Baseerat Online News Portal

اہل علم کی قدر کیجیے!

 

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

عصر حاضر میں اہل علم کی ناقدری بڑی تشویش ناک صورت اختیار کر چکی ہے، دراصل یہ اس بات کی غماز ہے کہ امت کو علم سے نفرت ہے، وہ وراثت انبیا کے تئیں نہ تو سنجیدہ ہے اور نا ہی وارثین انبیا کی کوئی پرواہ ہے، جہلا خود کو علما کا درجہ دے رہے ہیں، اردو تفاسیر پڑھ کر حق تفسیر کا دعوی کر رہے ہیں، یا صرف چند ماہ دینی ماحول میں رہ کر علم کی کسوٹی مکمل کرنے کے متمنی ہیں، احادیث کے ساتھ قصہ اور کہانیوں جیسا سلوک کر رہے ہیں، اکابرین کے اقوال سند کا درجہ پا چکے ہیں، بڑے بزرگوں کے تجربات دلیل کے قائم مقام ہوچکے ہیں، امامت و اقامت اور کسی بھی پہلو سے جہلا اور نام نہاد دانشوران کی قیادت میں علما کی بے عزتی اور ان کو کنارہ کرنے کا فیشن رواج پا چکا ہے، صدارت کے عہدے نابلد کی زینت بنے ہوئے ہیں، مساجد کی رونق نادانوں کی نادانی بنی ہوئی ہے، روپے اور پیسے پر ہی ہر چیز کو تولا جارہا ہے، اہل علم کی جاں فشانی اور ان کی رات و دن کی تگ و دو کو ایسے نظر انداز کیا جارہا ہے جیسے کسی دشمن سے نگاہیں پھیری جارہی ہوں، سوسائٹی میں جدید طبقہ خاص طور پر انگلش کی معرفت رکھنے والا یا پھر سرکاری نوکری کرنے والا یا ہر وہ چانکیا جو پیسوں کی گڈی پر سوتا ہو سب علما کو پیروں کی دھول سمجھتے ہیں، اہل دل علماء عظام، عموماً ان کے ساتھ خیر خاہی کی کوشش کرتے ہیں، ان کے حق میں بھلائی کرنے اور ان کے مصائب میں ان کےلیے دعائیں کرنے اور ان کے حق میں حل تلاش کرنے میں گزار دیتے ہیں؛ لیکن عجب حال ہے یہی علم و دانش کے متوالے ان سب کے باوجود ان کی حقارت ہی کے مستحق ٹھہرتے ہیں!
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر کوئی پھول کے ساتھ کانٹوں جیسا سلوک کرے اور چمن کے خار اسے گلاب لگتے ہوں، تو وہ خسران میں مبتلا ہے، سراب کو پانی سمجھنے والا اور پانی کو سراب سمجھنے والا نادان نہیں تو اور کیا ہے؟ اپنے ناصح کے ساتھ سوتیلا پن اور اسلام مخالف تحریکات، افکار و عناصر سے دل خراش تعلق محض بدقسمتی پر دال ہے، اس سے کوئی انکار نہیں کہ اہل علم کا ایک مقام ہوتا ہے، خصوصا جنہوں نے دینی علوم میں رسوخ حاصل کیا، اور اسلامی تعلیمات سے اپنے سینے کو منور کیا ہو، وہ روز قیامت ہی کیا دنیا میں بھی ایک شان امتیازی رکھتے ہیں، آج جن کے ساتھ دوہرا رویہ اختیار کیا جارہا ہے اور جنہیں معاشی بحران میں مبتلا کر کے معاشرے کا ایک عضو معطل بنانے کی کوشش کی جارہی یے، سچی بات یہ ہے کہ یہی لوگ اس معاشرے کی جان ہیں، ان ہی کے دم سے جگ میں انسانیت کا سر بلند ہے، مادیت کے اس دور میں روحانیت کا مشعل جلانے والے اور انسانیت کا درس دینے والے، یہی اصل میں دنیا کے تاج ہیں، جن زمانوں میں ان کے ساتھ حسن سلوک کیا گیا اور ان کو مقام وعزت دی گئی، تاریخ کے صفحات میں وہ سرخرو ہو گئے، اور جنہوں نے ان کے ساتھ حاشیہ کا سا سلوک کیا، خدا تعالی نے انہیں بھی کنارے پر لا کھڑا کیا، اور ان کی طاقت و قوت کا سورج ایسا ڈوبا کہ کبھی طلوع نہ ہو سکا، اس سے انکار ناممکن ہے کہ آج بھی مسلمانوں کے تنزل کا بڑا ذریعہ یہی عنصر ہے، اسی طرز سے مسلمانوں کو قعر مذمت میں پٹک دیا گیا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، وقت ہے ہوش میں آجائیں، دنیا کی بڑھتی تیز تر ترقی کے دھارے میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کےلیے علم اور اہل علم کا دامن تھام لیں، ان کی قدر کریں، اپنے اندر سیکھنے کا جذبہ اور ان کے وجود سے مستفید ہوکر سعادت حاصل کریں!

Comments are closed.