خیال کئے بغیر ہی مسلم قیادت کو طعنے دیتے رہے اور پہلا پیر مضبوطی کے ساتھ رکھنے سے پہلے ہی دوسرا پیر اٹھانے کے لیے اکساتے رہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حالات امت کو کس طرف لے جائیں گے، اب صورت حال یہ ہے کہ پہلے سے اٹھا ہوا قدم رکھنے کے لیے زمین ہموار نہیں اور دوسرے قدم کے نیچے سے زمین کھسکی جارہی ہے۔اب ایسے حالات میں ہمارے ان کرم فرماؤں کی طرف سے کوئی بھی قابل قدر تحریر نہیں آتی۔ نہ مشورے آتے ہیں اور نہ ہی منصوبے۔

Comments are closed.