Baseerat Online News Portal

ماب لنچنگ ،مذہبی نعرے، مظلوم کیا کرے؟

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشید پور

 

تیزی سے بڑھتے ہوئے ہجومی قتل کے واقعات میں انتہائی تشویشناک رویہ یہ بھی ہے کہ ظالم زورزبردستی اپنے مذہبی نعرے بھی لگواتے ہیں – اب لو گوں کا ماننا ہے کہ جے شری رام کا مذہبی نعرہ اب آتنکی اور آ تنکیوں کا نعرہ بن چکا ہے- جہا ں کسی ویڈیو آڈیو یا تصویر میں زبر دستی کے ساتھ یہ نعرہ لگوانے والے دیکھیں،تو سمجھ لیں وہی بھارت کا سب سے بڑا غدار اور دہشت گرد ہے-

ہندوستان زندہ باد

ںتبریز انصاری کا واقعہ ہو یا ضلع اناؤ،یوپی کے مدرسے کے بچوں کا واقعہ ہو یا مظفر نگر کے امام جناب اخلاق الرحمٰن کا واقعہ ہو اس طرح کے ان گنت واقعات ہیں جو انہائی افسوس ناک ہے۔ان واقعات کو دیکھتے ہوئے اسلامی تاریخ سے ہمیں کیا روشنی ملتی ہے؟۔ اسلام میں جہاں ظالم کو معاف کر نے پر اجروثواب ہے وہیں ظالم سے بدلہ لینے پر بھی ثواب ہے۔

مآب لینچنگ Mob Lynching کے واقعات کے پیش نظر قرآن کریم کی سورہ شوریٰ کی آیت 39سے ہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے اس پر غور فر مائیں اور اس پر عمل فر مائیں!۔وَا لَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَھُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْنَ۔ تر جمہ:اورجب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کر تے ہیں۔ظالموں سے لڑ نا اہل ایمان کی ایک بہترین صفت قرآن مجیدنے بتائی ہے، اہل ایمان ظالموں اورجابروں کے لیے نرم چارہ نہیں ہوتے، انکی نرم خوئی اور عفو درگزر کی عادت کمزوری کی بنا پر نہیں ہوتی، ایمان والوں کو بھکشوں اور راہبوں کی طرح مسکین بن کر رہنا نہیں سکھایاگیا ہے،انکی شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ جب غالب ہوں تو مغلوب کے قصور کو معاف کر دیں جب قادر ہوں تو بدلہ لینے سے درگزر کریں اور جب کسی زبردست یا کم زور آدمی سے کوئی خطاسرزد ہوجائے تو چشم پوشی کر جائیں، لیکن جب کوئی طاقت ور اپنی طاقت کے ز عم میں ان پر زور زبردستی ظلم کرے تو ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں اور مقابلہ کریں اور اس کے دانت کھٹے کردیں۔”مومن کبھی ظالم سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی اس متکبرکے آگے جھکتاہے اس قسم کے لوگوں کے لیے وہ لوہے کا چنا ہوتاہے جسے چبانے کی کوشش کر نے والا اپنا ہی جبڑا توڑلیتا ہے“۔

اسلام جان وایمان کی حفاظت کو ترجیح دیتا ہے:

تبریز انصاری یا اور بھی لوگ جو موب لنچینگ میں (شہید ہوئے)مارے گئے ظالموں نے اپنے مذہبی نعرے بھی لگوائے دیدہ دلیری اور بے شر می کی حد ہو گئی کسی کو مار مار کر آپ اپنے مذہبی نعرے لگواکر مزے لے رہے ہیں یہ انتہائی سفاکی اور بے شر می کی بات ہے،جسکی جان پر بنی ہوئی ہے وہ بے چارہ کیا کرے مجبوری میں نعرے بھی لگا تا ہے۔ ہمارے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے جھاڑ کھنڈ کے سانحہ پر پارلیامنٹ میں محض افسوس جتایا،نہ ہی مجرموں پر کوئی کار روائی کی بات کی اور نہ ہی کوئی معاوضہ کی بلکہ جھاڑ کھنڈ کو بدنام کر نے کا الزام لگا دیا، اور اب پارٹی کی میٹنگ میں پار ٹی کی بدنامی کا افسوس جتار ہے ہیں مسلم عور توں سے جھوٹی محبت دکھانے والا دل کہاں سوگیا شادی کے صرف 57 دن کے بعد ان کے نظریات کے ماننے والوں نے جوان عورت شائستہ کو بیوہ بنادیا؟

