Baseerat Online News Portal

فکر اسلامی کو درپیش معاصر چیلنجز

 

ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی

صدر شعبہ اسلامیات، عالیہ یونیورسٹی کلکتہ

یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ کوئی بھی شخص علم کے کسی بھی شعبے میں تخصص وامتیاز حاصل کرلے ، اس کا قلب وذہن ذکر الٰہی اورخشیت الہی سےسر شار نہ ہوتو، وہ کامل مومن نہیں ہوسکتا۔لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی ایک شعبہ علم نہیں کہ صرف اسی کی اصلاح کی جائے یا اسی میں مہارت حاصل کی جائے۔ان گنت شعبے ہیں ،جس کا ادراک یا اس میں کمال پیدا کئے بغیر صالحیت اور سالمیت کا تصور ممکن نہیں۔مگر یہ کا م تنہا فرد واحد یا چند افراد کے ذریعے انجام نہیں پاسکتا ۔بلکہ ہر فرد کے لئے اس ذمہ داری کو سمجھنا اور اس کو انجام دیناازحد ضروری ہے۔تبھی جاکر سماج ومعاشرہ میں استحکام اور دوام پیدا ہوسکتا ہے ۔

اسی تناظر میں جب ہم فکر اسلامی کی ترویج وتفہیم اور اس کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں تو گلوبلائزیشن کے ا س تیز رفتار دور میں اسے مختلف قسم کے چیلنجزکا سامنا ہےاور جو بہت مہلک ثابت ہورہے ہیں۔ یہ داخلی بھی ہیں اور خارجی بھی، علمی بھی ہیں اور فکری بھی،سیاسی بھی اور مادی بھی،ثقافتی بھی اور تہذیبی بھی، سماجی بھی ہیں اور معاشرتی بھی۔ جب کہ ایک طویل عرصے تک فکر اسلامی کےترجمان اور شارحین نے قرآن وحدیث کی روشنی میں امت کی جو رہنمائی فرمائی ، اس کا تعلق براہ راست دین سے ہو یا سیاست سے یاپھر اس کا تعلق سماج و معاشرہ سے ہویا پھر زندگی کے کسی بھی شعبے سے ، وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی قریب میں قوموں اور ملکوں کے حالات میں جو غیر معمولی تغیر واقع ہوا ہے،اور جو لا دینیت اور دہریت سے بھی لبریز ہے، اور جسے کہیں نہ کہیں ہر انسانی ذہن قبول کرنے کو تیا ر ہے ، تو پھر اس کے لئے ایسی کوئی سبیل نکل کر کیوں نہیں آتی جو نافعیت سے لبریز ہو، اور جس میں اختلافات کے بجائے یگانگت اور ہم آہنگی ہو۔نہ یہ کہ اسے یہ کہہ کر یکسر مسترد کردیا جائے کہ یہ مغرب کی ایجادات ہیں جو قابل قبول نہیں ہیں۔

فکر اسلامی کی تفہیم کا دائرہ کار بھی بہت وسیع ہے۔ یہ پوری انسانی زندگی پر حاوی ہے۔ جب کہ اسلام کسی خاص خطہ یا رنگ ونسل یا کسی قوم کے لئے بھی نہیں ہے ، بلکہ یہ آفاقی ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ بالخصوص مسلمان اس کے دائرہ میں براہ راست آتے ہیں کہ ان کا ایمان وایقان اسلام پر ہے اور پوری زندگی اسی کے قائم کئے ہوئے خطوط میں رہ کر گزارنے ہوں گے ۔ ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین. کا مطالبہ بھی یہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ اصول تو ہمیشہ ایک ہی رہیں گے جو قرآن وحدیث سے مربوط ہیں ، البتہ فروعات میں حالات کے پیش نظر تبدیلی ممکن ہے۔ لیکن یہ فروعی تبدیلی بعض وقت جنگ وجدل کا پہلو اختیار کرلیتے ہیں جو یقینا فکر اسلامی کے ترویج واشاعت کے لئے مضر ہیں اور خود امت مسلمہ کے لئے انتشار کا سبب بنتے ہیں۔لیکن اس وقت جو بہت بڑا چیلنج درپیش یہ ہے کہ جدید تحقیقات کے نام پر اسلام کے اصولوں کو ہی بدل دیا جائے اور جس کا نام نیا اسلام یا موڈرن اسلام رکھا جائے ، جو کہ ممکن ہی نہیں اور امت کا بڑا طبقہ اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے ، کیوں کہ یہ لادینیت پر مبنی ہے ۔جب کہ اس آ واز میں ہمارے بعض نافہم مگر بااثر مسلمانوں کا ایک طبقہ بھی ہم نوائی کرتا ہو ا نظر آتا ہے ۔

