کیسربائی بلڈنگ سانحہ یہ سب موت کے سودا گر ہیں۔۔۔۔

شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز/ سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن )
یہ موت کے سوداگر ہیں۰۰۰
کارپوریشن ، مہاڈا ا ورریپئر بورڈ کے کرپٹ اہلکاران ،ہر وقت اپنی جیبیںبھرنے کے لئے تیار بے حس پولس افسران ، خودغرض بلڈر اور بدعنوان سیاست دان ! ان کے اتحاد نے مل کر ایک ایسے گھناؤنے اور خودغرضانہ اژدہے کو جنم دیا ہے جو آئے دن بے بس اور مجبور شہریوں کی زندگیاں نگلتا رہتا ہے ۔۔۔ گذشتہ16 جولائی کے روزاس اتحاد کی خودغرضی نے پھر ممبئی کی ایک بلڈنگ کو تاش کے پتّوں کی طرح بکھیر دیا ۔ اس المناک سانحے میں پہلے دن دس زندگیوں کے چراغ گل ہوئے تھے اور اب مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 14 تک جاپہنچی ہے ۔ وہ جو اس سانحے کے بعد نہیں رہے ان میں ننھی جانیں بھی تھیں ، ایسی جانیں جنہوں نے ابھی زندگی کو بس آنکھیں کھول کردیکھا ہی تھا۔ اور ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں میں ایک خوشحال زندگی کے خواب سجارکھے تھے ۔ وہ تو چلے گئے اور جنہیں اپنے پیچھے چھوڑ گئے ان کی آنکھیں شاید ہی کبھی خشک ہوسکیں ۔ لیکن وہ جو اس المناک سانحے کے ذمے دار ہیں ، کرپٹ ،خودغرض اور بدعنوان سرکاری افسران ، بلڈر اور سیاست دان ، یقین مانیں وہ چند دنوں کے لئے بس کسی کونے میں دبک جائیں گے اور جیسے ہی ڈونگری ٹنڈیل اسٹریٹ کی ’ کیسربائی مینشن‘ کے انہدام سے اٹھنے والی دھول کچھ بیٹھے گی یہ پھر سے سرنکال لیں گے ۔ اور پھر کوئی بلڈنگ گرے گی !
’ کیسربائی مینشن ‘نہ کوئی پہلی بلڈنگ ہے جو گری ہے اور نہ ہی یہ گرنے والی کوئی آخری بلڈنگ ہے ۔ اس ملک کا نظام، بالخصوص عروس البلاد ممبئی کا ، کچھ اس قدر نامنصفانہ ہے کہ اس طرح کے سانحے اس وقت تک روکے ہی نہیں جاسکتے جب تک کہ سرکار انہیں روکنے کا عزم مصمم نہ کرلے ۔۔ اور شاید ایسا کبھی نہ ہو ! اس لئے کہ وہ جو سرکار میں بیٹھے ہوئے ہیں کوئی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں ۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ ’ کیسر بائی مینشن‘ کے گرنے کا سبب کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے ۔ جواب پیچیدہ ہے ۔ مثلاً یہ کہ یہ کوئی سوسالہ قدیم عمارت تھی اور اس عمارت کے کرائے دار اس کا ’سیس‘ ( ایک طرح کا کرایہ) بھرتے تھے اور عمارت کے خستہ حال ہونے کے باوجود اسے خالی کرنے کو تیار نہ تھے ! دوسرا یہ کہ اس قدیم عمارت کا ایک بڑا حصہ غیر قانونی تھا ، جو تعمیرات کی گئی تھیں ان کے لئے کوئی سرکاری اجازت نہیں تھی ! تیسرا یہ کہ اس خستہ حال عمارت کی مرمت کے لئے جتنی رقم درکا تھی وہ نہ ہی تو ریپئر بورڈ دینے کو تیار تھا ، نہ ہی عمارت کے مالکان اور نہ ہی رہنے والے کرائے دار، لہٰذا بلڈنگ کی خستہ حالی جوں کی توں برقرار تھی! اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ جب عمارت خستہ حال تھی اور اس کے گرنے کا شدید ترین خطرہ تھا تب بھی لوگ کیوں اسے خالی کرنے کو تیار نہیں تھے ؟ اس سوال میں سرکاری بے حسی اور لاپروائی کی ایک پوری داستان پوشیدہ ہے ۔۔۔
