تشدد کرنے والی بھیڑ کے بے قابو ہونے کی ذمہ داری کس کی۔۔۔؟

تحریر: ریچا جین کالرا
ترجمہ: نازش ہما قاسمی
کیا ہندوستانی جمہوریت میں ہجومی تشدد کرنے والے بے قابو ہوں گئے ہیں۔ یہ سوال اس لیے کیونکہ تشدد کرنے والی بھیڑ کے غصے کی بلی چڑھنے والوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ حکومتیں سخت پیغام دینے سے کترا رہی ہیں ، اور اس سے قانون کو توڑنے والوں کے حوصلے مزید بلند ہورہے ہیں۔ حکومت کبھی لاچار تو کبھی لاپرواہ نظر آتی ہے، ۱۸؍جون کو جھارکھنڈ کے تبریز انصاری کی موت اس لاپروائی کی ایک جان لیوا مثال ہے۔ تبریز کی موت کےلیے جتنے ذمہ دار مارپیٹ کرنے والے قاتل ہیں اتنے یا اس سے زیادہ ذمے دار وہ ڈاکٹر اور پولس والے ہیں جنہوں نے اس کی بگڑتی حالت کو نظر انداز کرکے اسے جیل بھیج دیا۔ یہ حقیقت انتظامیہ کی طرف سے جاری رپورٹ میں سامنےآئی ہے۔ یہ جان لیوا لاپروائی اس لیے ہے کیوں کہ جس دماغی بیماری کی وجہ سے تبریز کی موت ہوئی ہے اس پر ڈاکٹروں نے کوئی دھیان نہیں دیا، تبریز پر حملہ کے دوران اس سے جے شری رام ، جے ہنومان کے نعرے لگوائے گئے۔ ہجومی تشدد کرنے والوں پر لگام کسنے کےلیے سخت قانون اور قانون کا ڈردونوں ہی غائب ہے۔
نیوز پورٹل دی کیونٹ کے ایک اندازے کے مطابق ۲۰۱۵ سے اب تک ماب لنچنگ یا ہجومی تشدد کے جنگل میں قانون کے آگے کم سے کم ۹۵ لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ یہ بھیڑ کبھی گئو ہتیا، کبھی گئو ونش(گائے کی نسل ) کی تسکری کے نام پر سماج کی ٹھیکیداری لے لیتا ہے تو کبھی چوری کے شک میں، کبھی بچہ اُٹھانے کی افواہ پر قانون کی دھجیاں اڑا دیتا ہے۔ ابھی تک صرف منی پور میں ہی ماب لنچنگ کے خلاف ایک خصوصی قانون ہے، مدھیہ پردیش حکومت اس پر جلد عمل کرنے کا اعلان کرچکی ہے تو اترپردیش میں قانون کمیشن نے اس ماب لنچنگ پر لگام کسنے کےلیے ایک نئے قانون کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یوپی میں ۲۰۱۲ سے اب تک ماب لنچنگ کے ۵۰ معاملے سامنے آچکے ہیں جن میں ۱۱ ؍لوگ مارے گئے ہیں ان میں سے ۲۵ معاملے گئو ونش کے نام پر حملے سے منسلک ہیں۔
قانون بنانے کا کام پارلیمنٹ، اسمبلی اور حکومتوں کا ہے؛ لیکن گھڑیالی آنسوئوں اور کوری نصیحت سے زیادہ فی الحال معاملہ آگے نہیں بڑھا ہے۔ یہ حال تب ہے جب سال ۲۰۱۸ میں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے پارلیمنٹ کو گئو رکشا اور ماب لنچنگ سے نپٹنے کےلیے قانون بنانے کا مشورہ دیا تھا ۔۔۔تو کیا سیاسی مجبوریاں حکومتوں کے ہاتھ باندھ رہی ہیں؟ سیاسی مجبوریاں اس لیے کیوں کہ گئو رکشا کا ایجنڈہ چلانے والے رائٹ ونگ کے نظریات سے پھلے پھولے ہیں یہ مرکز میں اقتدار پر براجمان گروہ کے ووٹ بینک کا بھی حصہ ہیں جس پر لگام کسنا سیاسی نفع کا سودا نہیں ہوسکتا ۔ کیوںکہ ۲۰۱۵ میں دلی سے قریب دادری میں گئو ونش کے نام پر پیٹ پیٹ کے موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے محمد اخلاق کے قتل کے ملزمین سے ہمدردی جتانے اس وقت کے مرکزی وزیر مہیش شرما خود گئے تھے، قتل کے ایک ملزم کی بیماری سے موت پر اس کے اہل خانہ کے دبائوکے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے اسے ملک کے جھنڈے میں لپیٹ کر انتم سنسکار کےلیے لے جایا گیا۔ جھارکھنڈ میں ماب لنچنگ کے شکار مسلم تاجر کے قتل میں مقدموں کا سامنا کررہے ملزمین کی قانونی فیس ادا کرنے میں بی جے پی نے مدد کی۔ یہ حقیقت خود اس علاقے کے ہزاری باغ کے ممبر پارلیمنٹ جینت سنہا نے بی بی سی کو دئیے انٹرویو میں تسلیم کی۔
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ماب لنچنگ کے شکار زیادہ تر لوگ اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان ہیں ان کے مذہب، کھان پان، رہنے کے طور طریقے اور نظریات کے نام پر ہورہے حملے عام ہوگئے ہیں۔ ہریانہ کے رہنے والے حافظ جنید کو ٹرین میں سیٹ کو لے کر ہوئے ہنگامہ میں پیٹ پیٹ کر قتل کردیاگیا، دو سال قبل کے اس معاملے میں آج بھی متاثرہ خاندان کو انصاف کا انتظار ہے۔ ہندو شدت پسند اسے فرقہ وارانہ طور پر استعمال کرتے ہیں، سوشل میڈیا آگ میں گھی ڈالنے کا کام کرتا ہے باقی کاکام غیر جانبداری کھوچکے نیوز چینل کردیتے ہیں۔ ہندو مسلم کے نام پر ٹی آر پی بٹورنے کی اندھی دوڑ جاری ہے۔
یہ صحیح ہے کہ وزیر اعظم نے گئو رکشا کے نام پر ماب لنچنگ کی مذمت کرکے قانون کو سختی سے عمل میں لانے کی بات کہی؛ لیکن ساتھ ہی یہ طنز بھی جوڑ دیا کہ کیا لنچنگ ۲۰۱۴ سے پہلے نہیں ہوتی تھی؟ ایسا نہیں ہے کہ نہیں ہوتی تھی ۔۔۔لیکن یہ معاملے جس رفتار سے گزشتہ پانچ برسوں میں بڑھے ہیں اسے لے کر حکومت کو اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں نفرت سے منسلک تشدد یا ہیٹ کرائم کے نوے فیصدی معاملے مودی حکومت کے دور اقتدار میں آنے کے بعد کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ سرکار کی سرپرستی میں کیا مذہب اور سماج کی ٹھیکیداری کرنے والے ہڑدنگی اور غیر سماجی عناصر کو من مانی اور غنڈہ گردی کی ان کہی چھوٹ ہے؟ دیش بھکتی، ہندوازم، گئو ماتا کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے والے یہ سب نظریات سے زیادہ اپنی سیاست چمکانے کے نام پر کرتے ہیں۔ گئو ونش کی حفاظت کے نام پر مشتعل ہوئی یہ بھیڑ کبھی چوری تو کبھی بچہ چوری کے نام پر لوگوں کو مار کر موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔ قانون کا مذاق اڑا رہی ہے یہ ہمارے سماجی تانے بانے کو ایک ایسی ٹھیس پہنچا رہا ہے جس کی بھرپائی آسان نہیں ہے۔ ایک سماج کے طور پر ہم آگے بڑھنے کی جگہ پیچھے دھکیلے جارہے ہیں۔ یہ پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ کے لیے بدنما دھبہ ہے۔ آنکھیں موند کر حکومتیں اپنی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتیں۔۔۔!
( ریچا جین کالرا این ڈی ٹی وی انڈیا میں پرنسپل اینکر اور ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ہیں)
Comments are closed.