پارٹی اور جھاڑ کھند کی بدنامی کا احساس تو صرف دکھاوا ہے۔ جھاڑکھنڈ تو لنچیستان بناہوا ہے18مارچ 2016لاتیہار، مظلوم انصاری، امتیاز انصاری18 مئی 2017 شیخ حلیم، سراج خان،ببلومشاہیر ہندو (دلت) سے لیکر17جون 2019تبریز انصاری، سرائے کیلا کھر ساواں تک 19 لوگ موب لینچینگ(ہجومی تشدد) بھیڑ کے ذریعہ شہید کئے جاچکے ہیں پوری لسٹ میرے پاس موجود ہے، لو گ گوگل سے نکال سکتے ہیں۔ مودی جی اور ان کے ہمنوا سے تو ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں۔

؎ نہ یہ ظلم و ستم ہو تا نہ یہ بیچار گی ہو تی

حکومت کر نے والوں کی نیت نہ گر بری ہوتی

پہنچنا چاند پر انسان کا ہے مسرور کن لیکن

منور پہلے اپنے دل کی تاریکی تو دورکی ہوتی

ظالموں کی بھیڑ کے ذریعہ جب کسی مسلمان کو جان سے مارا جارہا ہو اور اس مظلوم مقتول سے مذہبی نعرے لگوائے جائیں تو مظلوم کے لیے شریعت اسلامیہ نے جان و ایمان کے تحفظ کاراستہ بتایا ہے اس سلسلے میں فقہ کی مشہور کتاب، *المد خل الی المذاہب ا لفقیہ*

میں مصر کے سابق مفتی جمہوریہ ڈاکٹر مفتی علی جمعہ نے بہت صراحت کے ساتھ شریعت کے مقاصد کو بیان فر مایاہے”آپ مقاصد شرع بیان کرتے ہوئے امام غزالی اور دیگر علما نے حسب ذیل امور کو شمار کرایا ہے:(1)حفاظت دین،(2)حفاظت جان،(3)حفاظت مال،(4)حفاظت عقل،(5) مصر کے مفتی جمہوریہ ڈاکٹر مفتی علی جمعہ نے پہلے نمبر پر حفاظت دین کے بجائے حفاظت جان کو کر دیا ہے اور حفاظت دین کو دوسرے نمبر پر کردیا ہے۔ پھر اس تبدیلی پر ہونے والے شبہات کا تفصیلی جواب دیاہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ:

1۔اختلاف ترتیب سے اختلاف معنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چوں کہ نتیجے کے اعتبار سے سب سے اہم دین ہے، یہ بات متفق علیہ ہے، کیوں کہ دراصل دین ہی انسان کی نجات سر مدی کا ضامن ہے۔ اسی طرح یہ امر بھی متفق علیہ ہے کہ جان کی سلامتی کے ساتھ ہی انسان دین صحیح پر ثابت پرثابت قدم رہتا ہے۔ اگر جان ہی نہ ہو تو پھر وہ کس دین کی حفاظت کرے گا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حالت ”اضطرار“ میں حرام بھی حلال ہوجاتاہے اور ❤️ دل ایمان پر قائم ہو تو زبان سے کفر کے اقرار سے بھی ایمان پر فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح اگر کوئی کافر مسلم ریاست کا وفادار شہری ہے اگر چہ وہ دین کے اعتبار سے کفر پر ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی جان رہے گی تب تو وہ آپ کی دعوت کا حق دار ہو گا اور اس کے لیے نجات سر مدی کا دروازہ کھلے گا۔ گویا آغاز کے لحاظ سے جان کی حفاظت اولین شے ہے،دونوں کی اولیت دو الگ الگ جہتوں سے ہے۔

2۔جب دونوں ترتیب میں معنوی لحاظ سے کوئی فرق نہیں تو پھر مفتی صاحب نے ترتیب کیوں پلٹ دی؟ اس کاجواب مفتی صاحب نے یہ دیا ہے کہ اگر چہ دونوں تر تیب میں معنوی لحاظ سے کوئی فرق نہیں، تاہم میری جدید تر تیب، جس میں جان کی حفاظت کو پہلا مقام دیا گیا ہے، معا صرذہن،عصری تقاضے اور دعوتی نقطۂ نظرسے زیادہ مفید ہے۔۔ جب ہم یہ کہیں گے کہ اسلام دین کی دعوت کو پہلی ترجیح دیتا ہے، تو ایک شبہ ہو گا کہ اسلام حقوق انسانی کی بات بعد میں کرتا ہے، اپنے مذہب کی بات پہلے کرتا ہے۔ گویا اسلام کی حفاظت کے لیے دوسروں کی جان لینا بھی اسلام میں جائز ہے۔ اس کے بر خلاف جب جان کی حفاظت کو ہم پہلے نمبر رکھیں گے تو یہ پیغام جائے گا کہ اسلام سب سے پہلے پوری انسانیت کی حفاظت اور بقا کو تر جیح دیتا ہے اور کسی کی جان بچانے کے لیے اس کے حق میں قبول اسلام کوشرط نہیں سمجھتا۔ اسلام پوری انسا نیت کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے، صرف مسلمانوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتا۔اس سے یہ ہوگا کہ غیر مسلموں میں اسلام کی اچھی شبیہ قائم ہوگی اور جدید ذہن کے حق میں اسلامی دعوت کے امکا نات وسیع تر ہو جائیں گے۔

