Baseerat Online News Portal

چلو ڈھونڈتے ہیں جئے پرکاش نارائن کو!

عمر فراہی

کہا جاتاہے کہ جمہوری طرز سیاست یعنی لوک تنتر میں عوام کو بلا خوف کسی ظلم و زیادتی کے خلاف اپنے خیالات کے اظہار اور چیخنے چلانے کی آذادی ہوتی ہے ۔آذادی کے بعد کئی دہائیوں تک مسلمانوں نے بھی اپنے اس حق کا استعمال خوب کیا اور کسی حد تک جمہوریت نواز اب بھی کر رہے ہیں لیکن اس بولنے کی آذادی سے نہ تو کسی کو کوئی فائدہ پہنچا اور نہ ہی وقت کے انا ہزارےحکومتوں کی بدعنوانی اور جبر کے خلاف عوام کو ہی بیدار کرسکے ۔ہاں اس بولنے کی آذادی سے حکومتی ایجنسیاں ایسے جرآت مند افراد اور تنظیموں کی ذہنیت اور عزائم سے ہوشیارضرور ہوگئیں۔ آذادی کے بعد ملک میں جماعت اسلامی اور سیمی نے بھی بہت ہی جوش و خروش اور شدت سے اپنے اسی جمہوری حق کا استعمال کیا لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ موجودہ جمہوریت دجال کا بچھایا ہوا جال ہے ۔عام لوگوں کی طرح جماعت اسلامی کے لوگوں کا بھی کہنا تھا کہ سیمی نے جارحانہ رخ نہ اختیار کرکے معتدل رویہ اختیار کیا ہوتا تو شاید تنظیم پر پابندی نہ لگتی۔لیکن انہیں بعد میں احساس ہوا ہوگا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی اپنی زبان اور اسلوب میں ایسی کوئی جارحیت اور شدت پسندی نہیں تھی پھر بھی وہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔

اس کے برعکس ہندو فرقہ پرست طاقتیں جنھیںں آزادی کے بعد سے ہی سرکاری پست پناہی حاصل رہی ہے مسلسل انتہا پسندی اور دہشتگردی کا مظاہرہ کرتے رہی ہیں مگر سرکاری ایجنسیوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تو اس لیئے کہ جمہوریت میں بھی جبر وہی ہوتا ہے صرف جبر کا پیمانہ بدلتا ہے ورنہ ایسا کیوں ہے کہ سیکڑوں تیاگی اور ونجارہ جیسے پولیس آفیسر آزاد رہے اور سنجیو بھٹ کو سلاخوں کی ہوا کھانی پڑے ؟عشرت جہاں کی ماں آج بھی اپنی مردہ بیٹی پر سے دہشت گردی کے داغ دھونے کیلئے عدلیہ کے چکر کاٹے اور سادھوی پرگیہ پارلیمنٹ میں پہنچ جاۓ ؟

بدقسمتی سے اب ملک کے کسی حصے میں اگر کوئی انتشار اور بدامنی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو سماج کا ہر بیدار طبقہ سوشل میڈیاپر اپنے مثبت اور منفی خیالات کے ساتھ اپنی بھڑاس نکالنا شروع کردیتا ہے ۔ خاص طور سےٹوئٹر فیس بک اور وہاٹس اپ میڈیا نہ صرف اطلاعات و نشریات کا ایک خوبصورت سنگم بن چکا ہے جس کے اگر کچھ نقصانات ہیں تو فاںُدے بھی ہیں -انٹرنٹ میڈیا کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف پوری طرح آذاد ہے ہر آدمی اپنے آپ میں ایک اخبار اور اس کا مدیر بھی ہے اور اپنی ذہنیت کے مطابق بغیر کسی روک ٹوک اور اصلاح کے کچھ بھی لکھتا ہے اور کسی تک بہت آسانی کے ساتھ اپنی بات کو بہنچانے میں کامیاب بھی ہے -اس لیںُے کسی زمانے میں اخبارات میں جہاں صرف صحافیوں اور لکھاریوں اور مدیران کے ذریعے کسی قوم کی ذہنیت پرکھی جاسکتی تھی برقی ٹکنالوجی کے دور میں سوشل میڈیا ہرخاص و عام کی ذہنیت کو پوری طرح بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے -کسی نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ ہر انسان اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہوا ہے اگر اسے سمجھنا ہے تو اسے بولنے دو !

لیکن یاد رکھیں جمہوریت میں یہ بولنے کی آذادی جب تک کہ گاندھی۔۔ دابھولکر۔۔ گلبرکی۔ پنسارے اور گوری لنکیش کی شکل میں اثر انداز نہ ہونے لگے صرف کتوں کے بھونکنے کے جیسی ہے ۔سنجیو بھٹ تیس سال پہلے کے معاملے میں گرفتاری اور پھر عمر قید کی سزا اس لئے بھگت رہے ہیں کہ انہوں نے گجرات فساد کی سچائی کو بے نقاب کیا تھا اور اپنے معطل کئے جانے کے بعد بھی وہ اپنے ٹوئٹر اور فیس بک اکاؤنٹ سے آواز بلند کرتے رہتے تھے اور اب اداکار اعجاز خان کی گرفتاری نے واضح کر دیا ہے کہ لفظ جمہوریت اور جمہوریت میں بولنے کی آزادی بھی ایک سیاسی فریب ہے۔ اس طرز سیاست میں بھی آوازیں انہیں کی موثر ہوتی ہیں جو ارباب اقتدار سے قریب ہیں یا ارباب اقتدار کیلئے خطرہ پیدا کر سکتے ہیں یا پھر گولیاں کھانے اور سلاخوں کے پیچھے جانے کی جرآت رکھتے ہوں ۔ہندوستانی جمہوریت اب غیر محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان کو جئے پرکاش نارائن جیسے لیڈر کی ضرورت ہے۔چلو ڈھونڈھتے ہیں جئے پرکاش نارائن کو !کہاں ملے گا یہ !

Comments are closed.