Baseerat Online News Portal

مرد کے مقابلے خواتین اساتذہ کی تقرری!!!

محمد صابر حسین ندوی

آزادئ نسواں کے سنہرے نعروں کا مقصد اس سے زائد کچھ نہیں کہ صنف نازک کو گھروں سے نکال کر مردوں کی تسکین کا ساماں بنایا جائے، گھر کی زیب وزینت اور اولاد ترکی تربیت کے فریضہ سے سبک دوش کر کے بازار کی رونق اور مردوں کی ہوس بھری نگاہوں کو قرار دیا جائے، خواہ وہ تعلیم ہی کے نام پر کیوں نہ ہو؛ چنانچہ عام طور پر جنس مخالف اساتذہ کی تقرری بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، شرعی اعتبار سے یہ بات واضح رہے کہ اسلام عورتوں کی ترقی وآزادی اور تعلیم وتعلم میں سبقت لے جانے کا قطعاً مخالف نہیں؛ بلکہ یہ اس کا داعی وحامی ہے، بس حدود و قیود کا خیال رکھا جائے، ہر ایک اپنے اپنے دائرہ عمل میں سرگرداں رہے، اگر کوئی اسلام پر خواتین کے تعلق سے قدامت کا الزام رکھتا ہے، تو اس سے بڑا ظالم کون ہوگا؟ ذرا غور کرنے کی بات ہے کہ قرآن کریم نے خود عورتوں کو مسند استاذ پر رونق افزاں ہونے کا یک گونا حکم دیا ہے،اس آیت کو بغائر پڑھیے: واذکرن مایتلی فی بیوتکن من آیات اللہ والحکمۃ۔۔۔(احزاب:۳۴)۔ یہی وجہ ہےکہ عہد صحابہ میں بہت سی صحابیات ؓ کا درس و تدریس میں وہ مقام تھا، جن سے بہت سے صحابہ کرامؓ بھی قاصر تھے، ان میں سر فہرست نام ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا ہے، حتی کہ ان کا عالمانہ مقام اتنا بلند تھا کہ اکابرین صحابہ کرامؓ بھی آپ کی رائے نہ ٹالتے تھے، تو وہیں آپؓ ان اصحاب میں سے ہیں جن سے سب سے زیادہ مرویات رسولﷺ ہیں، آپ کی کارکردگی علمی و سیاسی طور سورج سے بھی زیادہ نمایاں اور مردوں کی دنیا میں قابل رشک ہیں، تقریبا یہی حال تمام ام المومنین کا تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج بھی عورتوں کےلیے وہ دروازہ کھلا ہوا ہے؛ البتہ شریعت اسلامی کے چنداصول وہدایات کا پاس ولحاط ضروری ہے:۔
۱۔عورتوں کےلیے افضل ترین امر یہ ہےکہ وہ گھروں میں رہیں،قرآن کریم میں بہت صاف انداز میں اس کا حکم موجود ہے۔(احزاب:۳۳)
۲۔درس وتدریس کےلیے ان اداروں کا انتخاب کریں، جہاں مردوں سے اختلاط نہ ہو،کیوں کہ مردوعورت کا اختلاط حرام ہے۔
۳۔اگر جنس مخالف ہوں تو شرط ہےکہ حجاب کا التزام مع چہرہ ہو، خیال رہے اگرچہ پردے کے دائرے سے چہرہ مستثنی نہ ہو؛ لیکن وہ محض ضرورت پر ہے، اس کا ناجائز فائدہ اٹھانا اور اپنی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنانا شریعت سے کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے؛ البتہ نابالغ طلبہ ہوں تو کوئی حرج نہیں۔
۴۔یہ بھی ضروری ہےکہ جنس مخالف سے خلوت نہ ہو، کیوں کہ یہ فتنے کا عظیم ذریعہ ہے،اور شرعی اعتبار سے حرام ہے۔
۵۔آواز میں حد سے زیادہ پستگی وشیرینی نہ اختیار کی جائے کہ شہوت رسانی کا باعث بنے ۔
۶۔علامہ سعید رمضان البوطی اور محمد بن مختار شنقیطی نے یہ شرط بھی لگائی ہےکہ: اداروں پر لازم ہے کہ اگر ہم جنس اساتذہ نہ ملیں، تب ہی غیر جنس اساتذہ کی تقرری کی جائے۔(دیکھیے! البوطی:naseemaislam.co،شنقیطی:ar.islamway.net،نیز :islamweb.net)۔

واقعہ یہ ہےکہ چند پیسوں کی خاطر جنس مخالف کی تقرری مناسب نہیں، خواہ پردے کا خصوصی لحاظ ہی کیوں نہ رکھاجائے؛،کیوں کہ عورت ’’حبالۃ الشیطان‘‘ ہے، فتنہ و فساد اس کے ذریعہ خود راستہ بنا لیتے ہیں، شاید یہی وجہ ہےکہ اسلام نے عورتوں کو اذان وامامت حتی کہ امام کو لقمہ دینے کےلیے بھی آواز نکالنے سے منع کیا ہے، (ہدایہ:اول۔کتاب الصلاۃ) نیز یہ بھی قابل غور امر ہےکہ پردہ گرچہ عورتوں کو مردوں سے محفوط کردے؛ لیکن خود عورت غیرمحرم مردوں کو دیکھنے کا ارتکاب کرتی ہے،ایسے میں وہ خود اپنے آپ کو فتنے سے کیسے بچائے گی! ،عہد نبوی کا ایک واقعہ یوں آتا ہے کہ: ام المؤمنین حضرت أم سلمہؓ اور میمونہ رضی اللہ عنہا حضورﷺ کی موجودگی میں دولت کدے پر تشریف فرماتھے کہ نابینا صحابی ابن ام مکتوم ؓ نے حاضری کی اجازت چاہی، اس پر آپ ﷺ نے ازواج مطہرات کو پردہ کرنے کا حکم دیا، حضرت ام مؤمنین ام سلمہؓ نے عرض کیا؛ کہ وہ تونابینا ہیں، یعنی وہ تو ہمیں نہیں دیکھ سکتے، پھر کیوں پردہ کیا جائے؟ اس پر آپ ﷺ نے جواباً فرمایا: لیکن تم تو بینا ہو ’’أفعمیاوان أنتما ألستما تبصرانہ‘‘ (ترمذی:۲۷۷۸) آپ فرمان پر نظر ڈالیے! صاف اندازہ ہوتا ہے کہ آپﷺ نے اس طرز پر ناراضی کا لہجہ اختیار کیا، ایسے میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو خواتین مردوں کو طعنہ دیتی ہیں،اور اپنی آزادی کا رونا روتی ہیں، وہ دراصل تعلیمات نبویﷺ سے روگردانی کر رہی ہیں، چنانچہ اس سلسلے میں حتی الامکان محتاط پہلو پر عمل کیا جائے۔ واللہ اعلم

Comments are closed.