اسلامی تاریخ میں پہلیMob-lynching:

موجودہ عہد میں ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں اس ترتیب جدید کا ایک اور فائدہ سمجھ میں آتا ہے۔وہ یہ کہ ہندوستانی مسلمان، ایمانی سطح پر بہت مضبوط مسلمان ہے۔وہ اپنی جان کی بازی لگا سکتا ہے، مگر دین پر حرف آئے،یہ ا سے گوارا نہیں۔ وہ اس جوش ایمانی میں عام طور پر اس سے بھی بے خبر ہے کہ مجبوری کے عالم میں زبان پر کلمۂ کفر لادینے سے بھی ایمان پر حرف نہیں آ تا، اگر دل ایمان پر مطمئن ہو۔ چنانچہ اہل مکہ ایک دن چند غریب مسلمانوں کو باندھ کر انہیں زود کوب کر نے لگے یہ مسلمانوں کے ساتھ اسلامی تاریخ میں پہلی موب لنچینگ ہوئی تھی اور اس میں پہلی جان جوشہید ہوئی تھی،وہ حضرت عمار کی والدہ حضرت سمیہ کی تھی۔ وہ کہتے تھے ہمارے خداؤں کی جے پکا رو۔ہبل اور لات منات کا نعرہ لگاؤ۔ حضرت سمیہ نے نعرہ نہیں لگایا، ظالموں نے انہیں بے رحمی سے شہید کردیا۔ اب حضرت یاسر کی باری تھی انہوں نے یہ نعرہ نہیں لگایا، ظالموں نے انہیں بھی شہید کردیا۔ اب حضرت عمار کی باری تھی۔اپنی نگاہوں کے سامنے اپنے والدین کا حشر دیکھ چکے تھے۔ ان پر جان جانے کا خوف طاری ہوا اور انہوں نے ان باطل خداؤں کی جے پکار دی۔ جب بار گاہ رسالت میں حاضر ہوئے۔ سہمے ہوئے تھے۔آنسوؤں کا سمندر رﷺواں تھا۔۔ آپ ﷺ نے فر مایا: عمار کیا ہوا؟ عرض کیا: حضور! میں نے آپ کی شان میں بھی گستاخی کردی اور باطل خداؤں کی بھی جیکار کردی۔ ارشاد ہوا: عمار! ❤️ دل کا کیا حال ہے؟ عرض کیا:حضور! دل تو ایمان پر مطمئن ہے۔

نبی رحمت ﷺ نے بجائے ملا مت کر نے کے حضرت عمار کو محبت و رحمت کے ساتھ پھر سے اجازت دے دی: عمار! اگر یہ ظالم پھر سے یہ ظلم ڈھائیں تو پھر سے تم کو اس ظاہری کفر کی اجازت ہے۔ قرآن پاک کی آیت کریمہ نازل ہوئی۔مَنْ کَفَرَ بِا للّٰہِ مِنْ بَعْدِ اِ یْمَانِہٖٓ……..الخ – القرآن: سورہ نحل16:،آیت:106 (ترجمہ) جو ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے سوائے اس آدمی کے جسے (کفر پر)مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر جمع ہوا ہو لیکن وہ جودل کھول کر کافر ہوں ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔یعنی حالت مجبوری میں،دل اگر ایمان پر قائم ہے تو زبان سے کفری کلمات اداہوجانا،قابل مواخذہ نہیں! آج ہندوستان میں پھر سے اس مکی دور کی آمد ثانی ہوچکی ہے۔آج اہل ایمان کو پھر سے اس رخصت کی اجازت ہے۔مسلمان اپنے دلوں کو ایمان سے لبریز رکھیں اور ظاہری طور پر مجبوری میں کفر بول کر اگر اپنی جان بچانے کا موقع ملے تو بچائیں:

کیوں کہ مسلمان کی جانیں بہت قیمتی ہیں شریعت کی وسعت میں ان کے جان و ایمان دونوں کے تحفظ کا راستہ موجود ہے۔حضرت عمار کا اسوہ مسلمانوں کے لیے رہبر ہے اور نبی رحمت ﷺ کے کلمات محبت ان کے لیے تسلی و تسکین کا سامان ہے اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہم تمام مسلمانوں کی جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے۔(آمین)_

*خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ اسلام نگر کپا لی وایا مانگو جمشیدپور جھاڑکھنڈ پن کوڈ 831020 -رابطہ،09386379632-

Comments are closed.