کہانی: بھیڑ کے بھیڑیے

محب اللہ قاسمی

نوکری کی تلاش میں بھٹکتا ہوا اور در در کی ٹھوکریں کھا ہوا راکیش کبھی اس شہر تو کبھی اس شہر،نوکری اور انٹرویو کے لیے سینکڑوں دفتر کا چکر لگاچکا تھا۔ مگر کہیں نوکری نہیں مل رہی تھی یا تو جگہ خالی نہیں یا پھر کسی سفارش۔ راکیش ان چکروں سے پریشان ہو گیا تھا۔ تبھی اس کی ملاقات ایک انجان آدمی سے ہوئی۔

دیپک شرما نامی اس انجان آدمی نے راکیش کو دیکھا کہ وہ مضبوط طاقت ور ہے جو اس کے کام کا بندہ ہو سکتا ہے۔ اسے اپنے قریب کیا اور پیار سے سمجھایا کہ دیکھو اب ہمارے دیش میں نوکری نہیں ہے۔ پڑھ لکھ کر تم کوئی دوسرا معمولی کام بھی نہیں کر سکتے۔ اس لیے میرے پاس تمہارے لیے ایک کام ہے۔ اس میں پیسہ بھی ہے اور بڑے بڑے لوگوں کا سپوٹ بھی ملے گا۔

سہمے ہوئے انداز میں راکیش نے اس کی پوری بات سننے کے بعد پوچھا۔ تمہارا نام کیا ہے؟ اور مجھے کیا کرنا ہوگا؟

اس آدمی نے بتایا: میرا نام دیپک شرما ہے اور میں نے بھی گریجویشن کیا ہے۔ مگر تمہاری ہی طرح مجھے بھی کوئی نوکری نہیں مل رہی سو میں نے ایک سنگٹھن جوائن کیا ہے۔ تم میرے ساتھ چلو۔ میرے ہی پاس رہنا۔ دھیرے دھیرے تمھیں کام بھی سمجھ میں آ جائے گا۔ یہ کہہ کر دیپک اسے اپنے گھر لے گیا۔

رات ہوئی سب لوگ سوگئے تبھی ایک فون آیا اور دیپک کچھ ڈنڈے،رسی اور معمولی ہتھیار لے کر گھر سے نکلا اور راکیش سے کہا میرے آنے تک تم یہی رہنا میں دور ایک گاؤں جا رہے ہیں وہا ں ہمارا کام آ گیا ہے۔ راکیش کو کچھ شک ہوا مگر پھر وہ سو گیا۔

اسے دیپک کی باتوں پر اتنا یقین نہیں ہوا اورصبح پھر وہ شہر نوکری کی تلاش میں نکل گیا۔ بس اسٹینڈ کچھ دور تھا اور رکشہ کرایہ میں پیسہ خرچ کرنے کے بجائے وہ پیدل ہی نکل گیا۔ کچھ دور چلا ہی تھا کہ اس نے راستہ میں دیکھا کہ ایک بھیڑ ہے جس نے ایک مجبور کو پیڑ کے سہارے باندھ رکھا ہے اور اسے لاٹھی ڈنڈوں سے مار رہا ہے۔ وہ مجبور اس سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے اور زور زور سے چیخ رہا ہے جس کی آواز دور تک جا رہی تھی۔

جب وہ قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ایک شخص دھار دار ہتھیا لیے ہوا، اس کی طرف بڑھ رہا ہے تبھی اچانک بھیڑ کو چیرتا ہوا ایک شخص اس کی طرف بڑھا اور اس ظالم کے چاقوا والے ہاتھ کو پکڑ کر موڑ دیا۔ اس پر خونی بھیڑیوں کی بھیڑ اس پر ٹوٹ پڑی پہلے تو پیڑ سے بندھے شخص کو چاقو سے گوندھ کر مارڈالا اب اس بچانے والے کو بھی یہ خونی بھیڑ بری طرح سے مارنے لگی مگر اس نے اس کا بھرپور مقابلہ کیا۔ اب راکیش سے رہا نہیں گیا اس نے پوچھا تم لوگ اسے کیوں مار رہے ہو۔ ایک کی جان لے لی اسے بھی مار ڈالنا چاہتے ہو؟

اس پر بھیڑ کے ایک بھیڑے نے کہا: ابے تو کون ہے؟ یہ میاں جی تیرا کون ہے۔ یہ ہمارے بیچ میں کیوں آیا؟ اس پر اس نے کہا: میرا نام راکیش ہے اور یہ کوئی میرا رشتہ دار نہیں مگر انسان ہونے کے ناطے یہ میرا بھائی ہے۔ اس پر ایک بھیڑیے نے کہا: تو راکیش ہے پھر تو میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ مگر ہمارے بیچ مت آ ہم اسے نہیں چھوڑیں گے۔ بڑا ہیرو بن رہا تھا، بچانے آیا تھا۔ اب دیکھتا ہوں کون اسے بچائے گا۔

راکیش نے کہا دیکھ بھائی تو اسے چھوڑ دے ورنہ اب مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ اب بھیڑ اس پر ٹوٹ پڑی مگر راکیش بھی بڑا بہادر تھا، اس نے ایک کو چت کیا دوسرے کی گردن مموڑی اور تیسرے کے پیٹ پر گھونسا مارتے ہوئے کہا:
تم لوگ بھیڑ کے بھیڑیے ہو۔ جوانسانوں کی زندگی کی قیمت نہیں جانتے اور فرش پر پڑے تنویر کو اٹھایا، تم لوگ ایسے بھیڑیوں کے منہ کیوں لگتے ہو۔ اس پر تنویر نے جواب دیا: بھائی ہم لوگ کسی کے منہ نہیں لگتے۔ اس نے چور چور کہہ کر دلت سماج کے اس لڑے کو دبوچا اور بری طرح مارنے لگے، وہ ہمارے پڑوس کا ہی لڑکا تھا۔ مجھ سے رہا نہیں گیا۔ سو میں اس کے بچاؤ کے لیے آگے بڑھا تو یہ لوگ مجھ پر ٹوٹ پڑے۔
وہ تو خدا کا شکر ہے کہ اللہ نے تمہیں وقت پر بھیج دیا۔ راکیش نے کہا ایسے لوگ انسان نہیں بھڑیے ہیں، مقتول کے اہل خانہ کو اطلاع دی وہ لوگ آئے اور اپنے مردہ بچے کو لے کر روتے بلکتے پولس چوکی چلے گئے اور راکیش تنویر کو لے کر قریب کے اسپتال کی اور چل پڑا۔

شام کو راکیش واپس اپنے اس نئے دوست دیپک شرما کے ٹھکانے پر پہنچا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ معلوم ہوا پولیس نے بڑے دبا میں آکر اسے گرفتارکیا ہے۔ وہ ان خونی بھیڑ کے بھیڑیوں کا سرغنہ تھا، جو الگ الگ علاقوں میں خوف و حراس کا ماحول بنا کر بھیڑ کا خونی کھیل کھیلتا اور لوگوں میں نفرت پھیلانے کاکام کرتا تھا۔ جس کے لیے بڑے بڑے لوگ اسے فنڈنگ کر رہے تھے۔٭٭٭
(محب اللہ قاسمی)

Comments are closed.