Baseerat Online News Portal

موجودہ حالات میں مسلمان کیا کریں؟

ایک دردمنداوربالغ نظرمفکرکی ہدایات

تحریر: نجم الہدیٰ ثانی، ململ، مدھوبنی، بہار

ملک کی موجودہ صورتِ حال کے پس منظرمیں مسلمانوں کے ممکنہ اجتماعی لائحہء عمل اورحکمتِ عملی کے متعلق اظہارِ خیال کا ایک طویل اورنہ تھمنے والاسلسلہ جاری ہے۔ہرشخص اپنی علمی بساط اورتجربہ و مشاہدہ کے بقدراس بحث میں حصہ لے رہا ہے۔ بے تکلف نجی محفلیں، دفاتر، اخبارات، ٹی وی چینلز، تعلیمی ادارے، غرض ہرجگہ اس موضوع پر کچھ نہ کچھ کہا اورسنا جارہا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر،جہاں ہر شخص کی رسائی ہے، اس بحث کی گونج سب سے زیادہ سنائی دے رہی ہے۔

چنددنوں پہلے حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کے ایک مضمون پراچانک نظرپڑی جو اسی موضوع اورانہیں حالات میں آج سے برسوں پہلےلکھا گیا تھا۔اس کے معاًبعدآپؒ کی ایک تقریر بھی ملی۔ حسنِ اتفاق کہئے کہ اس کا تعلق بھی ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل سے تھا۔ حضرتِ والا ؒ کا یہ مضمون اوران کی تقریردونوں ان کی حقیقی دردمندی، سچی اوربے لوث حب الوطنی، اورزبردست اخلاقی جرات و بے باکی کے ساتھ ساتھ ہندوستانی تاریخ اورسماج پران کی گہری نظر اورملک و ملت کے حالات سے مکمل واقفیت کی آئینہ داربھی ہے۔ناچیزاس مضمون -"موجودہ حالات میں مسلمان کیا کریں؟” – کا خلاصہ اورتجزیہ قسط وار پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے۔ ان شاء اللہ، آئندہ کسی پوسٹ میں آپؒ کی مذکورہ بالا تقریر کا خلاصہ اورتجزیہ بھی پیش کرنے کی کوشش کرے گا۔

یہ مضمون دراصل 1990 میں تحریرکیا گیا تھا جب بابری مسجد کا مسئلہ اپنے شباب پرتھا۔میرے سامنے اس کا آن لائن نسخہ ہے جو اس کے دس بارہ برسوں بعد سید احمد شہید اکیڈمی، دارِ عرفات، رائے بریلی سے شائع ہوا ہے۔ اس کا لنک درجِ ذیل ہے:

http://holypearls.com/Bayanaat%202015/Books/MawjudaHaalaatMeMusalmanKyaKare.pdf

کتابچہ کے علاوہ یہ مضمون بلا کسی حذف و ترمیم حضرت مولانا علی میاں ؒ کی خودنوشت سوانح” کاروانِ زندگی” کے حصہ پنجم میں بھی ‘موجودہ حالات میں ہندوستانی مسلمانوں کے لئے راہِ عمل’ کے ذیلی عنوان سے شامل ہے۔ مصنف کے نزدیک اس مضمون کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نےاس پورے مضمون کونہ صرف اپنی سوانح عمری میں شامل کیا ہے بلکہ اس کا تعارف بھی درجِ ذیل الفاظ کے ساتھ کرایاہے:

"اب ہم اس تصنیف میں بلکہ اس "کاروانِ فکروخیال” اورتبلیغ و دعوت میں ایک ایسے مضمون کا اضافہ کرتے ہیں، جس میں کتاب و سنت کی روشنی ، سیرت و تاریخِ اسلام کے واقعات اورعلمائے ربانیین و مصلحینِ کبار کی ہدایات وتجربات کی روشنی میں وہ راہِ عمل پیش کی گئی ہے جو ہرزمانہ میں اورخاص طورپر ایسے دوراورملک کے لئےدستورالعمل اوررہنمائے طریق بن سکتی ہے اورخاص طورپرہندوستانی مسلمانوں کے لئےایک مشعلِ راہ کا کام دے سکتی ہے، وبیداللہ التوفیق۔ "( کاروانِ زندگی، حصہ پنجم، صفحہ175-76)

