Baseerat Online News Portal

ہمارا غیر متوازی معاشرہ!!!

 

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

ہندو سماج میں طبقہ واریت کا کیڑا تو ہمیشہ سے لگا ہوا ہے، جسے مٹانا تقریباً ناممکن معلوم ہوتا ہے، تو وہیں مغربی ممالک میں نسل پرستی، رنگ پرستی کی بنیاد پر غیر مساوی سوسائٹیاں وجود پذیر ہیں، دولت و فقر کی بنیاد پر بھی دنیا کا ایک بڑا حصہ منقسم ہوچکا ہے، ایک طرف لوگ عیش و عشرت میں مگن ہیں، اپنے عشرت کدوں میں آرام فرما ہیں اور دنیا ومافیھا سے بے خبر ہیں، تو دوسری طرف بھوک کی تڑپ نے منہ پھاڑ رکھا ہے، افریقی ممالک میں ہر سال بچوں کی ایک بڑی تعداد جاں بحق ہوجاتی ہے، جو دو وقت کے کھانے سے محروم ہوتی ہے۔ ہندوستان میں ساٹھ فیصد سے زائد لوگ نان شبینہ کے محتاج ہیں، اگر وہ بیمار پڑ جائیں تو دوائیں مہیا نہیں ہوتیں، اور سسک سسک کر مرجاتے ہیں، ابھی حال ہی میں مظفر پور میں دو سو سے زائد بچے مر گئے؛ لیکن انہیں علاج نصیب نہ ہو سکا، آئے دن ایسی تصاویر گردش کرتی رہتی ہیں، جہاں پر کوئی نونہال بچہ یا بچی کچرے کے ڈھیر سے اناج تلاش کر اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کی انتھک کوشش کر رہا ہوتا ہے، اسی طرح ایسی تصاویر بھی نظروں کے سامنے آتی رہتی ہیں، جب یوم پیدائش کے موقع پر یا پھر معمولی معمولی فنکشن کے مواقع پر کھانے کا ضیاع ہوتا ہے، اور بڑی بےدردی کے ساتھ اسے کوڑے دان کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ نوجوانوں میں اس کا رجحان بڑھتا جارہا ہے کہ وہ خود کی خواہشات پوری کرنے کے علاوہ اپنے دل میں کسی قسم کی ہمدردی و محبت نہ رکھیں، اور ہمیشہ دل کی دنیا میں اپنی دنیا بسا کر زمانے کو ٹھینگے پر رکھیں، اگر آپ ان باتوں پر غور نہیں کر سکتے تو نظریں اٹھائیے اور اپنے ارد گرد دیکھیے! کہ کیسے کچھ لوگ بلند ترین گھروں میں داد دہش دے رہے ہیں، جس کی قامت کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی پگڑی لگائے اس کے آخری چھور پر دیکھیے، تو اس کی پگڑی سر سے گر جائے گی، تو وہیں آپ کے سامنے ایسے گھر ہوں گے؛ بلکہ گھروندے ہوں گے، جن کے سامنے ابتدا و انتہا کی کوئی خبر نہ ہوگی۔
یہ غیر متوازی معاشرہ جہاں اپنے آپ میں عمومی کا درجہ رکھتا ہے، تو وہیں مسلمانوں میں بھی اس کا اضافہ بڑی تیزی کے ساتھ ہوا ہے، مالدار گروہ خود میں مدہوش ہیں انہیں اپنے غریب رفقا و اعزا کی بھی خبر نہیں؛ چہ جائے کہ وہ کسی اجنبی فقیر کی خبر رکھتے، ایک گروہ پائی پائی کو ترستان ہے، علم و عمل کا خزانہ ہونے کے باوجود دروازے، دروازے کی ٹھوکر کھاتا ہے، دانے دانے کی محتاجی میں خود کشی کر لینے پر مجبور ہوجاتا ہے، یا اسلام کے حدود پامال کرنے کے درپے ہوتا ہے کہ کہیں کوئی صورت نکلے جس سے اس کے پیٹ کی تپش کو سکون میسر ہو، سوکھتے حلق اور بلکتے بچوں کو قرار مل جائے؛ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ جب کہ انہیں میں ایک جماعت اپنے دونوں ہاتھوں سے دولت لٹاتی ہے، بات بات پر پارٹی اور پروگرام کے ذریعے پیسوں کو پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہے، حالاں کہ چند دنوں قبل کی بات ہے کہ ایک مسلم فیملی نے اناج نہ ہونے کی وجہ جان دیدی؛ لیکن اس بات پر کوئی ایکشن نہ لیا گیا۔۔۔۔۔ ان ماحول میں یہ سمجھ پانا ناممکن نظر آتا ہے، کہ جس دین کے حامل مسلمان ہیں، اس دین میں زکات اور صدقات کا نظام تو ایسا ہے کہ اس پر دنیا رشک کرتی ہے، اور اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا نطام پیش کرنے سے قاصر ہے، سال میں ایک دفعہ ہر مالدار، صاحب حیثیت مومن پر لازم ہے کہ اپنی کمائی کا چالیسواں حصہ نکالے اور فقرا پر خرچ کرے، یہی وہ نظام تھا جس کی وجہ سے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں کوئی غریب نہ رہ گیا تھا، اور زکات مجبورا بیت المال میں جمع کروا دی جاتی تھی، پھر اب ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ یقینا ہماری غفلت اور دین سے بیزاری کی علامت ہے، یہ اپنے آپ میں بہت خطرناک ہے، ضرورت ہے کہ معاشرے کا توازن قائم رکھا جائے، قرب و جوار کا خیال رکھیں، اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے دل میں انسانیت کےلیے ہمدردی اور محبت پیدا کریں۔

Comments are closed.