فکر اسلامی کو درپیش معاصرچینجزب کی تفیمع وتشریح کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اسلامی تعلیمات اور پورے اسلامی نظام زندگی کو سیدھے سادے اور صاف ستھرے انداز اور لب ولہجے میں پیش کیا جائے، اور راسخ اجتہاد کی گنجائش نکلتی ہو تو اسے بھی روبہ عمل لایا جائے تاکہ اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجو بالخصوص مغرب کی طر ف سے نئے نئے قالب میں نہ صرف پیدا کئے جاتے ، بلکہ پروپیگنڈے کے زور پربڑے پیمانے پر پھیلائے جارہے ہیں اور جس کا شکار مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ہو رہا ہے جو جدید تعلیمی نظام زندگی کو اپنی ترقی اور بلندی کا معیار سمجھتا ہے ۔

اس وقت پوری دنیا نئے نئے چیلنجز سے چڑمڑارہی ہے۔ مگر اس میں بالخصوص فکر اسلامی کو ہی شدید خطرہ لاحق ہیں۔جس کاازالہ قرآن وحدیث کا پیش کردہ اصول "الدین یسر” کے مطالبات کو سامنے رکھا جائے تب ہی ممکن ہوسکے گا، مگرپھر یہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طریقہ کا ر کیا ہو۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ منطقی اور کلامی ادوار کو ہم نے مصلحت کے پیش نظر بتج پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اس کی تدریس اور تفہیم فی زمانہ مشکل بھی ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، سرسید، شبلی، وغیرہ جو فکر اسلامی کے شارح اور امین مانے جاتے ہیں ،یا ان سے بہت پہلے غزالی، رازی، رومی وغیرہ نے اس راہ کے ذریعہ جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ، اس روش کو معاصر عہدمیں اختیار کرنا اس لئے بھی زیادہ کار آمد معلوم نہیں ہوتا کہ اس دقیق فن یا علوم کو ہم نے اپنے نصاب سے بھی خارج کردیا ہے ۔اب ہمارے پاس یہی طریقہ کار رہ جاتا ہے کہ پوری دیانت داری اور اور محنت ولگن سے اپنے علمی سرمایہ کو محفوظ کریں اور اس کی تفہیم وتشریح اس انداز میں کریں جو سب کے لئے سمجھنا اور سمجھانا سہل ہو۔

اس وقت تعلیمات اسلامی کے اصل مآخذ کو مشکوک ٹھہرانے کی جو منظم کو شش کی جارہی ہے ، وہ ایک طویل بحث ہے ۔لیکن اسی کے ساتھ انسانی زندگی کے تمام شعبے اس کی زدمیں براہ راست آتے ہیں۔ اسلام نے ہر چیز کا ایک دائرہ بڑے ہی شد ومد کے ساتھ بیان کردیا ہے ، جو افراط وتفریط سے پاک ہے۔ مگر کیا کہا جائے اس ہٹ دھرمی کو کہ اسلام کو اسلامائزیشن کرنے کے لئے پوری دنیا تلی ہوئی ہے۔ چودہ سو سال پہلے کا اسلام آج کے موڈرن زمانہ کے لئے ناکافی ہے۔یہ خام خیالی کسی بھی زاویے سے درست نہیں ہے۔امت مسلمہ کو بڑی ذمہ داری کے ساتھ اس کا دفاع کرنے لئے آمادہ رہنا ہوگا اور اسی کے ساتھ اس کا متبادل بھی پیش کرنا ہو گا کیوں کہ دنیا جدید سائنسی علوم اور جدید ایجادات کے نام پر بہت زیادہ ترقی کرچکی ہے۔

یہاں اس امر کو بھی ملحوظ رکھا جائے کہ نظام زندگی یا طریقہ زندگی کا اسلام نے جو نظریہ پیش کیا ہے یا نمونہ فراہم کیا ہے ، وہ موجودہ فکری ، وتہذیبی چیلنجز سے بہت زیادہ متصادم ہے اور یہ تصادم صرف مغربی یا یورپی ممالک میں ہی برقرار نہیں ہے ، بلکہ یہ پورے مسلم ممالک میں بھی ہلچل پیدا کردیا ہے اور خود سنجیدہ کہلانے والے مسلم ممالک اس کا پر زوز انداز میں استقبال کرتے نظر آتے ہیں۔ اس تبدیلی پر بھی بہت جلد اور منظم انداز میں لگام لگانے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ فکر اسلامی کی تفہیم وتشریح کے لئے ایسے لوگ بھی راہ کے کانٹے بن رہے ہیں ۔ جب اپنے ہی ستم کریں گے اپنے علمی وفکری اثاثہ پر تو دوسروں سے بھلائی کیا توقع کی کاسکتی ہے۔