اس مضمون کا تذکرہ اوراس کا خلاصہ خود حضرت مولاناؒ کے قلم سے بھی نکلا ہے۔ (ملاحظہ ہو: کاروانِ زندگی، حصہ چہارم ، صفحہ 396-399، باراول، 1991، مکتبہء اسلام، گوئن روڈ، لکھنؤ)

 

 

مضمون کی ابتداء جن سطورسے ہوتی ہے اس سے دوباتیں واضح ہوجاتی ہیں: اول، ہم آج جن حالات سے گزررہے ہیں وہ نئے نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی ہندوستانی مسلمانوں پراس طرح کے حالات آچکے ہیں اورانہوں نے ان کا مقابلہ کیا ہے۔ دوم، تقریباً تین دہائی گزرنے کے بعد بھی اس مضمون کی تازگی اورافادیت میں کئی کمی نہیں آئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ صاحبِ مضمون نوے کی دہائی میں نہیں بلکہ موجودہ حالات کے تناظرمیں یہ باتیں لکھ رہے ہیں۔ مثلاً یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

"اس دورِ آزمائش میں مسلمانوں کا صرف ملی تشخص، دین کی دعوت و تبلیغ کے مواقع و امکانات اورملک و معاشرہ کو صحیح راستہ پر لگانے اوراس کائنات کے خالق و مالک کی صحیح معرفت اورعبادت اوردینِ صحیح کی طرف رہنمائی کی صلاحیت اوراستطاعت تو بڑی چیز ہے کم سے کم اس ملک ہندوستان میں ان کی زندگی کا تسلسل، جسمانی وجود، عزت وآبرو، مساجد و مدارس، اورصدیوں کا دینی و علمی اثاثہ اورقیمتی سرمایہ بھی خطرہ میں پڑگیا ہے۔ وہ نہ صرف دوردراز قصبات اوردیہاتوں میں بلکہ بڑے بڑے مرکزی شہروں میں بھی جیاں وہ بڑی تعداد میں بستے ہیں، اورممتاز صلاحیتوں، ذہنی امتیازات اورمہارتوں کے مالک ہیں، کچھ عرصہ سے خوف و ہراس کی زندگی گزاررہے ہیں اورکہیں کہیں اس کا نقشہ بعینہ وہ ہوگیا ہے جس کی تصویر قرآن مجید نے اپنے بلیغ و معجزانہ الفاظ میں اس طرح کھینچی ہے:

ضاقت علیھم الارض بما رحبت وضاقت علیھم انفسہم (توبہ: 118)”۔

صاحبِ مضمون کی رائے میں اس طرح کے ہمت شکن حالات کی کوئی مثال اگر مسلمانوں کی تاریخ میں ملتی ہے تو وہ ساتویں صدی عیسوی میں تاتاریوں کا حملہ ہے جس نے عالم ِ اسلام کے سیاسی اورعلمی مراکز کو تاخت و تاراج کردیا تھا۔ اسلام کی زبردست دعوتی کشش اورتارتاریوں کے قبولِ اسلام کا تذکرہ کرنے کے بعد موجودہ صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"آج کی صورتِ حال، خاص طور پر جن ملکوں میں مسلمان عددی اقلیت میں ہیں اورماضی میں وہ حکومت واقتدارکے منصب پر فائز رہ چکے ہیں، دوسرے اسلامی ممالک سے مختلف اورزیادہ نازک ہے۔ یہاں ان کی تاریخ( ایک علمی اورسیاسی سازش کے تحت) اس طرح مرتب اورپیش کی گئی ہے کہ وہ اکثریت میں بغض و نفرت اورانتقامی جذبہ پیدا کرنے کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہے۔”

اس کے بعد انہوں نے ہندوستانی مسلم قیادت کی بعض غلط پالیسیوں اورفیصلوں کی جانب اشارہ کیا ہے۔ اس اشارہ میں بہت کچھ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ قیادت بھی، جو مختلف مسلم تنظیموں پر مشتمل ہے اورکسی ایک شخص، جماعت یا تنظیم کو تمام مسلمانوں کی نمائندگی کا حق نہیں دیا جاسکتا، اس نکتہ پر سنجیدگی سے غورکرے اوراگرآج بھی اس کی روش وہی ہے جس کی جانب صاحبِ مضمون نے اشارہ کیا ہے تو اس کے تدارک کی فوری تدابیر کرے۔ لکھتے ہیں:

"پھربعض اوقات ان ملکوں کی سیاسی قیادتوں یا وقتی پیش آمدہ مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی و نمائندگی کرنے والی تنظیموں اور جماعتوں نے غیر معتدل جذباتیت، ناعاقبت اندیشی اور نام و نمود حاصل کرنے کے شوق میں ہنگامہ خیزی سے کام لینے کی غلطی کی، وہاں مسلمان شدید مذہبی منافرت و تعصب، تہذیبی و ثقافتی محاذ آرائی کا شکار ہوئے۔ پھر نصابِ تعلیم، صحافت اورابلاغِ عامہ کے ذریعہ مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کو اولاًتہذیبی ارتداد کا شکاربنانے کا منصوبہ بنایا گیا اوراس کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔”

ان حالات میں مایوسی کا شکارہوجانا اورہمت ہاردینا کوئی بعید نہیں۔ لیکن صاحبِ مضمون قرآن و حدیث، سیرتِ نبوی اوراسوہء صحابہ کی روشنی میں چھ نکاتی لائحہء عمل یا چھ نکاتی حکمتِ عملی پیش کرتے ہیں۔

اول: رجوع الی اللہ، انابت، توبہ و استغفار اوردعا و ابتہال

اس ذیل میں قرآن و سیرت کے حوالے پیش کرنے کے بعد اخیرمیں پر لکھتے ہیں:

"اس بنا پراس وقت دعاومناجات، تلاوتِ قرآن پاک، خاص طورپر ان آیات اورسورتوں کا اہتمام کیا جانا چاہئے جن میں امن و امان اورفتح ونصرت کا مضمون آیا ہے، مثلاً الم ترکیف۔۔۔۔۔۔۔۔، لایلٰف قریش۔۔۔۔۔۔۔۔، اورآیتِ کریمہ،لا الٰہ الا انت سبحانک انی کنت من الظٰلمین، (تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، اوربے شک میں قصوروارہوں۔)

دوم: معصیتوں سے توبہ کیا جائے اورگناہوں سے اجتناب کیا جائے

اس سلسلے میں حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کے ایک فرمان کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں آپؒ نے، دیگر باتوں کے علاوہ’ اپنے افواج کے ایک قائد کو یہ تاکید کی ہے کہ "ہم اپنے دشمن سے جنگ کرتے ہیں اوران کے گناہوں کی وجہ سے ان پر غالب آجاتے ہیں، اگرہم دونوں معصیت میں برابر ہوجائیں تو وہ قوت اورتعداد میں ہم سے بڑھ کر ثابت ہوں گے، اپنے گناہوں سے زیادہ کسی کی دشمنی سے چوکنا نہ ہوں، جہاں تک ممکن ہو اپنے گناہوں سے زیادہ کسی چیز کی فکر نہ کریں۔”

سوم:غیر مسلموں میں اسلام کا تعارف

اس سلسلے میں اپنے کرب کا اظہارکرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

"یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے ا س ملک میں اس فرض کی ادائیگی میں اوراپنی ذمہ داری کے احساس و شعورمیں بڑی کوتاہی کی، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں کی اکثریت اسلام کی ان روزمرہ کی خصوصیات، نشانیوں اوراذان و نماز (جو شہروں ، دیہاتوں اورمحلوں میں پنج وقتہ ہوتی ہے) کے بارے میں بعض اوقات ایسے سوالات کرتے ہیں کہ بجائے ان پر ہنسی آنےکے اپنی کوتاہی پررونا آنا چاہئے۔”

اس کا حل کیا ہے؟

"ہمارے پاس سب سے بڑی طاقت وہ فطری، معقول، پرکشش اوردل ودماغ کو تسخیرکرنے والا دین، قرآن مجید کا اعجازی صحیفہ اورنبی آخرالزماں ﷺ کی دلکش اوردل آویز سیرت اوراسلام کی قابلِ فہم اورقابلِ عمل اورعقلِ سلیم کو متاثرکرنے والی تعلیمات ہیں جو اگر کھلے دماغ اورصاف ذہن سے پڑھی جائے تو اپنا اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔”