جنوبی اور وسطی ممبئی کی کوئی 14 ہزار عمارتیں ایسی ہیں جو ’ سیس بلڈنگ‘ کہلاتی ہیں ، ان کے کرائے داروں کو ، انگریزوں کے دور کے لحاظ سے جوکرایہ طے ہے وہ ادا کرنا پڑتا ہے ۔ کرائے دار اپنے مکان ؍ کمرے فروخت نہیں کرسکتے ، بلڈنگ کا مالک انہیں فروخت نہیں کرسکتا ۔ اگر کرائے دار سے کوئی مکان ؍ کمرہ خریدنا چاہے تو اس کے نام ملکیت ہونہیں پاتی ۔ ایک درمیان کی شکل نکالی گئی ہے جسے ’پگڑی‘ کہا جاتا ہے ۔ مکان ؍کمرہ لینے والا جو رقم خریداری کے لئے ادا کرتا ہے اس کے لحاظ سے ایک رقم طئے کی جاتی ہے جو بلڈنگ کے ٹرسٹ یعنی مالکان کو دینی ہوتی ہے ۔ اس پر بھی خریدار کو حق ملکیت نہیں مل پاتا اس لئے عام طور پر لوگ ’ پگڑی‘ کے مکان خریدنے سے بچتے ہیں ۔ ’سیس‘ کے نام پر جو رقم جمع ہوتی ہے وہ عمارت کی مرمت پر لگائی جاتی ہے لیکن چونکہ یہ رقم معمولی ہوتی ہے اس لئے بلڈنگ کی مرمت ناقص رہتی ہے ۔۔۔ ’کیسر بائی مینشن‘ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا۔ریپئر بورڈ ہر سال 40 کروڑ روپئے خستہ حال عمارتوں کی مرمت پر خرچ کرتی ہے پر یہ رقم اونٹ کے منھ میں زیرہ کے مصداق ہے کیونکہ 14 ہزار سے زائد عمارتیں خستہ حال ہیں ! اب رہا سوال کرائے دار کیوں خطرناک عمارتوں کو نہیں چھوڑتے ؟ تو یہ اگر عمارت چھوڑدیں تو جائیں کہاں؟ ’ٹرانزٹ کیمپ ‘ممبئی سے دوردراز کے علاقوں میںبنائے گئے ہیں ۔ اور وہ بھی ’بھرے‘ ہوئے ہیں یا ان پر بھی ’ قبضے‘ ہیں ۔ ’کیسربائی مینشن‘ کے ہی چند کرائے داروں نے ’ٹرانزٹ کیمپ‘ جانے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں کوئی جگہ نہیں ملی ۔ ایسے ہی اگر یہ کمرے یا مکان چھوڑ دیں تو سڑک پر آجائیں ! اگر یہ دور جاتے ہیں تو روزی روٹی اور بچوں کے اسکول کا مسئلہ منھ کھولے سامنے آکھڑا ہوتا ہے ۔ ان عمارتوں میں رہنے والوں کی اکثریت مقامی علاقوں میں ہی کاروبار کرتی ہے ۔ مہاڈا ، ریپئر بورڈ میں ایسی بدعنوانی ہے کہ مرمت کےنام پر جو رقم منظور ہوتی ہے شاید اس میں کی نصف رقم ہی مرمت کے لئے استعمال ہوتی ہو !
اب سوال ہے غیر قانونی تعمیرات کا ، تو چونکہ بلڈنگ کے مالکان کو ’سیس بلڈنگوں‘ سے کوئی فائدہ نہیں ہے اس لئے وہ غیر قانونی تعمیرات کر کے اپنی جیب بھرتے ہیں ۔ کرائے دار اپنی خستہ حال بلڈنگوں پر غیر قانونی تعمیرات کو دیکھ اور خطرات کا اندازہ کرکے بھی خاموش رہتے ہیں کیونکہ وہ ٹرسٹ یا مالکان بلڈنگ سے لڑجھگڑ نہیں سکتے ۔ یہ غیر قانونی تعمیرات بھی راتوں رات یوں ہی نہیں ہوجاتیں بلکہ کارپوریشن اور دیگر سرکاری محکموں کے کرپٹ اہلکاران اور پولس افسران کی مٹھیاں گرم کی جاتی ہیں ۔ بلڈر لابی اپنے اثرات کا استعمال کرتی ہے ۔ سیاست داں علیحدہ سے دباؤ ڈالتے ہیں ، اس طرح غیر قانونی تعمیرات کے نام پر سب ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں ۔۔۔ مشکل اور خطرے میں صرف کرائے دار ہوتا ہے ۔
’کیسر بائی مینشن‘ کی غیر قانونی تعمیرات سے کیا اس عمارت کا ’ شیعہ اثنا عشری ٹرسٹ‘ لاعلم تھا ؟ جی نہیں ، یہ سارا غیر قانونی کام اس کی مرضی ہی سےہوا ہوگا ۔۔۔ سارے سرکاری افسران بشمول پولس افسران اس ’کاربد ‘ میں شامل رہے ہونگے ۔ مقامی ایم ایل اے امین پٹیل کا کہنا ہیکہ انہوں نے اپنی طرف سے اس خستہ حال بلڈنگ کی اوراسی طرح کی دوسری بلڈنگوں کی مرمت کے لئے بھی کوششیں کیں ، اپنے فنڈ سے پیسے بھی دیئے ، لیکن عمارتیں اسقدر خستہ ہیں کہ ان کی مرمت کے لئے زرکثیر چاہیئے اور پیسہ نہ مہاڈا دینے کو تیار ہے اور نہ ہی ریپئر بورڈ ۔ امین پٹیل کا کہنا ہیکہ بلاشبہہ غیر قانونی تعمیرات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے زندگیاں خطرے میں پڑتی ہیں اور اس کے لئے انہوں نے کارپورحشن کو یہ تنبیہ کی ہے کہ اگر اب ایک بھی اینٹ غیر قانونی رکھی گئی تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے ، لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہیکہ ایسی عمارتوں کے کرائے داروں کو چاہیئے کہ وہ اپنی جانیں بچانے کی سوچیں ۔ سماج وادی پارٹی کے کارپوریٹر رئیس شیخ کا کہنا ہیکہ یہ اموات بدعنوان سرکاری افسران اور سیاست دانوں اور بلڈروں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہیں ۔ ان کی بات غلط نہیں کہی جاسکتی ۔ ان عمارتوں پر بلڈروں نے بالکل اسی طرح سے نظریں گاڑ رکھی ہیں جیسے کہ گدھ اپنی نظریں لاشوں پر گاڑے رکھتے ہیں ۔ ’کرپٹ گٹھ جوڑ‘ جس میں ایسی بلڈنگوں کے مالکان بھی شامل ہیں ،یہی چاہتا ہے کہ کرائے دار کسی طرح ٹلیں تاکہ انہیں اپنا کھیل کھیلنے اور اپنی جیبیں بھرنے کا موقع مل سکے ۔۔۔
ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ 22 برسوں میں انہدام کے ایسے ہی المناک سانحات میں 500 کے قریب لوگ مارے گئے ہیں ۔۔۔ 31 اگست 2017 کا ایک سانحہ یاد آتا ہے جب بوہری محلہ (بھنڈی بازار) میں ایک پانچ منزلہ عمارت دھڑام سے نیچے آگری تھی اور 33 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے ۔ وہ بلڈنگ بھی ’ کیسربائی مینشن‘ کی طرح ہی خستہ حال تھی۔ 2017ء ہی میں گھاٹ کوپر میں ایک عمارت گری تھی جس میں 17 افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ 2018 میں گورے گاؤں میں ایک ایسے ہی سانحے میں تین افراد کی جانیں گئی تھیں ۔ یہ بڑی لمبی فہرست ہے ۔
’ کیسر بائی مینشن‘ جیسے سانحے مزید نہ ہوں اس پر توبحث نہیں ہورہی ہے پربحث اس سوال کو لے کر ہے کہ ’ کیسر بائی مینشن‘ قانونی تھا یا غیر قانونی؟ میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب بحث کرنے والے ریحان شیخ کی بیوی سائرہ شیخ کی موت کے ذمے دار نہیں ہیں ؟ ایک برس قبل ہی ریحان اور سائرہ کی شادی ہوئی تھی ، دونوں نے اس عمارت میں ایک کمرہ کرائے پر لیا تھا ، ان کی آنکھوں میں ایک خوشحال زندگی کے سپنے تھے ۔ سائرہ کی موت کے ساتھ ریحان شیخ کے تمام سپنے ٹوٹ گئے ہیں ۔ سلمانی خاندان پر جو غم والم کا پہاڑ ٹوٹا ہے کیا اس کے ذمے دار یہ ’ موت کے سوداگر‘ نہیں ہیں؟ اس خاندان نے ثناء اور اس کے دوسالہ بیٹے زبیر اور مزمل اور ننھے ابراہیم کو کھودیا ہے ۔ کیا یہ سب جاوید اسمعیل ، عبدالستار کالوشیخ اور صبیحہ ناصر شیخ کی موت کے ذمے دار نہیں ہیں؟ ہیں، یہ سب ’موت کے سوداگر ‘ہیں ، یہ کرپٹ سرکاری افسران ، کارپوریشن کا ٹولہ ، خود غرض بلڈر، بے حس مالکان بلڈنگ ، ٹرسٹی اور وہ سیاست دان جو بدعنوانی میں ملوث رہے ، سب ذمے دار ہیں اور سب ہی ’موت کے سوداگر ‘ ان میں مہاڈا بھی شامل ہے اور ریپئر بورڈ بھی ۔۔۔
این سی پی کے قومی ترجمان نواب ملک نے بالکل درست کہا ہیکہ ’ ریپئر بورڈ کے افسران کو جیل میں ڈالا جائے ۔ ‘ رئیس شیخ کا مطالبہ بھی صحیح ہے کہ ’ بلڈنگ شعبہ کے ملازمین کو گرفتار کیا جائے ‘۔ اور رکن اسمبلی امین پٹیل کی یہ بات بھی سچ ہی ہے کہ ’ حادثہ کا ذمہ دار مہاڈا ہے ۔‘ پر یہ بھی سچ ہیکہ اس حادثے کے ذمے دار بلڈنگ کے ذمہ داران بھی ہیں اور ہم لوگ بھی کہ ہم روزانہ ہی غیر قانونی تعمیرات ہوتے دیکھتے ہیں اور حکام سے باز پر س یا احتجاج کرنے کی بجائے آنکھیں بند کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔۔۔ اور یقیناً وہ سیاست دان بھی ہیں جو کسی نہ کسی کے دباؤ میں آکر غیر قانونی تعمیرات سے آنکھیں موڑ لیتے ہیں ۔

Comments are closed.