ظاہر ہے کہ اس کے لئے خاص کر اس نوجوان طبقہ کو سامنے آنا پڑے گا یا لانے پڑے گا جو ایک طویل مدت ایک ایسے ماحول میں وقت گزارکر باہر نکلتا ہے جو قرآن وحدیث کے مطالب کو سمجھتا تو ضرورہے مگر اس کے مفاہیم اور مطالیب کی تشریح وتعبیر میں آج کے موڈرن طبقہ کے مقابلے میں خود کو بہت پیچھے پاتا ہے۔جس کی بنا پر غلط فہمیاں بڑھتی جارہی ہیں ،یقینی بات ہے ملک وملت کے لئے فکر اسلامی کی تعبیر وتشریح میں ایک ایسی سبیل کی بھی ضرورت ہے جسے قدیم پیرائے میں نہیں بلکہ جدیدقالب میں پیش کرنے کی ضرورت ہے ، اس کے لئے مزاج بھی تیار ہے اور ماحول بھی۔ بس ایسے افراد کے لئے اس ماحول میں رسائی کی راہ ہم وار کی جا ئے جو قدیم صالح اور جدید نافع کا علم بردار ہو۔ اسی طرح اس کے برعکس معاملہ یہ بھی ہے کہ عصری درس گاہوں کے پروردہ دین یا فکراسلامی کی روح سے یکسر محروم ہونے کے سبب سرے سے اسلام کی نافعیت کو ناکارہ سمجھنے لگتے ہیں، جو قطعی درست نہیں ہے، اسے بھی ذہن میں رکھ کر ایسے ہی ماحول کی ضرورت ہے، تاکہ دونوں طبقات یا گروہوں میں فکری ہم آہنگی کا ماحول پروان چڑھے، جو فکر اسلامی کو مطلوب ومحمود ہے۔

آخر میں اس نکتہ کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ایک مستحکم نظام تعلیم یا سسٹم وہ بھی تھاجسے ہمارے فکری رہنما ؤں نے قرآن وحدیث کی روشنی میں اخذ کرکے ایک طویل عرصے تک نہ صرف دین ومذہب کی خدمت کی بلکہ پوری دنیا کی امامت کے ساتھ بلا تفریق دین ومذہب انسانی ضرورتوں کی تکمیل کی۔اس کے برعکس ایک رائج نظام تعلیم یا سسٹم جسے ہم مذہبی یا دینی نظام تعلیم کا نام دیتے ہیں، اس سسٹم کو لے کر یہ دعویٰ کیا جاسکتا کہ یہ پوری انسانی زندگی کی ضرورتوں کی نگہ داشت کرتا ہے۔ اس فرق میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ،تبھی جاکر مغربی نظام تعلیم کا متبادل پیش کرنے میں کا میاب ہوسکتے ہیں ، اس کے بعد پھر اس دعوی کا ادعا ممکن ہو سکے گا کہ فکر اسلامی ایک ایسا سرمایہ ہے جو کسی دوسرے نظریے کا محتاج قطعی نہیں ہے اور یہ ہر زمانے کے لئے موثر رہا ہے۔یہ وضاحت اس لئے بھی بے معنی نہیں ہے کہ معا صر فکری دانش وروں نے بھی اس کم زوری محسوس کیا ہے اور اس کی تجدید واحیا کے لئے اپنے اپنے طور پر ماحول سازگار کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ بقول ایک دانش ور:

‘‘یہ درست ہے کہ مسلمانوں کے انحطاط اور زوال پذیری میں اسلام کا کوئی رول نہیں ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس وقت اسلام کے بارے میں مسلمانوں کا جو فہم ہے اس میں کسی قسم کی اصلاح کی بھی ضرورت نہیں۔ نظر آتا ہے کہ اسلام کردار سازی پر جو زور دیتا ہے اس میں کمی آئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام میں عدل، اخوت انسانی اور برداشت ورواداری کے انفرادی اور اجتماعی اوصاف کو جو اہمیت حاصل رہی ہے وہ آج نہیں پائی جاتی۔ اس صورت حال کی بڑی وجہ شاید بعض تاریخی عناصر ہیں جو صدیوں ناجائز سیاسی اقتدار ، تعلیمی وسائل کی کمی، معاشرہ اور معیشت کا انحطاط اور عدم مساوات کی بنا پر پیدا ہوئے تھے اور جو کمی رہ گئی تھی اسے طویل عرصہ تک خارجی طاقتوں کی غلامی نے پورا کردیا ۔ چنانچہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم اسلام کی صحیح تفہیم کے بغیر اس صورت حال کو ٹھیک کرسکیں جس کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ اسلام کے نام پر تعلیم اداروں اور بالخصوص مدارس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے ، اس کے نصاب میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں۔ اس ترمیم شدہ نصاب میں زیادہ اہمیت مقاصد شریعہ اور حسن خلق کو دی جانی چاہئے۔

Comments are closed.