چہارم:بقائے باہم اورانسانی بنیادوں پر اتحادو تعاون کی راہیں تلاش کرنا

لکھتے ہیں:

"بقائے باہم، انسانی اورشہری بنیادوں پر اتحادوتعاون اورانسانی جان اورعزت و آبرو کے تحفظ اورانسان کے احترام اوراس سے محبت کی تبلیغ اورتلقین ضروری ہے جو اس ملک کی فضاکو مستقل طورپر معتدل اورپرسکون بلکہ راحت اورباعزت رکھنے کی ضامن ہے اورجس کےبغیر اس ملک کی ( جس کے لئے مختلف مذاہب اورتہذیبوں کا مرکز اوردیس ہونا مقدرہوچکا ہے) ترقی اورنیک نامی الگ رہی امن و امان اورسکون و اطمینان کے ساتھ باقی رہنا بھی مشکل ہے۔”

اس مقصد کے حصول کے لئے ‘تحریکِ پیامِ انسانیت’ کے نام سے مولانا علی میاںؒ نے جس تحریک کا آغاز کیا تھا اس کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اورکثیرتہذیبی ملک میں ‘تحریکِ پیامِ انسانیت’ جیسی کوششوں کی اہمیت اظہر من الشمس ہے۔ ان تحریکوں کے ذریعے ایک ساتھ کئی مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں لیکن دو مقصد سب سے اہم ہیں: اول، اس طرح کی کوششیں مسلمانوں کو اقدامی پوزیشن اورقائدانہ حیثیت میں متعارف کراتی ہیں۔ کسی دوسرے کے جھنڈے تلے جمع ہوکر نعرہ بازی کرنے والی بھیڑکے بجائے وہ ایک بامقصد اورویژنری جماعت کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں جس کے پاس اپنے حقوق کی بازیابی، کسی مخصوص زبان کے تحفط، ملازمتوں اوردیگرتعلیمی و معاشی مواقع میں اپنے مفادات کے تحفظ کےبجائے ملک و ملت اورانسانیت کے نام کوئی پیغام ہوتا ہے اوروہ ایک ذمہ دار اورفکرمند شہری کے طورپر سماج کے حالات سے نہ صرف متاثر ہوتا ہے بلکہ اپنی بساط بھر حالات کو صحیح رخ دینے کی کوشش بھی کرتا ہے۔

اس کےساتھ ساتھ اس طرح کی کوششیں ملک میں مسلمانوں کی شبیہ سازی میں مثبت رول اداکرتی ہیں۔ عالمی سیاسی اورتہذیبی صورت حال نے مسلمانوں کی شبیبہ کو جس منظم انداز میں بگاڑا ہے اس سے ہر شخص واقف ہے۔ اس سلسلے میں نفع و نقصان اورخالص تجارتی اورغیر اخلاقی اقدار کے زیر اثر کام کرنے والے میڈیا ہاؤسز نے جو گھناؤنا کردار ادا کیا ہے وہ صحافت کے ماتھے پرایک کلنک ہے۔

لیکن افسوس کہ اس اہم تحریک کا آج کہیں نام و نشان بھی نہیں۔ ملک میں گذشتہ چند برسوں میں قیامت برپا ہوگئی۔ کیا تھا جو نا ہوا ! آئین اورجمہوری اصولوں اورشہری حقوق کی دھجیاں اڑائی گئیں، مسلمانوں، دیگر اقلیتوں اورمظلوم طبقات کے خلاف زہرافشانی کرنے والوں، ان کے خلاف بھیڑ کو منظم کرنے والوں، ان کا قتل کرکے اس پر جشن منانے والوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اگر نہ ہوئی تو "تحریکِ پیامِ انسانیت” میں کوئی تحریک پیدا۔ نہ کوئی جلسہ، نہ کوئی میٹنگ، نہ کوئی تحریک، نہ کوئی پیام، نہ کوئی ریلی، نہ کوئی پریس کانفرنس۔

کیا یہ تحریک اب ختم ہوچکی ہے؟شاید ہاں۔ اس لئے کہ اب اس کی سرگرمیاں کہیں نظرنہیں آتی ہیں۔

شاید نہیں۔ اس لئے کہ ابھی بھی کچھ مولوی صورت لوگ بطورتبرک اس کی میٹنگ کسی مسجد میں منعقد کرتے ہیں تاکہ بزرگوں کی یادگارکو بطورتبرک یادکرلیا جائے۔کبھی کبھی خون کے عطیے کے کیمپ اورکمبل کی تقسیم کی خبربھی آجاتی ہے۔ افسوس!!!

توہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا

سوال یہ بھی ہے کہ یہ تحریک کن معنوں میں ‘تحریک’ تھی؟ حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ کی زندگی میں بھی، جہاں تک میری معلومات ہے، یہ کبھی ان معنوں میں تحریک نہیں رہی کہ اس کے پاس ہندوستانی سماج اورمسلمانوں کے مستقبل کے متعلق کوئی واضح وژن اوراس کو بروئے کارلانے کے لئے پروگرام ،رضاکار، دفتر اوردیگرضروری لوازمات تھے۔ ان کی زندگی میں اس کے بینر تلے کچھ سرگرمیاں صرف ان کی شخصی کشش اورشخصیت کے وزن کی وجہ سے انجام پاجاتی تھیں۔ یہ نیک نیتی سے شروع کی جانے والی ایک ایسی کوشش تھی جسےاپنے مشن کو قائم رکھنےاورآگے بڑھانے کے لئے وژن، افراد اورطریقہء کار ہر سطح پر زبردست قحط کاسامنا کرنا پڑا۔ حضرت مولانا علی میاں ؒ بھی اپنی گوناں گوں علمی اورملی سرگرمیوں کی وجہ سے اس محاذ پرخاطرخواہ توجہ نہیں دے سکے جس کا قلق انہیں ہمیشہ رہا۔

تحریکِ پیامِ انسانیت کا موضوع ایک علحیدہ مضمون کا متقاضی ہے اس لئے ہم سرِدست یہاں اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھیں گے، لیکن اس ‘تحریک’ کے آغاز اورمقاصد، ابتدائی سرگرمیاں، پیش آنے والے مسائل، اورحضرت مولانا علی میاںؒ کی وفات کے بعد اس پرجو گذرا اسے جلدہی کسی تحریر میں مختصراً عرض کرنے کی کوشش کریں گے۔لیکن یہاں اتنا عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جن حالات میں مولانا علی میاںؒ نے پیامِ انسانیت کی تحریک کا آغاز کیا تھا حالات اب بھی اس سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دارالعلوم ندوہ العلماء کے ارباب و حل و عقد اور مولانا علی میاں ؒ سے ذہنی و فکری ہم آہنگی رکھنے والے افراد و حلقے سرجوڑ کر بیٹھیں اوراس تحریک کے احیاء کی ممکنہ صورتوں پر غوروخوض کریں۔

پنجم، مصائب و آزمائش کے سامنے استقامت و شجاعت کا مومنانہ کردار

بعض مسلم اہلِ علم کے برخلاف مولاناؒ مسلمانوں کو صرف صلح پسندی، صبر و تحمل اوراپنے جائز حقوق سے بھی یک گونہ دست برداری کا درس نہیں دیتے ہیں بلکہ، انہیں کے الفاظ میں، "(مسلمانوں میں) شجاعت ودلیری کی صفت، راہِ خدا میں مصائب برداشت کرنے اوراس پر اللہ کے اجر وثواب کی طمع اورجنت اورلقائے رب کا شوق اورشہادت فی سبیل اللہ کے فضائل کا استحضار بھی موجود وزندہ رہنا چاہئے۔”

ہجومی دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد اس حقیقت کی طرف بعض افراد نے سوشل میڈیا پر توجہ دلایا کہ اگرصورتِ حال ایسی ہوجائے کہ خلاصی کی کوئی صورت باقی نہ رہے اوریقین ہوجائے اب وقتِ اجل آچکا ہے تو بجائے کفریہ کلمات کی ادائیگی اورظالموں سے رحم کی بھیک مانگنے سے بہتر ہے کہ استقامت اورپامردی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے مومنانہ شان کے ساتھ جامِ شہادت نوش کیا جائے۔

مولاناؒ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے۔ جذبہء شہادت کی آبیاری کے لئے وہ صحابہء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے حالات اوراورامت کے ان عظیم لوگوں کے کارناموں کا مطالعہ کرنے اورانہیں سننے اورسنانے کا مشورہ دیتے ہیں جنہوں نے راہِ حق میں ہر طرح کی تکلیف اورمصیبت خندہ پیشانی سے صرف اس لئے برداشت کیا کہ وہ ان آزمائشوں کو قربِ الٰہی اورحصولِ جنت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ظاہر ہے کسی مومن کے لئے آزمائش کی گھڑی میں صبر و استقامت کے لئے اس سے بڑا کوئی محرک نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے انہوں نے چند کتابوں کی تصریح بھی کردی ہے۔ جیسے، واقدی کی "فتوح الشام” کا منظوم اردو ترجمہ "صمصام الاسلام”، "حکایاتِ صحابہ” از حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا ؒ، "شاہنامہء اسلام” از حفیظ جالندھری، اورخود مولاناؒ کی کتاب "جب ایمان کی بہار آئی” جو حضرت سید احمد شہیدؒ کے مجاہدانہ اورسرفروشانہ واقعاتِ زندگی پر مشتمل ہے۔کتابوں کی یہ تحدید مناسب نہیں۔ یہ کتابیں مولاناؒ کے ذوق سے قریب تر تھیں اس لئے انہوں نے صرف ان کتابوں کا نام لکھا ہے ورنہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں اورمکاتبِ فکر کےلوگ اپنے اپنے ذوق اورحلقے میں رائج کتابوں سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

ششم، نئی نسل کی دینی اوراخلاقی تربیت

مولاناؒ نے سب سے آخر میں نئی نسل کے متعلق والدین اورسماج کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آزادی کے بعد جب ایک سیکولر جمہوری ریاست کی تشکیل کا آغاز ہوا اورریاست نے تعلیم کے ذریعے اپنےبنیادی افکارو اصول کی ترویج و اشاعت کا کام لینا شروع کیا تو مسلمانوں کےلئے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا کہ وہ کس طرح اس غیرجمہوری ریاست میں اپنی نئی نسل کی دینی و اخلاقی تعلیم و تربیت کا انتظام کرسکیں تاکہ وہ اپنے عقائد اورتاریخ سے نابلد نہ رہ جائیں۔

حضرت مولاناؒ اس سلسلے میں بہت حساس واقع ہوئےتھے اوراس کی اہمیت کی جانب ہمیشہ توجہ دلاتے رہتے تھے۔ حضرتِ یعقوبؑ نے اپنی وفات سے عین پہلے اپنی اولاد سے جس فکرمندی کے ساتھ سوال کیاتھا کہ "ماتعبدون من بعدی” یعنی تم میرے بعد کس کی بندگی کروگے؟ اس کا پرتو حضرتِ مولاناؒ کی ان گنت تحریروں اورتقریروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ آزاد ہندوستان میں نئی نسل کی دینی تعلیم اوراخلاقی تربیت ان کی ترجیحات کی فہرست میں بہت اوپر تھی۔

اختتامیہ: حضرت مولانا علی میاںؒ نے جن نکات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے ان میں ہماری رہنمائی کے لئے بہت کچھ موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ ناموافق حالات میں بے جا تبصروں، بدگمانیوں اوربدتمیزیوں سے اپنادامن بچاتے ہوئے حالات کو بدلنےکی کوشش اپنی ذات، اپنے گھر اوراپنے آس پڑوس سے کیا جائے۔ علمی مباحثوں، سیمیناروں، مضامین اورتقاریر سب کی اہمیت تسلیم لیکن ان سب میں اگر ‘کردار’ خون بن کر نہ دوڑے اورروح بن کر نہ سمائے تو ان تمام کوششوں کا حاصل جمع، اللہ نہ کرے، مزید تفریق و تقسیم کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.